جلبیر اشقر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاسی غیر ذمہ داری، انسانی لاپرواہی اور متلون مزاجی کا ایک اور مظاہرہ 6 اکتوبر کو ترک صدر رجب طیب اردگان کی ایک ٹیلی فون کال کے بعد کیا: انہوں نے شمال مشرقی شام سے (ہزار کے لگ بھگ) امریکی دستوں کے انخلا کا حکم دے د یا۔
یہ امریکی دستے شامی ڈیموکریٹک فرنٹ (ایس ڈی ایف) کی مدد کر رہے تھے۔ ایس ڈی ایف کثیراللسانی اتحاد ہے جس کی قیادت کرد دستے (وائی پی جی) کر رہے ہیں۔ ایس ڈی ایف داعش کے خلاف بر سر پیکار رہی ہے۔ شامی کردوں اور ان کے اتحادیوں نے اس لڑائی میں کم از کم دس ہزار انسانی جانوں کی صورت میں بھاری قیمت ادا کی ہے۔ شام میں داعش کو پسپائی پر مجبور کرنے میں کردوں کا کلیدی کردار تھا۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شام میں بر سر پیکار گروہوں میں کرد اگر واحد ترقی پسند قوت نہیں تو یقیناوہ سب سے زیادہ ترقی پسند ضرور کہلا سکتے ہیں، بالخصوص خواتین کے حوالے سے جو پیش رفت سامنے آئیں اور عورت کو جو مقام دیا گیا اس کے پیش نظر یہ دعویٰ ضرور کیا جا سکتا ہے۔
اس کے باوجود ترک حکومت تسلسل کے ساتھ انہیں دہشت گرد بنا کر پیش کر تی آئی ہے کیونکہ کردوں کا تعلق کردش ورکرز پارٹی (پی کے کے) سے ہے جو ترکی کے زیر تسلط کرد خطے میں متحرک ہے۔
ترک حکومت، جس نے شام میں داعش کی جتھے بندی سے صرفِ نظر کئے رکھا(شک تو یہ بھی کیا جاتا ہے کہ داعش کی مدد کی)، کی نظر میں اصل خطرہ کرد قومی تحریک ہے۔ ترکی نے 2016ء میں شمالی شام (افرین) پر حملہ کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ افرین پر وائی پی جی کا کنٹرول ختم کیا جا ئے۔ یہ علاقہ ہنوز ترکی کے قبضے میں ہے۔ افرین پر حملے کے بعد سے ترکی مسلسل شمال مشرقی شام (روجاوا) پر حملے کی دھمکی دیتا آیا ہے۔ یہ تو ایس ڈی ایف کے ہمراہ امریکی دستوں کی موجودگی کے باعث ترکی ایسا نہ کر پایا تھا۔
یاد رہے 6 اکتوبر کو اردگان نے پہلی مرتبہ ٹرمپ سے یہ درخواست نہیں کی تھی کہ شمالی شام سے امریکی دستے نکالے جائیں نہ ہی ٹرمپ نے پہلی مرتبہ یہ اعلان کیا ہے۔ سال پہلے بھی ایسا ہوا تھا۔
اس وقت ڈیفنس سیکرٹری جِم ماٹِس نے ڈرامائی انداز میں استعفیٰ دے دیا تھا۔ یہ استعفیٰ اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ امریکی فوج ایک ایسا قدم لینے سے ہچکچا رہی تھی جسے اس کے اتحادی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف سمجھیں گے(ایس ڈی ایف کے ترجمان نے بعینہ یہی محاورہ استعمال کیا)۔ نہ صرف یہ بلکہ پینٹا گون کو یہ بھی ڈر ہے کہ اس اقدام سے داعش کو نئی سانس لینے کا موقع مل جائے گا اور ایک ایسی بے چینی پھیلے گی جس کا فائدہ اٹھا کر ایران عراق سے ساحلی شام تک اپنا اثر و رسوخ مستحکم کر لے گا۔
