خبریں/تبصرے

بلوچ عوام کا اسلام آباد میں بھوک ہڑتالی کیمپ اور تربت میں ہڑتال، احتجاجی دھرنا

لاہور(جدوجہد رپورٹ) لاپتہ بلوچ نوجوان راشد حسین بلوچ کی بازیابی کیلئے نیشنل پریس کلب اسلام آبادکے سامنے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ تیسرے روز بھی جاری رہا۔ دوسری جانب تربت میں سی ٹی ڈی کی کارروائی میں ماروائے عدالت بلوچ نوجوان کے قتل کے خلاف احتجاجی دھرنا آج 7ویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔

اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے راشد حسین بلوچ و دیگر لاپتہ افرادکی عدم بازیابی کے خلاف بھوک ہڑتالی کیمپ 27نومبر کو لگایا گیا تھا، جس میں کثیر تعداد میں مرد و خواتین بدھ کے روز بھی موجود رہے۔

اس احتجاجی کیمپ میں جہانزیب محمد حسنی کی بازیابی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ ان کے اہل خانہ بھی اس احتجاجی کیمپ میں موجود ہیں، جن کے مطابق جہانزیب محمد حسنی کو 2016میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا اور تاحال وہ بازیابی نہیں ہو سکے ہیں۔

راشد حسین بلوچ کی ہمشیرہ فریدہ بلوچ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ان کے بھائی کو 2018میں یو اے ای سے اغواء کر کے پاکستان منتقل کیا گیا اور آج تک وہ منظر عام پر نہیں لایا جا سکا۔ ہمیں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ وہ کہاں ہے اور کس کی تحویل میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پانچ سالوں میں ہم نے حکومت کی بنائی گئی کمیٹیوں اور کمیشنوں میں درخواستیں دیں، عدالتوں میں اپیلیں دائر کیں لیکن ہمیں انصاف فراہم نہیں کیا جا رہا ہے۔

ادھر تربت میں پسنی روڈ پر سی ٹی ڈی کے آپریشن کے دوران بالاچ مولا بخش سمیت 4نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف منگل کو مکران ڈویژن بھر میں مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔ مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاج اب ساتویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔

’ڈان‘ کے مطابق ہڑتال اور پہیہ جام کی کال بلوچ یکجہتی کونسل کی جانب سے واقعے کے رد عمل میں دی گئی تھی۔ بالاچ کے اہل خانہ میت کے ہمراہ گزشتہ 6روز سے تربیت میں احتجاجی دھرنا دے رہے تھے۔

اس احتجاج کو سینکڑوں سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی حمایت حاصل تھی۔ تاجروں نے اپنی دکانیں بند کر کے یکجہتی کا اظہار کیا۔

گوادر، تربت، پنجگور، پسنی، ماڑہ اور دیگر علاقوں میں تمام بازار، دکانیں، مارکیٹیں، شاپنگ سنٹرز، حتیٰ کہ پرائیویٹ بینک اور دیگر ادارے بھی ہڑتال کے اثرات کی وجہ سے وسیع پیمانے پر بند رہے۔

ہڑتال کے باعث مکران ڈویژن کا کراچی، کوئٹہ اور دیگر علاقوں سے مکمل رابطہ مقطع رہا۔ لواحقین اور دیگر افراد نے سی پیک ہائی وے پر مسلسل چھٹے روز بھی دھرنا جاری رکھا۔

احتجاج کے بعد متوفی کے اہل خانہ اور بلوچ یکجہتی کونسل نے بدھ کو بالاچ کی میت کو تربت کے کوہ مراد قبرستان میں دفنانے کے منصوبے کا اعلان کیا۔

تدفین کے بعد بھی دھرنا جاری ہے اور دھرنا اس وقت تک جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے، جب تک آپریشن میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی جاتی۔

تربت میں سیشن کورٹ کے احکامات کے باوجود ایف آئی آر درج نہ کرنے پر بلوچ یکجہتی کونسل کے رہنماؤں نے پولیس اہلکاروں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ دھرنا ایک تحریک بن چکا ہے، اسے بلوچستان کے دیگر علاقوں تک پھیلایا جائے گا۔

یاد رہے کہ 24نومبر کو سی ٹی ڈی کی جانب سے مبینہ مقابلے میں کل 4افراد کو ہلاک کیا تھا۔ ان میں سے بالاچ مولا بخش، شکور بلوچ اور سیف بلوچ کی شناخت ہو گئی ہے، جبکہ ایک شخص کی شناخت تاحال نہیں ہو سکی ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts