طارق علی
(طارق علی کی کتاب‘بنیاد پرستیوں کا تصادم’ 2023میں شائع ہوئی۔ اس کا ترجمہ درجن بھر زبانوں میں ہوا۔ مسلم دنیا اور سامراج بارے اس کتاب کا اردو ترجمہ مدیر جدوجہد فاروق سلہریا نے کیا۔ اس کتاب کا ایک باب قارئین کی دلچسپی کیلئے پیش کیا جا رہا ہے)
انڈونیشیا کے جزیرہ بورو پر مقید ایک قیدی آٹھ سال تک ہر رات ظلم، بیماری اور دبے پاؤں آنے والی مخبوط الحواسی سے لڑنے کے لئے اپنے ساتھ قید سیاسی مجرموں کو قصے کہانیاں سناتا۔ یوں ان کے دل میں امید کی شمع روشن رہتی۔ اس کی باتیں سنتے سنتے قیدی لمحہ بھر کو بھول جاتے کہ وہ کہاں ہیں اور کس نے یہ طویل مصیبت ان کے سرمونڈھ دی ہے۔ یہ قصہ گو انڈونیشین بائیں بازو کا معروف دانشور اور شاندار لکھاری پروموئدا آنتا توئر تھا۔ 1965ء میں جکارتہ اندر ہونے والی بغاوت کے بعد توئر نے جزیرہ بورو کے اس جہنم میں بارہ سال گزارے-97 اس جہنم کو آپ سربیائی گلاگ کا خط استوائی نعم البدل قرار دے سکتے ہیں۔ تین ہزار سے زائد راتیں پرام نے یوں کاٹیں کہ وہ اپنے سمیت تمام قیدیوں کو ایک ایسی دنیا بارے سوچنے پر مجبور کرتا جہاں ادب بے درد ہو کر تاریخ سے گھل مل جاتا ہے۔
یہ اس کی کوئی پہلی جیل یاترا تو تھی نہیں لہٰذا وہ موجودہ حالات کانوآبادیاتی دنوں سے موازنہ کر سکتا تھا۔ شک کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ تقریباً دو دہائیاں قبل جب وہ بوکت دری میں 1947-49ء کے عرصہ میں قید تھا تو ماہئیت کے اعتبار سے وہ دن اتنے برے نہ تھے۔ ان دنوں وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ولندیزیوں کے خلاف انقلابی جدوجہد میں مشغول تھا۔ بعد از آزادی سامنے آنے والے ولندیزی سوانگ رچانے والوں کے برعکس ولندیزیوں نے اس کے لکھنے پر پابندی نہیں لگائی تھی اور یہ بوکت دری ہی تھا جہاں اس نے اپنا پہلا ناول لکھا، 170 صفحات پر مشتمل پر یہ لاجواب ناول اپنی بنت اور مواد کے اعتبار سے البرٹ کا میو کی فکشن سے کہیں بہتر تھا جس کے ساتھ اکثر مغربی نقاد اس کا موازنہ کرتے تھے۔
سہار تو آمریت نے اسے بلاوجہ اور بلاجواز گرفتار کر رکھا تھا۔ وہ اس کے خیالات ناپسند کرتے تھے، چاہتے تھے کہ اس کا ذہن کام کرنے کے قابل نہ رہے اور وہ اس کی آواز چھین لینا چاہتے تھے۔ وہ انڈونیشیا کا معروف ترین ناول نگار تھا جو امریکہ اور باقی جگہوں پر ادبی حلقوں اندر بخوبی جانا جانا تھا۔ انہیں یہ ہمت تو نہیں پڑتی تھی کہ اسے سولی پر لٹکا دیں البتہ انہیں امید تھی کہ جو حالات انہوں نے اس کے لیے کھڑے کر دیئے ہیں وہ مسئلے کو خود ہی حل کر دیں گے، یہ ویسی ہی مثال تھی کہ جب فاشسٹ اٹلی میں مسولینی نے حکم دیا تھا کہ انٹونیو گرامچی کو مارانہ جائے لیکن ‘اس کا ذہن کام سے قاصر ہو جانا چاہے۔’ ایسا بھی وقت آیا جب پرام خودیہ سوچنے لگتا کہ وہ مجمع الجزائر تاپول سے کبھی زندہ واپس نہیں جائے گا۔
خاموش خود کلامی………… ایام اسیری کی دردناک سر گزشت………… اُس کا منفرد اور بھرپور انداز تحریر نئی حکومت کے منظم جبر کی داستان بیان کرتا ہے۔ جس طرح پرانے کارگو جہاز پر اسے آٹھ سو قیدیوں سمیت جزیرہ بورولے جایا گیا اسے دیکھ کر پرام کو ‘کپتان بونٹیکو کے جہاز کے قلی، ہوائی جانے والے مشنری جہاز پر اغوا شدہ چینی………… برطانوی اور امریکی جہازوں پر موجود بحر اوقیانوس کے پارلے جائے جانے والے چالیس لاکھ افریقی’ یاد آگئے۔ اہل جاوا کی حد سے بڑھی صفائی پسندی دیکھ کر ولندیزی منتظمین ان کی تضحیک کرنے کے لیے ان پر فضلہ پھینک دیتے۔ نئی حکومت کے قیدی جہاز ان پر بھی بازی لے گئے۔ قیدیوں کی کوٹھڑی اور بیت الخلاء ایک ساتھ جڑے ہوئے تھے اور طوفانی موسم کے دوران دونوں میں امتیاز ختم ہو کر رہ جاتا۔ قیدیوں کے ساتھ مسلسل بُرا سلوک کیا جاتا اور انہیں فاقوں مارا جاتا تاکہ وہی زندہ بچیں جو سخت جان ہیں۔ توئر کھانے کی شرمناک فہرست پیش کرتا ہے:
ایک ایسی خوراک کا تصور کیجئے جو گٹر کے چوہوں، پاپایا کے درختوں اور کیلے کے پودوں پر لگی پھپوندی اور ایسی جونکوں پر مبنی ہو جو کھانے سے قبل پام کے پتوں کی رگوں میں پروئی ہوئی تھیں۔ حتیٰ کہ جے۔ پی جو ہمارے قیدی ساتھیوں اندر انتہائی پڑھا لکھا تھا، بھی چھپکلی کھانے پر مجبور ہو کر رہ گیا گو وہ چھپکلی کے پاؤں کھانے سے قبل ہمیشہ علیحدہ کر دیتا۔ وہ اس کام میں خاصا ماہر ہو گیا تھا۔ وہ ا س کے پاؤں کاٹ ڈالنے کے بعد اس بدقسمت مخلوق کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی میں دبا لیتا اور گلے میں ٹھونس کر ثابت ہی نگل جاتا۔ بھوک کے خلاف انسان کا دفاع بذات خود ایک فتح تھی۔
اس سارے عرصے میں حکومت قیدیوں کے ذہن پھپولنے اور ایمان کی تلقین کرنے کے لیے مسلسل مبلغین اور اسلامی صحافیوں کو بھیجتی رہی۔ اس شکستہ دلی اور لاچارگی کے باوجود چند ہی قیدی اس راہ پر گامزن ہوئے۔
بلاشبہ گزشتہ سالوں کی طرح اس سال بھی ماہ رمضان کے آغاز پر مجھے اور میرے ساتھیوں کے لیے کسی مذہبی اہل کار کے خطبے کا بندوبست کیا جائے گا جو آزاد دنیا سے آ کر ہمیں روزے کے علاوہ بھوک اور خواہشات پر قابو پانے کی اہمیت پر درس دے گا۔ ذرا ستم طریفی ملا خطہ کیجئے!
پندرہ سال اپنے ملک کے بندی خانوں میں گزارنے کے بعد پرام کو ایمنسٹی اور دیگر حلقوں کی مغرب میں جاری مہم کے نتیجے میں رہائی ملی مگر یہ مشروط رہائی تھی۔ کچھ عرصے کے لیے انہیں گھر پر نظر بند رکھا گیا اور پھر لمبے عرصے کے لیے شہر سے باہر جانے پر پابندی لگی رہی۔ اخبارات میں ان کے بارے میں خبر دینے پر پابندی تھی، ان کی کتابوں پر پابندی تھی، سچ تو یہ ہے کہ باقاعدہ پابندی ہنوز برقرار ہے گو اب وہ قانون لاگو نہیں رہا۔ ہاں البتہ اب وقت پر پرام کا اختیار تھا اور وہ پھر سے لکھنے کے لیے آزاد تھے۔
جزیرہ بورو پر مایوسی کے دنوں میں سیاسی قیدیوں پر آزمائی جانے والی تماثیل کو پرام نے چار ناولوں پر مبنی داستان منک (ا) یا بورو چوسنگٹ کے نام سے پیش کیا۔ پہلا ناول ‘یہ سر زمین انسانیت’ (ج) 1980ء میں شائع ہوا جو دس ماہ تک بیسٹ سیلر لسٹ میں سر فہرست رہا اور جلد ہی اگلا ناول ‘اولادِاقوام عالم’ (د) شائع ہو گیا۔ یہ ناول بھی بیسٹ سیلر قرار پایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ناولوں پر چھپنے کے بعد پابندی لگ گئی اور یہ غیر قانونی طور پر بکتے رہے۔ ہزار ہا انڈونیشین شہریوں نے اس ڈھنگ سے اپنے معروف ترین برودھی کا ادبی دنیا میں واپسی پر خیر مقدم کیا۔ یہ ناول…… جزوی سوشل رئیل اسٹ، جزوی تاریخی…… نو آبادیاتی دور کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ یہ ناول انڈونیشیائی قوم پرست صحافت کے بانی تر تو ادی سریو کی افسانوی شخصیت سے متاثر ہو کر لکھے گئے ہیں۔ انڈونیشین قارئین کی اکثریت پر، جن کی سوچوں کا گلا سیاسی ماحول نے دبا رکھا تھا، ان ناولوں کی وسعت اور گہرائی کا ڈرامائی اثر ہوا۔
توئر نے گو ماضی کو موضوع بنایا تھا۔ لیکن اس کی اکثر تحریریں حال کی ترجمان تھیں۔ توئر نے ایک کامل سوال پوچھا تھا: کیا سہارا تو اور نیا نظام نو آبادیاتی دور کا تسلسل تھا؟ (118)
1981ء میں جب کتابوں پر پابندی لگی تو ایک پبلشر کو تین ماہ قید رکھا گیا۔ نئے نظام کے ‘سامراجی دوئم’ نے پابندی کی وضاحت کرتے ہوئے توئر پر ‘مارکسسٹ۔ لینن اسٹ نظریات کے پرچار’ کا الزام لگایا لیکن توئر کی ‘ادبی ہنر مندی’ کے باعث یہ جرم ثابت کرنے کے لیے ٹھوس مثالیں فراہم کرنا مشکل تھا۔ اس پریشانی کی وجہ غالباً ‘یہ شیشے کا گھر’ میں دو نو آبادیاتی سپاہیوں کے مابین ہونے والا بے ساختہ مکالمہ تھا جو سہار تو دور میں اکثر سرکاری دفتروں میں شائد روز ہی دہرایا جاتا تھا:
اس نے اپنی کتابی انگریزی میں کہا: تمہارا طرز عمل ہمیشہ معقول اور ذمہ دار انسان ایسا ہوتا ہے۔ لگتا ہے تم نو آبادیاتی طرز عمل سے پرہیز کرنے کی کوشش میں لگے ہو۔ مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ اس نو آبادیاتی قید خانے سے تمہیں اُلجھن اور اکتاہٹ ہونے لگی ہے۔ مجھے تمہارے اندر جاری کشمکش کا اندازہ ہے۔
‘شکریہ! شائد یہی وجہ ہے کہ تم امریکہ کو ترجیح دیتے ہو مینیر!’
‘مینیر! شائد تم ایسا غلط بھی نہیں کہہ رہے۔’
‘لیکن امریکہ میں بھی تو جبر ہوتا ہے’ میں نے کہا۔
‘میرے خیال سے صرف یوں نہیں ہے کہ وہاں بھی جبر ہے۔ وہاں جبر کی آزادی ہے، جی ہاں یہ بات درست ہے۔ وہاں لیکن یہ بھی آزادی ہے کہ آپ جبر کا شکار نہ ہوں۔ یہاں صرف جبر کی آزادی ہے۔ جبر کا شکار نہ ہونے کی کوئی آزادی نہیں۔’
کون کہہ سکتا تھا کہ وہ اس طرح کی باتیں کر سکتا ہے؟ کوئی شخص جو عزت مآب گورنر جنرل کے اتنا قریب ہو؟
انڈونیشیا بعد از آزادی اس مقام پر کیسے پہنچا کہ اس کے فوجی حکمرانوں نے جبر کے سلسلے میں ولندیزیوں کو بھی مات دیدی؟ ولندیزیوں، جاپانیوں اور پھر سے ولندیزیوں کے خلاف بہادری سے لڑنے والے لوگوں نے اپنی ہی فوج کی توہین آمیزی، لالچ، لوٹ مار کو کیسے برداشت کر لیا؟ وہ اپنے ہی افلاس میں اضافے کے لیے جبری خراج کیوں ادا کرتے رہے؟ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ یہ شکست خوردہ لوگ تھے۔ کچھ نے سوئیکار نو پر اعتماد کیا۔ کچھ نے اﷲ پر بھروسہ کیا جبکہ کچھ نے ڈی۔ این آدت اور پی کے آئی پر اعتبار کیا۔ اﷲ چونکہ ہر جگہ موجود نہیں تھا اور اس جزیرے پر اس کے ماننے والے مختلف تنظیموں میں بٹے ہوئے تھے لہٰذا شہروں اور دیہاتوں کے غریب لوگوں نے (اور صرف غریب لوگوں نے نہیں) نے اپنے تحفظ اور ضروریات کی بار آوری کے لیے قوم پرستی اور کمیونزم کی مشترکہ قوتوں پر انحصار کیا۔
بیسویں صدی کا پہلا نصف اگر جنگوں اور انقلابوں کا دور تھا تو باقی نصف قوم پرستی کے اُبھار، یورپی سلطنتوں کے انہدام، امریکہ کی سویت روس اور چین اور بعدازاں چین کی سویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی سرد اور گرم جنگوں سے معمور تھا۔ یہ ایک پیچیدہ دنیا تھی جو ہر درجے پر تضادات کا شکار نظر آتی تھی: سیاسی بھی اقتصادی اور نظریاتی بھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ ایسے لوگوں کی دنیا تھی جنہیں یقین تھا تبدیلی آسکتی ہے۔ ہر براعظم میں ایسی تنظیمیں موجود تھیں جو انقلاب کے ذریعے وقت کے نظام کو اکھاڑ پھینکنا چاہتی تھیں۔ کیوبا کی فتح نے اس عمل کو ہوا بھی دی اور اسے محدود بھی کر دیا: دشمن غیر معمولی طور پر چوکنا ہو گیا۔
1949ء میں اہل چین کی فتح، 1945ء اور 1954ء میں ویت نامیوں کی فتوحات جس میں فلپائن اندر ہونے والی ہک بغاوت کا اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے، ملایا میں کمیونسٹ سرکشی، جاوا میں ولندیزیوں کی شکست گویا ایشیا میں طاقت کا نیا توازن قائم ہو گیا تھا۔ جزیرہ نما کوریا کو چین کے نقش قدم پر چلنے سے باز رکھنے کے لیے امریکہ کو اقوام متحدہ کے پرچم تلے تین سال جنگ لڑنی پڑی۔ ویت نام میں کمیونسٹ فتح کا راستہ روکنے کے لیے امریکہ کو جنوبی ویت نام پر قبضہ اور پندرہ سال جنگ کرنا پڑی جس میں امریکہ کو شکست ہوئی………… اگر 1812ء میں برطانیہ کے ہاتھوں وائٹ ہاوس اور باقی کے واشنگٹن کو نذر آتش کرنے کا واقعہ شمار نہ کیا جائے تو امریکی تاریخ میں یہ پہلی حقیقی شکست تھی۔
جبکہ یہ سب رونما ہو رہا تھا اور امریکہ اور سویت یونین مسلسل اپنے اپنے مفادات کے تحفظ میں معروف تھے، نو آزاد ریاستوں-97-97 بھارت، مصر، الجزائر، انڈونیشیا، تنزانیہ-97-97کے لیے ایک خلا نے جنم لیا جس میں وہ دونوں بڑی طاقتوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر اپنی آزادی کا تحفظ کر سکتی تھیں۔ اکثر قوم پرست رہنماؤں کی سامراج مخالفت کا ایک لازمی جزو یہ بن گیا کہ انہوں نے ماسکو اور بیجنگ میں حکمران کمیونسٹ پارٹیوں کی طرز پر اپنے اپنے نعم البدل تیار کئے جو ہر قسم کی حزب اختلاف پر جبر کے کام آئے۔ اس جبر کا پیمانہ مقامی حالات و روایات کے پیشِ نظر مختلف تھا۔
انڈونیشیا میں ایک طوفانی وقفے کے بعد، جس دوران 1948ء میں مادئین اندر قوم پرست حکومت کے خلاف کمیونسٹ حمایت یافتہ سرکشی کی سنجیدہ کوشش بھی ہوئی، سائیکارنو نے یہی بہتر جانا کہ ملک چلانے کے لیے کمیونسٹوں سے اتحاد کر لیا جائے۔ سائیکارنو کی ذات کو تو کوئی بھی للکار نہیں سکتا تھا لہٰذا انہوں نے سوچا کہ پی کے آئی متحدہ محاذ ـ(ناسا کوم) اندر سیاسی لحاظ سے غیر مسلح ہو جائے گی جبکہ ملک میں موجود اس کی طاقت کے ذریعے وہ فوج کے بعض حصوں کو قابو میں رکھ سکیں گے۔ یہ مخصوص بونا پارٹسٹ ترکیب تھی جو عین ممکن ہے کامیاب ہو گئی ہوتی اگر ستمبر 1965ء کے واقعات رونما نہ ہوئے ۔
واشنگٹن اس اتحاد کے بنتے ہی چوکنا ہو گیا اور اس نے انڈونیشیا میں اپنے نائبین کو خبردار کیا۔ واشنگٹن پہلے ہی ویت نام اندر جنگ لڑنے میں مصروف تھا اور اب وہ سچ مچ پریشان تھا کہ کہیں سوئیکارنو کی وفات پر پی کے آئی برسر اقتدار نہ آجائے۔ 1962ء میں ویت نام اندر امریکہ کو پہلی پہلی ہزیمت کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب کمیونسٹ گوریلوں نے اپ باک نامی گاؤں کے قریب امریکہ اور جنوبی ویت نام کے بڑھیا دستے پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا۔ اس حملے کو سویت اور چینی پریس میں واشنگٹن کی کمزوری قرار دیتے ہوئے سراہا گیا۔ انڈونیشیا میں بھی قوم پرست اور کمیونسٹ پریس، دونوں نے ہی اس واقعہ اور ہند چینی میں ہونے والی متعلقہ پیش رفت کی خبریں دیں۔ انڈونیشیا کی فوج کے اعلیٰ سطحی حلقوں میں دھڑے بندی کا آغاز ہو گیا۔
