پاکستان

’فوج دشمنی‘ تحریک انصاف کی نئی منافقت ہے

فاروق سلہریا

تحریک انصاف والے ایک طرف تو آج کل فوج کی’مخالفت‘میں پیش پیش ہیں تو دوسری طرف بعض افراد، جن کا بظاہر تعلق تحریک انصاف سے نہیں ہوتا، وہ بھی تحریک انصاف کو یہ کریڈٹ دیتے نظر آئیں گے کہ قوم یوتھ نے اور کچھ کیا ہو نہ کیا ہو، فوج کو بے نقاب کر دیا۔

پہلی بات: فوج پہلی بار ’بے نقاب‘ نہیں ہوئی۔ فوج کی ’بے نقابی‘ عروج پر تھی جب 1968ء میں ملک کے دونوں حصوں میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ پھر 1971 میں جب فوج بھارتی جیل میں قید تھی تو نقاب چھوڑئیے، برقعے بھی ناکافی تھے۔ ضیا آمریت کے دوران بھی فوج شدید طریقے سے’بے نقاب‘ ہوئی تھی۔ مشرف دور میں بھی، وکلا تحریک کی شکل میں، فوج کی ’بے نقابی‘ کا اظہار ہوا۔۔۔لیکن 1971ء کے آخری مہینے میں جو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہوا، فوج اپنی عدم مقبولیت کی جس گہرائی میں پہنچی، دوبارہ ایسا دیکھنے کو نہیں ملا۔ سو یہ کہنا کہ فوج ’پہلی بار‘ بے نقاب ہو رہی یا شدید عدم مقبولیت کا شکار ہے تو نہ صرف یہ تاریخ سے عدم واقفیت ہے بلکہ تحریک انصاف کو غیر ضروری کریڈٹ دینے کے مترادف ہے (گو اس میں بھی شک نہیں کہ فوج اِن دنوں شدید غیر مقبول ہے)۔

فوج کی عدم مقبولیت کے تازہ بیانئے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پنجاب اور کراچی کے بنائے اس تازہ بیانئے میں کبھی بھی بلوچستان، جنگ زدہ پشتون علاقہ جات یا پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی فوج بارے دہائیوں پرانی شکایات کو کبھی کسی قابل ہی نہیں سمجھا گیا۔

دوسری،اور زیادہ اہم،بات: تحریک انصاف کی تازہ’فوج دشمنی‘ منافقت اور بے اصولی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں۔

دونوں جمہوریت دشمنی میں متحد ہیں:

یہ کہ فوج ملک میں جمہوریت نہیں چاہتی، کوئی نئی بات نہیں۔ اہم بات یہ سمجھنا ہے کہ تحریک انصاف بھی جمہوریت دشمن ہے۔ اس جماعت کے اندر کوئی جمہوریت نہیں (اسد عمر نے برملا ایک حالیہ انٹرویو میں اس کا اقرار کیا)۔ گو تحریک انصاف یہ (درست طور پر) شور مچاتی ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز خاندانی اجارہ داریاں ہیں اور ان کے اندر جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں۔۔۔عین یہی حال تحریک انصاف کا ہے۔

فرق صرف یہ ہے کہ یہ خاندان شاہی کی بجائے شخصیت پرستی پر مبنی ایک فین کلب ہے۔ ہائرارکی (heirarchy)پر مبنی اس ڈھانچے میں سب سے اوپر عمران خان ہے۔ اس کے نیچے، (شاہ محمود قریشی جیسے) چھوٹے عمران خان ہیں جو اپنے اپنے حلقے میں کسی زمینی خدا سے کم نہیں۔ ان چھوٹے عمران خانوں کو الیکٹ ایبلز کا نام دیا گیا (بہت سے چھوٹے عمران خان مصیبت کے وقت چھوڑ کر چلے گئے۔ عمران خان خود بھی جلاوطنی کی تیاری کر رہے ہیں)۔ تحریک انصاف میں نہ صرف یہ کہ جمہوریت نہیں، بلکہ اس پارٹی کو جمہوری بنانے کا کوئی منصوبہ بھی موجود نہیں۔ نہ ہی اپنے سیاسی کیریکٹر کی وجہ سے یہ پارٹی جمہوری تنظیم بن سکتی ہے۔ عمران خان کے بعد یہ سیاسی فین کلب ختم ہو جائے گا۔

جماعت کے اندر تو کیا تحریک انصاف پارٹی سے باہر یعنی ملک میں جمہوریت کی بھی حامی نہیں۔ جس طرح فوج انتخابات کو اس حد تک برداشت کرتی ہے کہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکے عین اسی طرح تحریک انصاف بھی انتخابات پر اسی حد تک یقین رکھتی ہے جس حد تک ان کی جیت یقینی ہو (چاہے اس کے لئے انتخابات میں دھاندلی کرنی پڑے جیسا کہ 2018ء میں ہوا۔ وہ اس انتخابی دھاندلی کا یہ کہہ کر دفاع کریں گے کہ ہر الیکشن میں دھاندلی ہوتی رہی ہے)۔

