نقطہ نظر

روحانی غربت کا شکار معاشرہ

التمش تصدق

سرمایہ درانہ سماج نے جہاں انسان کو مہنگائی، بے روزگاری، بھوک، لاعلاجی اور جہالت کے ذریعے مادی غربت کا شکار کر رکھا ہے،وہاں منڈی کی معیشت نے انسان کی لالچ، خود غرضی،حسد اورمقابلہ بازی پر مبنی جس سوچ اور رویوں کو جنم دیا ہے، اس نے انسان کو بڑے پیمانے پر روحانی غربت کا شکار کر رکھا ہے۔اس سماج میں جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا فن تصور کیا جاتا ہے۔جو انسان اس فن سے نہیں واقف ہے وہ اس سماج میں زندہ رہنے کے لیے نہیں موافق ہے۔انسان محض دوسرے انسان کے خلاف نہیں ہے،بلکہ اپنے آپ کے خلاف بھی برسر پیکار ہے۔محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو پیٹ کی بھوک مٹانے اور دیگر ضروریات زندگی کے حصول لیے اپنی مرضی کے خلاف قوت محنت کو بیچنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے اپنے آپ کے خلاف عمل کرنا پڑتا ہے،جو عمل اسے خود سے اور سماج سے بیگانہ کر دیتا ہے۔دوسری طرف سرمایہ دار طبقے کو بے رحم استحصال، دھوکہ دہی اور لوٹ مار کے ذریعے دولت حاصل کرنے کا عمل اس سے اس کی انسانیت چھین کر اسے درندہ بنا دیتا ہے۔اپنے جیسے انسانوں کو پیروں تلے روند کر آگے بڑھنے کی خواہش اور عمل انسان کو سنگ دل اور بے رحم بنا دیتا ہے۔

انسان منڈی میں جب مقابلے کی بے رحم دوڑ دوڑتا ہے،تو وہ داخلی طور پر کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان کی جبلت کا تقاضا ہے کہ وہ دوسرے انسان سے تعاون کرے، مشکلات کا شکار انسانوں کی مدد کرے، وہ دوسرے انسانوں سے محبت کرے، ان کی قربت حاصل کرے۔دوسری جانب منڈی کی معیشت میں نجی ملکیت کے تحفظ اور اس میں اضافہ کرنے کا تقاضا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کو اپنے مالی مفادات کے لیے استعمال کرے، انہیں دھوکہ دے، ان کی محنت کا استحصال کرے۔انسان دوسرے انسانوں پر اعتماد کرنے کی خواہش کے باوجود اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔اربوں انسانوں کی موجودگی میں بھی انسان تنہائی کا شکار ہے۔محنت کش طبقے میں انقلابی حالات میں اپنے طبقاتی کردار کی وجہ سے اشتراکی عمل اور فکر پروان چڑھتی ہے،جو اسے انفرادیت اور روحانی غربت سے باہر نکالتی ہے۔

عام حالات میں محنت کش طبقہ بھی حکمران طبقے کی انفرادیت اور خودغرضی پر مبنی نفسیات کا شکار ہوتا ہے۔اس حوالے سے معروف ادیب میکسم گورکی لکھتے ہیں کہ”تمہارے آقا اتنے طاقور نہیں جتنا ان کا خیال ہے۔وہی نجی ملکیت جس کے اضافے اور حفاظت کے لیے وہ لوگ لاکھوں، کروڑوں انسانوں کی زندگی کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں، وہ انہیں روحانی اور اخلاقی طور پر ختم کر دیتی ہے۔نجی ملکیت کی حفاظت بہت مہنگی پڑتی ہے۔ در اصل تم لوگ جو ہمارے آقا ہو،ہم سے زیادہ غلام ہو۔ تمہاری غلامی روحانی ہے، ہماری صرف جسمانی۔ تم اس قابل نہیں کہ عادت اور تعصب کے جوئے کو کندھے سے ہٹا سکو۔یہ وہ جوا ہے جس نے تمہیں روحانی طور پر قتل کر دیا ہے، لیکن ہمیں کوئی قوت روحانی طور پر آزاد ہونے سے روک نہیں سکتی ہے۔“

انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تونسل انسان کی تاریخ کا 99 فیصد سے زیادہ حصہ ایسے عہد پر مبنی ہے،جس میں نجی ملکیت کا کوئی تصور نہیں تھا اور نہ انسان میں جھوٹ، فریب دھوکہ دہی، حسد اور لالچ کا کوئی تصور تھا۔ایسا اس لیے نہیں تھا کہ انسان بہت پارسا تھا،بلکہ اس لیے تھا کہ انسان کو دھوکہ دینے یا جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔ انسان اشتراکی طرز زندگی گزارتے تھے، جہاں خطرات اور بھوک سے مل کر ہی مقابلہ کیا جا سکتا تھا، زندہ رہنے کے لیے ضروری تھا کے وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں، ایک ساتھ رہیں۔خوراک کے حصول کے لیے لکڑی اور پتھر کے سادہ اوزاروں سے شکار تنہا کسی فرد واحد کے لیے ممکن نہیں تھا۔