چین اور سویت یونین کی حقیقی علیحدگی سے صورت حال مزید گومگو کا شکار ہو گئی۔ آدت نے آئے روز چین کے دورے شروع کر دیئے اور وہاں ان کا کسی سربراہ مملکت کے شایان شان استقبال کیا جاتا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پی کے آئی عالمی معاملات میں تو چین کی حمایت کرتی البتہ اندرون ملک وہ خروشیف کی پالیسی پر گامزن تھی، انتہائی محتاط، انتہائی اصلاح پسند اور اس پالیسی کی منظوری بیجنگ نے دی تھی کیونکہ اس کے سائیکارنو کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ وہ سائیکارنو کا تختہ اُلٹنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ پی کے آئی کے رہنماؤں کو بھی اندازہ تھا کہ 1927ء اور 1948ء کی سرکشی کے نتیجے میں پارٹی کو بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا تھا۔ ان کی اپنی ضرورت بیجنگ کے تقاضوں سے میل کھاتی تھی اور ان پیچیدہ حالات اندر آدت کے مطابق ‘انڈونیشیا کا انقلاب بورژوا ڈیموکریٹک مرحلے میں تھا نہ کہ سوشلسٹ یا پرولتاری مرحلے میں۔’ اس کے مطلب کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے 2 ستمبر 1963ء کو چینی کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے سکول آف ایڈوانس اسٹڈیز کو بتایا:
قومی بورژوازی کے ساتھ اتحاد تشکیل دیا جا چکا ہے۔ قومی بورژوازی انقلاب کی طرف رجوع کرنا شروع ہو گئی ہے………… انڈونیشیا کی بورژوازی کے ساتھ ہمارے اشتراک کو لگ بھگ دس سال ہو چلے ہیں اور اس دوران انقلابی قوتیں تنزلی کا شکار ہونے کی بجائے مسلسل ترقی کرتی رہی ہیں جبکہ رجعت پسند قوتوں کو مسلسل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔(119)
اگر تو آدت کسی مارکسی پرچے کے ایڈیٹر ہوتے تو یہ مغالطے جلد ہی فراموش کر دیئے جاتے، تاریخ ان سے کترا کر آگے گزر جاتی مگر معاملہ یوں نہ تھا کیونکہ ایک لحاظ سے آدت کا بیان سو فیصد درست تھا۔ انڈونیشیا کے کمیونسٹوں کو حاصل قانونی حیثیت کے باعث ان کی رکنیت سازی اور اثرورسوخ میں بے تحاشا اضافہ ہوا تھا۔ آدت چین کی سنٹرل کمیٹی سے انڈونیشیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور کمیونسٹ دنیا سے باہر دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ جماعت کے رہنما کی حیثیت سے خطاب کر رہے تھے۔ پی کے آئی کے تیس لاکھ رُکن تھے جبکہ ٹریڈ یونینوں اور دیگر عوامی تنظیموں میں منظم اس کے حامیوں کی تعداد ایک کروڑ تھی۔ پارٹی کے پاس اخبارات و رسائل کا ایک متاثر کن ڈھانچہ تھا اور اس کا اثر پی کے آئی سے کہیں زیادہ تھا۔ آدت، لقمان اور پی کے آئی کے دیگر پرانے رہنماؤں کو سائیکارنو سے کئے گئے نئے معاہدے سے حاصل ہونے والی نئی نئی عزت و تکریم سے لطف اندوز ہونے پر درگزر کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب لوگ جیل میں وقت گزار چکے تھے۔ انہوں نے ولندیزیوں، جاپانیوں اور سائیکارنو کے پہلے دور میں مزاحمت کے دوران رہنماؤں اور کارکنوں کا صدمہ جھیلا تھا۔ اب وہ اقتدار سے قربت محسوس کر رہے تھے اور اس بات سے آگاہ تھے کہ ان کی موجودگی کے باعث سائیکارنو حکومت 1960-61 میں حقیقی قوانین لاگو کرنے کے قابل ہوئی تھی، پہلا قانون زرعی اصلاحات سے متعلق تھا جبکہ دوسرا فصل کی بٹائی بارے۔ جب نوکر شاہی، حاجی حضرات اور فوج نے باقاعدہ ان قوانین پر عمل درآمد روک دیا تو پی کے آئی نے ان قوانین پر جبری عمل درآمد کے لیے ‘یک طرفہ اقدامات’ کا آغاز کیا۔ رجعت پسندوں کی طرف سے ایسا شدید ردعمل ہوا (اصلاحات نافذ کرنے والے دیہی کارکنوں کو منظم انداز سے قتل کیا گیا) کہ آدت نے اس مہم کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔
آدت نے کچھ مفروضات اس بنیاد پر قائم کئے ہوں گے کہ وقت ان کے ساتھ ہے۔ پی کے آئی کا رہنما اس ناگزیر حیاتیاتی امر پر انحصار کر رہا تھا کہ جلد یا بدیر سائیکارنو رستے سے ہٹ جائے گا۔ اس کے بعد اس کی باری آجائے گی، یہ حقیقی تبدیلی کا وقت ہو گا۔ دیگر پی کے آئی رہنما کم جو شیلے تھے، انہیں بخوبی علم تھا کہ وہ سائیکارنو کے مہیا کردہ تحفظ کی بدولت بچے رہے اور ترقی کرتے گئے۔ سائیکارنو کی وفات کے بعد کیا ہو گا؟ وہ انقلاب کے بنیادی قوانین شائد بھول گئے تھے اور ان کا یہ اقدام ناقابلِ معافی ہے کہ انہوں نے ایسی خوش فہمیوں کو جنم دیا جن کے باعث ان کے حامی دشمن کو کمزور سمجھنے لگے۔ انقلاب کی تیاری کرنے کی بجائے، جیسا کہ بعد میں الزام لگایا گیا، پی کے آئی آنے والے واقعات کے لیے ہرگز تیار نہ تھی لہٰذا اپنے حامیوں کو سیاسی لحاظ (باقی معاملات کی بات ہی جانے دیجئے) سے ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کی کشمکش کے لیے تیار نہ کرپائی۔ مارکسی اصطلاح میں وہ حقیقی گناہ کے مرتکب ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک فرد (سائیکارنو) کا زائد تخمینہ لگایا جبکہ اس قوت کی خود مختاری کا کم تخمینہ لگایا جو ریاست کے پیچھے کار فرما ہے یعنی : فوج۔
پاکستانی و بھارتی ہمزاد کے برعکس، انڈونیشیا کی فوج سو فیصد، خالص نو آبادیاتی فوج نہیں تھی۔ یہ مجمع الجزائر کی مختلف نو آبادیاتی اور قوم پرست روایات کا عکس تھی۔ 1945ء کے انقلاب کے دوران افسر طبقے کی اکثریت (80 فیصد) کا تعلق پی ای ٹی اے سے تھا جو 1943ء میں جاوا اور بالی میں جاپانیوں نے ‘امدادی’ فوج کے طور پر تشکیل دی تھی۔ جبکہ دس فیصد زر خرید ولندیزی نو آبادیاتی فوج سے تعلق رکھتے تھے اور انتہائی اہم پانچ فیصد کا تعلق اس خصوصی فوجی اکادمی سے تھا جو ہالینڈ پر نازی قبضے کے بعد 1940ء میں جاوا میں قائم کی گئی تھی۔
چنانچہ افسر طبقے میں 1945 کی نسل سے تعلق رکھنے والے قوم پرست شامل تھے مگر انکی قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو ولندیزوں کے ساتھ مل کر قوم پرستوں کے خلاف لڑے (جنرل تاسوشن اور جنرل سہارتو) اور ایک گروہ جو مدرلینڈ ڈیفنس فورس میں شامل ہو کر (دوبارہ سہار تو) جاپانیوں کے شابہ بشانہ لڑا، سب سے اہم وہ گروپ تھا جس میں ہر دو طرح کے لوگ شامل تھے اور جن کو امریکہ میں تربیت ملی تھی۔
امریکہ میں تربیت کا آغاز 1954ء میں ہوا-97-97 جب سرد جنگ اپنے عروج پر تھی-97-97 اور اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں افراد جو تربیت کے لیے بھیجے گئے وہ قومی انقلاب میں حصہ لے چکے تھے۔
جنوب ایشیائی ہمزادوں سے ایک اور فرق یہ بھی تھا کہ انڈونیشیا کی فوجی اندر قیادت کا ڈھانچہ کئی بار ٹوٹا: 1945-65ء کی تاریخ بغاوتوں، حکومت پر قبضوں کی کوشش، جنگ جوئی اور علاقائی بغاوتوں سے بھری پڑی ہے جبکہ ان تمام واقعات میں قیادت قومی انقلاب کا کوئی آزمودہ کار شخص کر رہا ہوتا۔ ایک غیر اعلانیہ فوجی فلسفہ یہ تھا کہ تمام سول سیاستدان (ماسوائے سائیکارنو کے کہ جنہیں اس نئی جمہوریہ کا بانی ہونے کے باعث اکثر افسر عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے) بدعنوان اور گھٹیا ہیں۔ کونسل آف جنرلز متفقہ طور پر سائیکارنو کی بیجنگ سے دوستی اور پی کے آئی سے اتحاد کے خلاف تھی ۔ اس کی ایک وجہ تو وہ قوم پرستانہ مخالفت تھی جو نو آبادیاتی دور میں چینیوں کے خلاف پائی جانے والی مخالفت کی باقیات تھی البتہ بڑی حد تک اس کا تعلق سرد جنگ کے دور کی کمیونزم دشمنی سے تھا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی کہ اکثر جرنیل پی کے آئی کو خصی کرنا چاہتے تھے۔ سب نہیں لیکن اکثر۔ یہ ایشیائی طرز کی روایتی ستم ظریفی تھی: یکم اکتوبر 1965ء کوفوجی انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل پرمان کو ہلاک کر دیا گیا جن کا مشغلہ بچوں کی برقی ریل گاڑیاں تھیں، وہ پی کے آئی کے پولٹ بیورو کے رکن سکرمان کے بھائی تھے۔
30 ستمبر 1965ء کو کرنیلوں اور میجروں کی قیادت میں ایک خفیہ انقلابی کونسل تشکیل دی گئی جس نے ‘دفاعی بغاوت’ کرنے کی منظوری دی۔ اس گروہ کے سربراہ لیفٹنٹ کرنل اُن تنگ کا دعویٰ تھا کہ کونسل آف جنرلز میں منظم فوج کی اعلیٰ قیادت سی آئی اے کی پشت پناہی سے سائیکارنو کا تختہ اُلٹنے، لیفٹ پارٹیوں کو تباہ کرنے اور فوجی آمریت قائم کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔ انتہائی سرعت کے ساتھ ان تنگ کے کمانڈوز نے چھ سرکردہ جرنیلوں کو گرفتار کر لیا۔ ان تنگ صدارتی گارڈ میں تیاکرا بیراوا٭ رجمنٹ کا سالار تھا۔ تین جرنیل گرفتاری کے دوران مارے گئے کیونکہ انہوں نے اپنی بندوق سے مزاحمت کی کوشش کی تھی۔ باقی تین حلیم ائر فورس بیس میں مار دئیے گئے، کس نے مارے ہنوز غیر واضح ہے، مگر یقینا باوردی لوگوں کے ہاتھوں مارے گئے اور زیادہ امکان ہے فضائیہ والوں نے انہیں مارا۔ حال ہی میں جب بینڈکٹ اینڈرسن نے سارجنٹ میجر بنگ کس سے بات چیت کی تو بنگ کس، جو ایک ‘حملہ آور’ جتھے کا رُکن تھا، کا کہنا تھا کہ ‘ان کے جنرل’ نے بغیر کسی خون خرابے کے گرفتاری دیدی تھی، اور اس کا کہنا تھا کہ انہیں جرنیلوں کو گرفتار کرنے کا حکم تھا، مارنے کا نہیں۔ ائربیس پر اس نے گرفتار شدہ جنرل کو دوسرے دستوں کے حوالے کر دیا جن کی شاخت بارے اسے یقین نہیں تھا۔ (120 )
سائیکارنو اور پی کے آئی کا کہنا تھا کہ انہیں ان واقعات کا قطعاً پیشگی علم نہیں تھا۔ جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ اقتدار پر ان تنگ کے قبضے کی کوشش ایک سوچی سمجھی اشتعال انگیزی تھی جس کا مقصد سوئیکارنو اور پی کے آئی کو تباہ کرنا تھا، اُن کو خیالوں کی دنیا کا باسی کہا گیا مگر بعدازاں جو تفصیلات سامنے آئیں ان سے پتہ چلا کہ نہ صرف سی آئی اے بلکہ برطانوی انٹیلی جنس بھی پوری طرح ملوث تھی۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ سہارتو (جنہیں اس وقت غیر نظریاتی تصور کیا جاتا تھا) ان منصوبوں سے آگاہ تھے مگر انہوں نے منصوبہ سازوں کا راستہ روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ سہارتو کے مخبر انقلابی کونسل کے رکن کرنل اے لطیف تھے جنہیں گرفتار تو کیا گیا مگر انہیں کبھی گواہی دینے کی اجازت نہ دی گئی۔ حیرت کی بات ہے کہ لطیف کو ہلاک نہیں کیا گیا شائد اس کی وجہ ان کی سہارتو خاندان بالخصوص بیگم سہارتو سے قریبی دوستی تھی۔ گرفتاری کے دوران وہ گولی اور سنگین کا نشانہ ضرور بنے البتہ زندہ بچ گئے۔ تیرہ سال تک جیل اندر انتہائی بُرے حالات میں رکھے گئے لیکن اپنی داستان سنانے کے لیے زندہ بچ گئے۔ سہارتو حکومت کے خاتمے بعد اپنی تحریری یاداشت میں ان کا اصرار تھا کہ حکومت کا تختہ اُلٹنے کی مجوزہ کوشش بارے انہوں نے خود سہارتو کو مطلع کیا تھا۔ اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب ہے مستقبل کے آمر نے دیگر جرنیلوں کو خبردار نہیں کیا تھا، بلکہ انہیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا اور 30 ستمبر کو جواز بنا کر بائیں بازو کا صفایا کر دیا جبکہ سائیکارنو کو حکومت سے ہٹا دیا۔ (121 )
اس میں شک کی گنجائش کم ہی ہے کہ 30 ستمبر (گیارہ ستمبر 2001ء کی طرح) سے فائدہ ان لوگوں نے اُٹھایا جن کو اصل میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب جو ثبوت سامنے آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان تنگ اور ان کے ساتھی یا تو امریکہ اور برطانوی خفیہ اداروں کے لیے کام کر رہے تھے یا زیادہ امکان اس بات کا ہے، انہوں نے ان خفیہ اداروں کے جھانسے میں آ کر پرانے جرنیلوں کو ہلاک کر دیا جو پی کے آئی کے خلاف ضرور تھے البتہ سائیکارنو کا تختہ نہیں اُلٹنا چاہتے تھے۔ اسی طرح چلی میں کچھ سال بعد سی آئی اے ہر اس ہٹ دھرم جنرل کو ہٹا دینا چاہتی تھی جو سلوا دور الاندے کا تختہ اُلٹنے کے لیے تیار نہ تھا اور اسی لیے جنرل شنائدر کو رستے سے ہٹایا گیا۔ سہارتو اور پنوشے حقیقی بھائی تھے، ان کو پالنے والے مالک مشترکہ تھے، ان کی شان میں قصیدے لکھنے والے میڈیا پنڈت مشترکہ تھے اور دونوں کی نکسن، ریگن اور مسز تھیچر نے عزت افزائی کی۔
30 ستمبر 1965ء کے حوالے سے کئی عجیب باتیں دیکھنے میں آئیں۔ ان تنگ نے عام لوگوں کی حمایت حاصل کرنے سے انکار کر دیا اور کسی قسم کے مظاہروں کی درخواست نہیں کی اور اس حقیقت کے پیش نظر یہ عجیب بات تھی کہ وہ سائیکارنو کا دفاع کرنا چاہتے تھے۔ ان تنگ کا پہلا عوامی اعلان تو اور بھی پُر اسرار تھا: انہوں نے خود سے عہدے میں سینئیر تمام افسران کی اپنے برابر کے عہد ے تک تنزلی کا حکم دیا۔ ان کی حمایت کرنے والے افسر جو عہدے میں ان سے نیچے تھے انہیں ترقی دینے کا اعلان کیا گیا۔ تمام سینئیر افسران کو اپنے خلاف صف آراء کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی حکمت عملی شائد ممکن نہ تھی۔ کیا یہ محض حماقت تھی یا سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کا انتخاب بہت اچھا تھا؟
انڈونیشیا میں قتل عام کے چند ماہ بعد جیمز ریسٹن نے ‘ایشیا میں روشنی کی کرن’ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں نئے نظام کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے تسلیم کیا کہ:
دنیا کے چھٹے گنجان ترین اور ایک امیر ترین ملک اندر تبدیلی کے لیے کردار ادا کرنے کے حوالے سے واشنگٹن کوئی داد وصول کرنے کے سلسلے میں احتیاط سے کام لے رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ واشنگٹن نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ انڈونیشیا اندر کمیونسٹ مخالف قوتوں اور واشنگٹن کے کم از کم ایک انتہائی اعلیٰ عہدیدار کے مابین انڈونیشیا میں قتل عام سے قبل اور دوران اس تصور کی نسبت کہیں زیادہ رابطہ موجود تھا جو عام طور پر پایا جاتا ہے۔ (122)
30 ستمبر کے پیچھے کارفرما تحریک کسی حد تک آج بھی ایک راز ہے لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسے خوب استعمال کیا گیا۔ اس سال کے آغاز میں برطانوی سفیر نے اپنے وطن ایک پیغام بھیجا تھا جس میں ایک دلچسپ جملہ تھا: ‘میں نے اپنی اس رائے کو آپ سے کبھی پوشیدہ نہیں رکھا کہ انڈونیشیا میں موثر تبدیلی کے لئے تھوڑا بہت خون خرابہ ضروری ہے۔’ دو سال قبل 1962ء میں سی آئی اے کی ایک یاداشت میں پُر سکون انداز میں کہا گیا تھا کہ صدر کینیڈی اور وزیراعظم میک ملن نے ‘حالات اور دستیاب مواقع کی صورت میں صدر سائیکارنو کو فارغ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔(123)
پی کے آئی قیادت اندر کئی سیاسی کمزوریاں ہوں گی لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر آدت اور لقمان ان تنگ کی پشت پناہی کر رہے ہوتے تو معاملہ یوں کچا پکا نہ ہوتا۔ پی کے آئی نے جاوا، بالی اور سماٹرا میں سرکشی کا انتظام کیا ہوتا اور وہ اپنے حامیوں کو مسلح کرتی نہ کہ جب اس کے حامیوں کو عید قربان پر ذبح ہونے والے جانوروں کی طرح ذبح کیا جا رہا تھا، وہ ایک طرف بے بس کھڑی تماشا دیکھتی رہتی۔ (124)
سٹریٹیجک ریزرو کمانڈ کے انچارج جنرل سہار تو فوج کو حرکت میں لے آئے اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر انہوں نے صورت حال کو سنبھال لیا۔ شروع سے ہی فوج کا اصرار تھا کہ 30 دسمبر کے واقعات پی کے آئی کا منصوبہ اور کارروائی تھے۔ کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کیا گیا اور ڈی ۔ این، آدت کو ایک گاؤں سے جہاں وہ روپوش تھے، گرفتار کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ تشدد کے ذریعے پرانے ٹریڈ یونین رہنما اور پی کے آئی لیڈر نوجونو سے جو بیان حاصل کیا گیاوہ تضادات سے بھرپور تھا۔(125) نوجونو کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد سہارتو اور ان کے فوجی ساتھیوں نے پی کے آئی رہنماؤں کے قتل کا حکم دیا اور یوں انڈونیشین بائیں بازو کا عمومی قتل عام شروع کر دیا۔ مجمع الجزائر میں چاروں طرف اسلامی نگران، عموماً نعدۃ الاسلام (این کے یو) کے یوتھ ونگ کے ارکان، ‘سرخ شیطانوں’ کے خلاف جہاد کے لیے کھلے چھوڑ دیئے گئے۔ اکتوبر 1965ء تا جنوری 1966ء انڈونیشیا میں خون کی ہولی کھیلی گئی،بدترین قتل و غارت ہندو-97 بالی میں ہوا۔ ‘تھوڑا بہت خون خرابہ’ واقعی حقیقت کا روپ دھار چکا تھا جس نے اس ملک کے کلچر کو درندگی سے آشنا کر دیا اور سیاسی میدان میں ایک بہت بڑے خلا کو جنم دیا۔