اپنے ری پبلکن ساتھیوں کے دباؤ میں آ کر پچھلے سال کے آخر میں ٹرمپ نے پسپائی اختیار کر لی تھی۔ اب کی بار البتہ ٹرمپ نے اردگان سے اپنا وعدہ نبھایا ہے۔ اپنے ناقدین کو جواب دیتے ہوئے انہوں نے خود ساختہ ”غیر معمولی دانش مندی“ کی روشنی میں اعلان کیا کہ وہ ترکی کی معیشت کو”تباہ و برباد“ کر کے رکھ دیں گے اگر ترکی نے شمال مشرقی شام مین بعض نا معلوم اور مبہم حدوں کو پار کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی نیت بارے کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے۔ وہ کوئی عدم تشدد کے پیروکار نہیں جو بیرونی محاذوں پر امریکی جارحیت کے خلاف ہوں۔ یمن میں ان کے دوست ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی اتحادیوں نے جو خوفناک جنگ چھیڑ رکھی ہے، اسے ٹرمپ کی پوری حمایت حاصل ہے۔
عراق میں امریکی اڈے کی تعریف میں وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ اڈہ امریکہ کے لئے بہت اہم ہے۔ اس اڈے کا پچھلے سال انہوں نے دورہ بھی کیا تھا۔
قوموں کے حق ِخود ارادیت کی بنیاد پر قائم کیا گیا ایک حقیقی سامراج مخالف تناظر تو یہ ہو گا کہ شام سے تمام غیر ملکی افواج نکل جائیں وہ چاہے جولان کی پہاڑیوں پر 1967ء سے قابض اسرائیل ہو، ایران یا ا س کے علاقائی پراکسی ہوں، روس، امریکہ یا ترکی ہوں۔ یہ ممالک اس وقت اہم ترین کھلاڑی ہیں۔ امریکی فوجوں کو نکال کر، ترک فوج کو یہ دعوت دینا کہ وہ کرد قومی تحریک کا سر کچل دے نہ تو عدم تشدد ہے نہ ہی کوئی ترقی پسندی بلکہ یہ تو ان سب باتوں کی نفی ہو گی۔
امریکی صدارتی انتخاب کی دوڑ میں جو دو نمایاں ترقی پسند امیدوار ہیں، دونوں اس صورت حال سے بخوبی واقف ہیں اور دونوں نے 7 اکتوبر کو درست طور پر صدر ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت کی۔
سینیٹر برنی سانڈرز نے ٹویٹ کیا:”ایک لمبے عرصے سے میں یہ کہتا آ رہا ہوں کہ امریکہ کو ذمہ دارانہ انداز میں مشرقِ وسطیٰ میں فوجی مداخلت ختم کر دینی چاہئے مگر ٹرمپ کی جانب سے اچانک شمالی شام سے انخلاکا اعلان اور شمالی شام میں ترک مداخلت کی منظوری غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل ہے۔ اس کے نتیجے میں عدم استحکام اور مصائب میں اضافہ ہو گا“۔
سینیٹر الزبتھ وارن نے اپنے ٹویٹ میں کہا:”میں شام سے اپنے فوجی دستوں کی واپسی کی حامی ہوں مگر صدر ٹرمپ کا اچانک اور بلا سوچے سمجھے فوجیں نکالنا نہ صرف ہمارے اتحادیوں بلکہ ہماری اپنی سلامتی کے لئے خطر ناک ہے۔ اس تنازعے کے خاتمے کے لئے ایک حکمت عملی کی ضرورت ہے نہ کہ ایک ایسا صدر کی جو ایک فون کال سے قائل ہو جاتا ہے“۔
شمال مشرقی شام میں ترکی کا خونی حملہ فی الفور رکنا چاہئے۔ ترک حکومت کے ناٹو اتحادی بھی اس حملے سے بری الذمہ قرار نہیں دئیے جا سکتے۔ انہیں چاہئے کہ وہ انقرہ کی فوجی امداد بند کر دیں اور ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں تا آنکہ ترکی شام سے اپنی فوجوں کا انخلاکر لے۔ نیز کردوں کو اسلحہ فراہم کیا جائے تا کہ وہ ترک فوج کا مقابلہ کر سکیں۔