نثار شاہ
4 اکتوبر 2019ء کو بھمبر سے شروع ہونے والا ”آزادی مارچ“ تا دم ِ تحریر جاری ہے۔ اس مارچ کی کال کشمیری قوم پرست تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ(جے کے ایل ایف)کے یاسین ملک گروپ نے دی تھی۔ مارچ میں بلاتفریق کسی سیاسی پارٹی کے، تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ اس مارچ میں بھرپور شرکت کر کے عوام نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی آزادی کیلئے وہ جانوں کی قربانی سمیت ہر حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔
مارچ کے حوالے سے بہت ساری سیاسی جماعتوں کے جو خدشات تھے، وہ بھی کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ ان خدشات کی وجہ یہ ہے کہ مارچ کے شرکا کو صرف انڈیا مخالف نعرے بازی کی اجازت دی گئی ہے۔
انڈین کشمیر سمیت گلگت بلتستان میں اسٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی، اقوام ِمتحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان کی تمام اور انڈیا کی آدھی فوج کے انخلا، انڈین کشمیر اور گلگت بلتستان کے سیاسی قیدیوں کی رہائی سمیت کوئی بھی واضح سیاسی نعرہ اور رہنماؤں کی تقریر ایسی نہیں تھی جس سے یہ واضح ہو سکے کہ عوام کے جمِ غفیر کو جمع کرکے کنٹرول لائن کی طرف لے جانے کا مقصد کیا ہے؟
انڈیا کی طرف سے وادی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے انڈیا سمیت دنیا بھر کی سول سوسائٹی اور حکومتیں پہلے ہی انڈیا پر تنقید کر رہی ہیں اور ان خلاف ورزیوں کو بند کرنے کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں۔
بنیادی مسئلہ یہ خلاف ورزیاں نہیں۔ دنیا کے جس خطے میں بھی آزادی کی تحریکیں چلیں وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں (واضح رہے اس بیان کا یہ مقصد نہیں کہ ہم کسی طور بھی ان خلاف ورزیوں کی کسی بھی قسم کی حمایت کرتے ہیں یا ان سے صرفِ نظر برتتے ہیں۔ ہم خود ان کا شکار ہوتے ہیں)۔
اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ کیا کشمیر کے لوگوں کو صرف اس لئے مروایا جا رہا ہے کہ انڈیا کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف ڈھنڈورا پیٹا جاسکے یا اس لئے کہ ریاست جموں کشمیر کے مسئلے کو عالمی قوانین اور حق خودارایت کے اصولوں کے مطابق دنیا سے منوا کر آزادی دلوائی جا سکے۔
میری دانست اور علم کے مطابق اس وقت تک تو صرف یہی ہوا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا تھوڑا بہت ڈھنڈورا پیٹنے میں تو کامیابی ملی ہے لیکن ریاست جموں کشمیر کے قانونی پہلو کے حوالے سے دنیا کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جو پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہو۔ جو تھوڑی بہت بات ہوتی ہے وہ بھی انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کی حد تک ہی کی جاتی ہے۔
اندریں حالات گزشتہ 35 سالوں سے کشمیری عوام نے اپنی جان و مال کی جو لازوال قربانیاں دی ہیں اس کا نتیجہ مہاراجہ دور سے حاصل آزادیوں کے خاتمے کی صورت میں نکلا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تمام صورتحال کاذمہ دار کون ہے: انڈیا، پاکستان یا کشمیری عوام؟
جموں کشمیر کی عوام (سہولت کاروں کو چھوڑ کر) تو اس لئے ذمہ دار نہیں ہے کیونکہ آزادی کشمیر کے نام پر ان سے جو بھی قربانی مانگی گئی انھوں نے دی ہے۔ تو پھر ان کی تمام تر قربانیوں کو ضائع کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟
تاریخی طور پر سب سے پہلے اس کے ذمہ دار وہ سہولت کار ہیں جنہوں نے 1947ء میں ریاست میں مہاراجہ سے آزادی کی تحریک کے نام پر انتشار پھیلایا اور مذہب کے نام پر اپنے ہی ہم وطنوں کا قتل عام کرواتے ہوئے بیرونی مداخلت کاروں کو ریاست میں داخل کروا کر تقسیمِ کشمیر کی راہ ہموار کی۔ ان کی نسلیں آج تک عوام کو دھوکہ دے رہی ہیں کہ ان کے بڑوں نے کوئی آزادی کی لڑائی لڑی تھی۔
دوم، اس کی ذمہ دار وہ عاقبت نا اندیش سیاسی تنظیمیں ہیں جنہوں نے مسئلہ کشمیر کا درست سائنسی و تاریخی تجزیہ کیے بغیر ایک قابض ملک کے مفادات کی خاطر پراکسی وار کا حصہ بن کر اپنے ہی عوام کی نسل کشی کروائی۔ نتیجہ صفر۔
ایک بالکل ہی سادہ سا اصول ہے کہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ایک غلام دوسرے غلام کو، اپنے ہی آقا کی ایما اور قاعدے کے مطابق، آزاد نہیں کرا سکتا۔ اگر اسنے مدد لینی ہی ہے تو کسی غیر جانبدار ملک سے لے لیکن ایک ایسے ملک سے مدد لینا جس نے خود قبضہ کیا ہوا ہے، عقل سے عاری بات ہے۔
رہی بات اس مسئلے کے حل کی تو اس کاپہلا تقاضا یہ ہے کہ ایسا درست موقف اختیار کیا جائے جس کی بنیاد پر دنیا کو قائل کیا جاسکے کہ کشمیری عوام کے حقِ خوداردیت کا سوال عالمی اصولوں کے مطابق ہے، کشمیری اپنی آزادی کی جہدوجہد کر رہے ہیں نہ کہ کسی دوسرے ملک کی پراکسی جنگ۔ عالمی سطح پر ابھی تک تمام تر قربانیوں کے باوجود ریاستِ جموں کشمیر کے مخصوص حصے میں جاری شورش کو پاکستان کی مداخلت گردانا جاتا ہے۔
انڈیا نے اسی مداخلت کو جواز بنا کر 5 اگست 2019ء کو ریاست کو دی گئی محدود آزادی ختم کر کے ریاست پر حقیقی معنوں میں قبضہ کر لیا۔ یہ ہے وہ حاصل جو کشمیریوں کو ہزاروں جانوں کی قربانی دینے کے بعد ملا ہے۔ یہ سب ہونے کے باوجود بھی اپنی سمتیں درست کرنے اور اس مجرمانہ غفلت کے ذمہ داروں کی نشاندہی کئے بغیر کشمیریوں کو قربانی کا بکرا بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔
آزادی مارچ تو کیا جارہا ہے لیکن اس مارچ میں حقیقی آزادی کے نعرے لگانے والوں پر نہ صرف تشدد کرایا جاتا ہے بلکہ ان کے خلاف فوجداری مقدمات بھی درج کروائے جا رہے ہیں۔ معصوم عوام کو استعمال کر کے کسی دوسرے کے مقاصد پورے کئے جارہے ہیں۔ کیا اس سے واقعی کشمیر آزاد ہو گا؟ ہرگز نہیں۔
1988ء میں بھی جب نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ کو قتل کرانے کی منصوبہ بندی ہوئی تھی تو ترقی پسندوں نے اس کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے اسے غیروں کی لڑائی قرار دیا تھا۔ آخر ایسے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر لڑائی لڑنے کا کیا مقصد جس کی لگام بھی اپنے ہاتھ میں نہ ہو۔ اس لڑائی میں صرف کشمیریوں کا قتل عام کروایا گیا۔ نتیجہ صفر۔
اس مارچ نے پھر یہ سوال کھڑا کیا ہے کہ دوست اور دشمن کا موازنہ کیے بغیر ہم یہ لڑائی لڑ کیسے سکتے ہیں۔ دوست اور دشمن کا اگر موازنہ کیا جائے تو بہت زیادہ تلخ حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں۔ قارئین کرام آپ خود ہی تاریخ کو کھنگالتے ہو ے معلوم کر سکتے ہیں کہ تاریخی دستاویزات اور معاہدے کیا کہتے ہیں اور انکے مطابق کون کتنا ذمہ دار ہے۔