امریکہ اور آسٹریلیا میں میڈیا کا اکثر حصہ اس قتلِ عام پر زیادہ پریشان نہیں تھا۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ ان کا دھڑا پھل کھا رہا تھا، وہ پریشان بھی کیوں ہوتے۔ اس کے برعکس سی آئی اے نے اس حقیقت کو چھپانے کی، گوصرف اپنے آپ سے، کوئی کوشش نہیں کی کہ یہ قتلِ عام کتنے بڑے پیمانے پر ہوا تھا۔
اگر ہلاک ہونے والوں کی تعداد کو پیش نظر رکھا جائے تو انڈونیشیا میں پی کے آئی کے قتلِ عام 1930ء کی دہائی میں ہونے والے سویت تلیئن، دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں ہونے والے قتلِ عام اور 1950ء کی دہائی کے آغاز میں ماؤ نوازوں کی کھیلی ہوئی خون کی ہولی ایسا بیسویں صدی کا بدترین قتلِ عام قرار دیاجا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو انڈونیشیا میں ہونے والی بغاوت یقینا بیسویں صدی کا ایک اہم واقعہ ہے، کئی ایسے واقعات کی نسبت زیادہ اہم جنہیں اس سے کہیں زیادہ شہرت ملی۔ (126)
باوجود یکہ چند واقعات کا ذکر نہیں کیا گیا-97-97 ہیرو شیما، ناگاسا کی اور کوریا میں 1945-53ء کے دوران شہریوں کی ہلاکتیں بھی اتنی ہی وحشت ناک تھیں-97-97 بہرحال یہ جائزہ بالکل درست تھا ماسوائے ایک اہم نقطے کے۔ اس سارے معاملے میں ایجنسی نے خودجو کردار ادا کیا اس کا ذکر کرتے ہوئے کسر نفسی سے کام لیا گیا۔ 1958ء میں رومانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک تارک وطن گائے، جے۔ پاکرنے-97-97 جو سی آئی اے کے کنسلٹنٹ، رانڈ کارپوریشن، نیشنل سیکورٹی کونسل ایڈوائزر اور برکلے کی عملی شخصیت تھے-97-97 یہ تجویز پیش کی تھی کہ انڈونیشیا کی فوج کو اقتصادی و فوجی امداد کی فراہمی کا ذریعہ بناتے ہوئے اسے مضبوط کیا جائے۔ پاکر کا فوجی افسروں بارے کہنا تھا کہ ان میں ‘قیادت کی اچھی صلاحتیں، حب الوطنی اور اخلاقی اقدار سے لگن’ پائی جاتی ہے اور ‘ضرب لگانے، اپنے گھر کو صاف کرنے اور اعلیٰ مقاصد کے لیے خود کو از سر نو وقف کر دینے کے لیے’ ان افسروں پر اعتبار کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہئے۔حال ہی کی بات ہے کہ ایک سرگرم امریکی عملی شخصیت نے مجھے پاکر، جن کا 2002ء میں انتقال ہوا، کی شخصیت بارے وضاحت کرتے ہوئے، پاکر کو ‘پکا حرامی اور کایاں موقع پرست’ قرار دیا۔ پاکر کے مشورے کو خاصی سنجیدگی سے سنا گیا اور امریکی ایمپائر کی تین ڈائنوں-97-97پینٹاگون، سی آئی اے، ڈی آئی اے-97-97کا جنرل سہار تو کو مشورہ تھا: جرأت، خونخواری اور مستقل مزاجی۔(127)
‘میرے ہاتھوں پر شائد بہت خون لگا ہے لیکن شائد یہ سراسر غلط بھی نہیں۔ بعض اوقات فیصلہ کُن گھڑی میں آپ کو کاری ضرب لگانی ہی پڑتی ہے۔’ یہ الفاظ انڈونیشیا میں امریکی سفارت خانے کے ‘پولیٹیکل افسر’ رابرٹ جے مارٹنز کے تھے جو فری لانس صحافی کیتھی کاڈین کو بتا رہے تھے کہ کس طرح امریکی سفارت کاروں اور سی آئی اے کے اہل کاروں نے انڈونیشیا کی فوج کے ڈیتھ اسکواڈز کو 5,000 افراد کی فہرست مہیا کی اور پھر مارے جانے یا گرفتار ہو جانے والے ناموں کا حساب رکھا۔ (128)
انڈونیشین لیفٹ کے خلاف اس مسلسل جبر کے نتائج نے ملک کو سیاسی، اقتصادی اور نفسیاتی لحاظ سے متاثر کیا۔ 1965ء سے قبل انڈونیشیا کا سیاسی کلچر بہت بھرپور تھا۔ سائیکارنو نے پارلیمنٹ تحلیل کر دی مگر بحث مباحثے پھر بھی جاری رہے۔ نئے نظام میں سرکاری سیاست کے علاوہ ہر سیاست پر پابندی عائد کر دی گئی، اور اقتصادیات؟
پراموداتوئر کی لکھی ہوئی جیل ڈائری سے اس کا بخوبی جواب ملتا ہے:
1965ء کے آنے تک جب سوئیکارنو کا تختہ اُلٹا گیا، ایک نئی مقابل قوت پیدا ہو چکی تھی………… ملٹی نیشنل سرمایہ…… جس کی نظر میں انڈونیشیا خام مال، سستی لیبر اور ایک بڑی منڈی تھی۔ اسی بیرم کی مدد سے تو سائیکارنو کے پاؤں اکھاڑے گئے تھے۔ وہ عظیم ہر ہمن جو انڈونیشیا کی سیاسی خود مختاری، معاشی آزادی اور ثقافتی یکجہتی کے خواب دیکھ رہا تھا، ملٹی نیشنل سرمائے کی قوتوں کا راستہ روکنے میں ناکام رہا۔(129)
پی کے آئی بھی نہ روک پائی۔ ملٹی نیشنل سرمایہ جاوا پر کسی بھوکے عقاب کی طرح جھپٹا تھا۔ سہارتو اور نئے نظام کا ہجوم اس کی بیٹ پر گزارہ کر کے خوش تھا۔ لیکن جکارتہ میں جلد ہی آسمانوں سے باتیں کرتی ہوئی عمارتیں اس گہرے درد کا مدوا نہیں کر پا رہی تھیں جس سے یہ ملک گزر رہا تھا۔ موت کے گھاٹ اُتارے جانے والے کمیونسٹوں کی روحیں، سیاسی قیدی، زندہ بچ جانے والے خاندان، چند جلا وطن جو دیار غیر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، زندہ رہنے پر نادم خودرو دانشور، وہ جو خون بہانے پر نادم تھے۔
سلطان کا خاندان اور قریبی حلقے دن بدن امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے۔ 1965-66 ء میں ہونے والی سیاسی صفائی نے ملک میں غیر سیاسی پن کو ادارے کی شکل دیدی۔ سیاست پر گہری گرفت تھی اور لوگ شدید خوفزدہ۔ سہار تو کو باقاعدگی سے ایک بھاری اکثریت ‘پھر سے منتخب’ کرتی رہی۔ نیویارک ٹائمز نے کوئی سنجیدہ شکوہ نہیں کیا۔ اکثر منحرفین پابند سلاسل تھے اور ان کی کہی ہوئی بات شاذ ونادر ہی پریس میں دہرائی جاتی۔ 1978ء میں جزیرہ بورو پر پرامودا آننتاتوئر اور جکارتہ سے آئے بھاڑے کے ایک ٹٹو کے مابین ہونے والا مندرجہ ذیل مکالمہ اگر اس دور کا مخصوص نہیں تو نصیحت آموز مکالمہ ضرور ہے۔ اس مکالمے میں سیاست کو ثقافت سے علیحدہ کرنے کی جو خواہش پائی جاتی ہے وہ اپنی شورہ پستی کے لحاظ سے اینگلو سیکسن محسوس ہوتی ہے: (130)