آج جیسے کہا جاتا ہے انسان کی فطرت خود غرض اور لالچی ہے۔یہ بات حقیقت ہوتی تو انسان ہزاروں سال پہلے اس کرہ ارض سے ناپید ہو جاتا۔انسان اگر خود غرض ہوتا تو اکیلے دوسرے خونخوار جانوروں سے مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔انسان اگر خود غرض ہوتا،تو وہ طوفانوں اور آندھیوں سے نہیں مقابلہ کر سکتا تھا۔انسان کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے یہاں تک اس لیے پہنچا،کیوں کے اس نے اپنی بقا کے لیے طویل مشترکہ لڑائی لڑی ہے۔

اشتراکی سماج تو ہزاروں سال پہلے ختم ہو چکا ہے۔اس کے باوجود انسان کے لاشعور میں آج بھی دوسرے انسان کے لیے قربانی کا جذبہ موجود ہے۔دوسرے انسان کی زندگی کو بچاتے ہوئے اپنی زندگی داؤ پر لگانا،ڈوبتے انسان کو بچاتے ہوئے خود ڈوب جانے جیسی بے شمارمثالیں نظر آتی ہیں۔

کمیونسٹ مینی فسٹو کے مطابق”سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں کے درمیان برہنہ خود غرضی اور سنگ دلانہ نقد لین دین کے سوا کوئی رشتہ نہیں چھوڑا۔“جب انسانوں کے درمیان تجارتی تعلقات جنم لیتے ہیں تو تجارت کا اصول ایک انسان کا فائدہ دوسرے کا نقصان ہوتا ہے۔نقصان کا خوف انسان کو انسان سے ڈراتا ہے،فائدے کی لالچ دوسرے انسان کو دھوکہ دینے پر مجبور کرتی ہے۔منڈی میں ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے، حتیٰ کہ انسانی جذبات اور احساسات کی بھی۔ پیار، محبت اور دوستیاں بازا رمیں نیلام ہوتی ہیں۔اس نظام میں خود غرضی اور دکھاوے کی محبت اور دوستیاں بھی نبھانے کے لیے سرمایہ در کار ہوتا ہے۔محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہر طرف تذلیل اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جس سماج میں انسانوں کے درمیان بے لوث تعلقات ناپید ہوں،وہاں تنہائی، مایوسی اور بیگانگی انسان کو مصنوعی سہاروں کی تلاش پر مجبور کرتی ہے۔حقارت پر مبنی سماجی رویوں اور مفادات پر مبنی انسانی تعلقات سے گھبرا کر کبھی خونی رشتوں میں وفا تلاش کی جاتی ہے تو کبھی خاندانی ڈھانچے میں پناہ تلاش کی جاتی ہے۔انفرادی پیار،محبت،وفا جیسے رومانوی جذبات کی تلاش ہر انسان کو ہوتی ہے لیکن ہر طرف سے اسے دھوکہ، فریب اورمنافقت ہی ملتی ہے۔جہاں ہر جذبہ اورہر تعلق مفاد اور خود غرضی پر مبنی ہو، وہاں ہر روز ان جذبات کا قتل عام ہوتا ہے۔ہر روز اس قتل عام پر ماتم ہوتا ہے، بے وفائی کے روگ لگائے جاتے ہیں اور افراد کو الزام دیا جاتا ہے۔جسم سلامت ہوتا ہے لیکن روح گھائل ہوتی ہے۔اب کسی انسان پر اعتبار نہ کرنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ پھر جب وقت کا مرہم تمام زخموں کو بھر دیتا ہے تو تنہائی اور مایوسی کے کرب کا شکار انسان پھر سے نئے پیار اور نئے دھوکے کی جانب سفر شروع ہوتا ہے۔رستہ الگ لیکن منزل ایک مرتبہ پھر وہی ہوتی ہے۔

سرمائے کے کردار کو نہ سمجھنے کی وجہ سے کبھی خونی رشتوں کو دوش دیا جاتا ہے، کبھی دستوں اور پیار کو۔اس تحربے سے پھر ایک نیا نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ انسان کی فطرت میں وفا نہیں ہے،تو ایسی ہستی سے عشق کیا جائے جو دھوکہ نہ دے۔ اب اگلی منزل عشق حقیقی ہوتی ہے، تصوف اور تصور کی خیالی دنیا جس میں اپنی ہی ذات سے بیگانہ ہو کر خواہشات اور جذبات کو ختم کرنے کی ناکام سعی میں خود کو خود اذیتی میں غرق کر لینا ہے۔

روحانیت ہو یا تو رومانیت طبقاتی سماج کی پیدا کردہ روحانی غربت سے انسان کو نجات نہیں دلا سکتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ یہ دنوں فلسفے انسانی روحانی غربت سے نجات کا وسیلہ نہیں بلکہ روحانی غربت کی پیداوار اور اس کا اظہار ہیں۔روحانی غربت مادی غربت کا ناگزیر نتیجہ ہے۔نجی ملکیت اور دولت کی غیر مساوی تقسیم نے جہاں اکثریتی انسانوں کو بنیادی مادی ضروریات سے محروم کر کے ان کو حیوانیت کی سطح سے نیچے گرا دیا ہے، وہاں دولت کے حصول کی نہ ختم ہونے والی ہوس نے حکمران طبقے کو کروڑوں محنت کشوں کے لہو پر پلنے والا درندہ بنا دیا ہے۔طبقاتی سماج کے خاتمے کے بعد ہی انسان مادی اور روحانی غربت سے نجات حاصل کر سکتا ہے، جہاں خوشی کا معیار دولت کا حصول نہیں بلکہ انسان کی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا نکھار اور ذات کا معیار ہو گا، جہاں ہر انسان فنکار ہو گا۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