تحریک انصاف نظریاتی لحاظ سے بھی جمہوریت دشمن ہے۔ دراصل اس جماعت کی تشکیل اور طبقاتی بنیاد اس خلا کو پورا کرنے کی کوشش تھی جو ملک میں جمہوریت دشمن مڈل کلاس کا سائز بڑھ جانے کی وجہ سے سامنے آئی۔ اگر ایک طرف اس جماعت نے فوج نے کردار ادا کیا تو اس کی مقبولیت کی سماجی بنیاد رجعتی مڈل کلاس تھی۔ اس مڈل کلاس کو یہ’سمجھ‘ نہیں آتی کہ ایک ’ان پڑھ جاہل‘ مزدور کسان کا ووٹ ایک ڈاکٹر، انجنئیر یا آئی ٹی سپیشلسٹ کے برابر کیسے ہو سکتا ہے۔ اس لئے یہ فوج کی طرح انتخابات کے صرف اس حد تک حامی ہیں جس حد تک پی ٹی آئی کی کامیابی یقینی ہو (یہ دہرانے کی ضرارت نہیں کہ جمہوریت انتخابات کی حد تک محدود نہیں ہوتی)۔

اس جماعت کی جمہوریت دشمنی واضح کرتے ہوئے راقم نے انہی صفحات پر یہ نقطہ اٹھایا تھا کہ اگر جمہوریت مکالمے (جس کی بنیاددلیل پر مبنی ہوتی ہے) کا نام ہے تو تحریک انصاف سیاست کی سب سے بڑی نفی ہے کیونکہ یہ جماعت صرف گالی پر یقین رکھتی ہے مکالمے پر نہیں۔

بنیادی سوالات پر فوج سے مکمل اتفاق:

فوج اپنا نظریاتی جواز انڈین دشمنی کے ذریعے پیش کرتی ہے۔ بوقت ضرورت فوج ’امریکہ دشمن‘بن جاتی ہے۔ گیارہ ستمبر کے بعد، افغانستان سے نفرت (مگر طالبان سے محبت) کا نظریاتی تڑکا بھی لگایا گیا۔ پنجابی شاونزم اس نظریاتی بیانئے کا ایک اہم جزو ہے (جس میں ’غیرت مند پشتون‘ اور ملک سے محبت کرنے والے ’مہاجر‘ کو بھی اکاموڈیٹ کیا جاتا ہے)۔

اس نظریاتی بیانئے سے تحریک انصاف کو رتی برابر اختلاف نہیں۔ تحریک انصاف کے کسی رہنما سے لے کر عام مگر پکے ووٹر سے بات کر لیجئے: سب جموں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیں گے، سب کی نظر میں پشتون تحفظ موومنٹ (کے رہنما) اور بلوچ قوم پرست ملک دشمن ہیں، سب کے ہاں سندھیوں اور سرائیکیوں سے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہو گی۔ سب افغان مہاجرین کو ایک مصیبت قرار دیں گے۔ سب ’امریکہ دشمن‘ہوں گے (مگر امریکی شہریت اگر موجود ہو گی تو کبھی اس سے دستبردار نہ ہوں گے)۔

نئیو لبرلزم، آئی ایم ایف بارے اتفاق رائے:

فوج کے کاروباروں بارے واٹس ایپ پر میمز بھیجنے والی قوم یوتھ سے اگر کہا جائے کہ ملکی معیشیت کی کمانڈنگ ہائٹس کو قومی ملکیت میں لئے بغیر فوج کی طاقت کو کم نہیں کیا جا سکتا تو یہ لوگ فورا بھاشن دیں گے کہ بھٹو کی نیشنلائزیشن نے ملکی معیشیت تباہ کر دی۔ سوشلزم سے اتنی نفرت امریکہ کے حکمران طبقے کو نہیں جتنی قوم یوتھ کو ہے۔

گو پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کی حکومت میں فرق کرنا مشکل ہے (کیونکہ دونوں ہائبرڈ رجیم کی دو شکلیں تھیں) مگر نئیو لبرل پروگرام کا جس قدر بڑا حامی عمران خان ہے، کوئی اور نہیں۔ قوم یوتھ کو سوشلزم تو دور کی بات، بے نظیر انکم سپورٹ جیسے معمولی رفاحی پروگرام بھی قابل قبول نہیں۔

اسی طرح، دونوں آئی ایم ایف سے قرضوں کے حامی ہیں۔ دونوں پاکستان کو قرضوں کے بھنور سے نکالنے پر تیار نہیں۔ نہ فوج قرضوں کی واپسی سے انکار پر تیار ہے نہ تحریک انصاف۔ نہ فوج اشرافیہ کی 17 ارب ڈالر سالانہ پر مبنی مراعات ختم کرنا چاہتی ہے نہ تحریک انصاف (مگر بے نظیر انکم سپورٹ دونوں کو معیشیت پر بوجھ نظر آتے ہیں)۔

قصہ مختصر، تحریک انصاف کی فوج دشمنی منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ یہ دشمنی جنرل عاصم منیر سے ہے۔۔۔جنرل ریٹائرڈ فیض یا جنرل حمید گل آج بھی ان کے ہیرو ہیں۔ عمران خان کے نزدیک پاکستان کا بہترین حکمران جنرل ایوب تھا اور قوم یوتھ کے عام کارکن بھی ایوب آمریت کو ملکی تاریخ کا سنہرا دور قرار دیتے نہیں تھکتے۔

کل کلاں اگر فوج کو دوبارہ تحریک انصاف کی ضرورت پڑی تو تحریک انصاف سے بڑا فوج دوست کوئی نہ ہو گا۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