تقسیم ِبرصغیر 14 اگست 1947ء کو پاکستان بننے کے ٹھیک ایک دن بعد 15 اگست 1947ء کو مہاراجہ ہری سنگھ کے ساتھ ”Standstill Agreement“ کیاگیا۔ اس معاہدے کے ٹھیک دو ماہ سات دن بعد 22 اکتوبر 1947ء کو پہلی بیرونی مداخلت کرتے ہوے قبائلی لشکروں کو کشمیر میں داخل کر کے معصوم کشمیریوں کا قتل عام کروایاگیا۔ اوراقوامِ متحدہ کی 13 اگست1948ء کی قرار داد میں کشمیریوں کے لامحدود حق خودمختاری کو ختم کروایا گیا۔ مندرجہ بالا اقدامات کس نے کئے؟
اقوامِ متحدہ کی طرف سے بھیجے جانے والے رائے شماری کمیشن کو رائے شماری سے قبل فوج نکالنے سے کس نے دو مرتبہ انکار کر دیا تھا؟
شملہ معاہدے کے ذریعے اپنے 90 ہزارقیدیوں کی رہائی کے لئے مسئلہ کشمیر کو عالمی فورم سے باہر نکال کر دو طرفہ مسئلہ کس نے بنایا؟
موجودہ کنٹرول لائن جسے روندنے کیلئے مارچ ہو رہے ہیں اسے سیز فائر لائن سے کنٹرول لائن کس نے بنوایا تھا؟کشمیر کی آزادی کے متوالوں مقبول بٹ، ہاشم قریشی، عبدالخالق انصاری، میر عبدالقیوم، میر عبدالمنان اور دیگر سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو عقوبت خانوں میں رکھ کر ان پر بدترین تشدد کس نے کیا؟آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں موجود بدترین کلونیل نظام کا ذمہ دار کون ہے اور وہ کون ہے جو اس خطے کے عوام کے حقوق کے تحفظ کیلئے لڑنے والے سیاسی کارکنوں کو غیر قانونی اغوا اور ان پر جھوٹ مقدمات بنانے کا ذمہ دار ہے؟
یہ وہ تلخ سوالات ہیں جن کا جواب دیے بغیر ایک درست نقطہ نظر اور حکمت عملی اختیار کرنا ممکن نہیں۔
درست خطوط پر جہدوجہد کئے بغیر وہی پہلے جیسا نتیجہ نکلے گا۔ آپ جتنے بھی آزادی مارچ کر لیں یا اپنی ایک اور نسل کو قتل کروا دیں دنیا کو اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی۔ دنیا کو اخلاقیات اور اسلام کا درس دیکر بھارت کے خلاف قائل نہیں کیا جا سکتا۔ معاشی اعداد وشمار کا چکر سرمایہ داری نظام سے مفاد حاصل کرنے کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ دنیا کی قومی آزادی کی تحریکوں کی انسانی بنیادوں پر غیر مشروط حمایت کرنے والا کوئی سوشلسٹ بلاک بھی نہیں ہے جو کشمیریوں کی تحریک آزادی کو غیر مشروط سپورٹ کرے۔
جموں کشمیر کے عوام کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے درست سائنسی خطوط پر اپنی تحریک کو استوار کریں۔ دوسروں کو غلامی سے آزاد کرانے کی بجائے تمام متنازعہ علاقوں کے لوگ اپنی اپنی آزادی کی جہدوجہد کرتے ہوئے اس جہدوجہد کو باہم مربوط کریں۔ حالیہ وقت میں جموں کشمیر پیپلز نیشنل الائنس کا قیام ایک درست اقدام ہے لیکن اس الائنس کی اسوقت تک کی سیاست ایک واضح نظریاتی موقف کی بجائے روائتی پاپولرازم کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔ اگر یہ الائنس واضح موقف کے ساتھ درست سمت میں آگے بڑھے گا تو اچھے نتائج آسکتے ہیں۔ ایک عوام دوست سیاست جب تک تقسیم شدہ جموں کشمیر کے تمام حصوں میں متبادل نہیں بنے گی، سہولت کار عوامی جذبات سے کھیلتے رہیں گے۔ اس طرح کا الائنس تقسیم شدہ ریاست کے تمام حصوں میں بننا چاہیے۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ اگر کوئی ساتھی اس مضمون کے حوالے سے کوئی متبادل نقطہ نظر یا رائے دینا چاہتا ہے تو اسے خوش آمدید کہا جائے گا۔ اس مضمون کا واحد مقصد بحث کو جنم دینا ہے۔