صحافی: کیا آپ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سیاست کو ادب سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا؟
پرام: جس طرح سیاست کو زندگی سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، زندگی کو بھی سیاست سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا، خود کو غیر سیاسی کہنے والے لوگ بھی اس سے مبرا نہیں، اس کا مطلب ہے وہ تو پہلے سے ہی موجودہ سیاسی نظریات کا حصہ بن چکے ہیں-97-97-97 انہیں محض اس کا احساس نہیں ہوتا۔ لوگوں کو اپنی سوچ وسیع کرنی چاہئے اور انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ سیاست، نہ کہ سیاسی جماعتیں، حکومت سے وابستہ کسی بھی چیز اور ہر چیز سے بندھی ہوئی ہے۔ جب تک انسان معاشرتی حیوان رہے گا، جب تک وہ سیاسی سرگرمی میں حصہ لیتا رہے گا………… ذرا جاوا کے ادبی شاہکاروں کو ملاخطہ کیجئے: کیا وہ اپنے عہد کے حکومتی ڈھانچے کی حمایت نہیں کرتے؟ میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ سیاسی کام بھی ادبی کام ہو سکتا ہے۔
صحافی: لیکن کیا سیاست غلیظ نہیں ہوتی؟
پرام: غلیظ سیاست بھی پائی جاتی ہے اور شفاف سیاست بھی۔
صحافی: آپ اپنی دس سالہ قید بارے کیا کہنا چاہئیں گے؟
پرام: دس نہیں تیرہ کہئے۔ ان تیرہ کے لگ بھگ سالوں کو میں قومی تعمیر کے جاری عمل کا ایک نتیجہ سمجھتا ہوں۔
صحافی: آپ کے اپنے جذبات ؟ ذاتی جذبات؟
پرام: وہ اہم نہیں۔ بطور فرد میں اس جاری عمل میں اہم نہیں ہوں۔
صحافی: اگر انڈونیشیا کا معاشرہ آپ کو واپس قبول کرنے سے انکار کر دے تو؟ آپ کا اس پر کیا ردعمل ہو گا؟
پرام: بہت آسان سی بات ہے………… میں ہمیشہ خیر باد کہنے کے لیے تیار رہتا ہوں۔ جیسا کہ امیر پساری بونے ایک بار کہا تھا، ‘پردیس میں پردیسی ہونا اپنے دیس میں اجنبی ہونے سے بہتر ہوتا ہے۔’
جب تک تو واشنگٹن مطمئن رہا، سہارتو کو عملاً لامحدود اختیارات حاصل تھے، اور جب تک واشنگٹن مطمئن تھا لندن، بون اور کینبرا بھی مطمئن تھے۔ دس لاکھ انڈونیشین باشندوں کا قتل عام پہلے ہی یہ حقیقت آشکار کر چکا تھا کہ مغربی سیاستدانوں اور میڈیا ناخداؤں کے احساسات لاغر پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہیں ‘تھوڑے بہت خون خرابے کی ضرورت ’کا احساس تھا۔ سہارتو نے بعدازاں جو کیا اسے محض اینٹی کلائمیکس ہی قرار دیاجا سکتا ہے۔ اپنے شہریوں کے لیے مقید ملک غیر ملکی سرمائے کے لیے کھلا تھا۔ سہارتو کو اس بات پر فخر تھا کہ مجمع الجزائر پر خوش حالی کا یہ دور سائیکارنو نہیں وہ لے کر آئے ہیں۔
ہر چیز سہارتو کے قبضے میں تھی: سیاست، معیشت اور فوج۔ ایک سرکاری اسلام پرست جماعت کو ریاستی سرپرستی حاصل تھی، کچھ سال بعد سہارتو، جو پہلے پہل مذہب میں کم ہی دلچسپی رکھتے تھے، اپنا ہی اسلام پیش کرنے لگے۔ اس سے نہ تو این یو کو خوشی ہوئی نہ محمدیہ کو۔ یہ دونوں ریاست کو مذہب پر دو جماعتی اجارہ داری توڑتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ این یو نے حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا، اس کے رہنماؤں نے پی کے آئی کا صفایا کرنے میں مدد دی تھی، ان کا اس وقت خیال یہ تھا کہ صرف اور صرف وہ ہی اس خلا کو پُر کر سکتے ہیں، اب انہوں نے صبر کی تلقین شروع کر دی۔
1975ء میں انڈونیشیا کی فوج بھیج کر مشرقی تیمور پر قبضہ کر لیا گیا جو پرتگال کی سابقہ نو آبادی تھی اور عنقریب مکمل آزادی سے ہمکنار ہونے والی تھی۔ اس پر نہ تو کبھی ولندیزیوں نے حق جتایا نہ ہی جکارتہ میں ان کے قوم پرست جانشینوں نے۔ 1974ء میں پرتگال میں جمہوری انقلاب آیا۔ انقلاب نے لزبن میں فرسودہ آمریت کا خاتمہ کر دیا۔ اس کی ایک وجہ انگولا، موزنبیق اور گینیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکیں تھیں جنہوں نے نوجوان پرتگالی افسروں اور سپاہیوں کو متاثرکیا۔ اقتدار پر قبضہ کرنے والے کپتان اور میجر یہ مصمم ارادہ کئے ہوئے تھے کہ وہ تمام نو آبادیات کو آزاد کر دیں گے، پہلے افریقہ میں پھر مجمع الجزائر میں، ایک ترقی پسند قوم پرست آزادی پسند تحریک، فریتلین، نے مشرقی تیمور کی آزادی کے لیے جدوجہد شروع کر دی تھی اور یہ بالکل واضح تھا کہ مشرقی تیمور کی اکثریت اس کی حمایت کرتی تھی۔ لیکن سائیگون میں ویت نام کی فتح کی صورت امریکہ نے حال ہی میں ایک زبردست ضرب کھائی تھی۔ مشرقی تیمور میں ‘کمیونسٹ’ فتح اس کی آخری خواہش ہی ہو سکتی تھی۔ سہارتو اور ان کے جرنیل سامراجی حکمت عملی کا آلۂ کار بننے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ مزید خون بہا۔
قتلِ عام، تشدد، قید و بند اور فاقوں کے ہاتھوں اس جزیرے کی ایک تہائی آبادی ہلاک ہو گئی۔ واشنگٹن اور کینبرا میں سیاستدانوں کے منہ سے کم ہی کوئی لفظ نکلا ہو گا۔ مشرقی تیمور میں ہونے والا ظلم وستم ان افسروں کی کمان میں ہوا تھا جن کے ہاتھوں پر گزشتہ قتل کی وارداتوں کے نشان تھے: اپنے ہی دس لاکھ لوگوں کا جما ہوا خون۔ اس بار بھی انڈونیشیا میں عیسائیوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے لے اسلامی فصاحت و بلاغت سے کام لیا گیا تھا جبکہ مشرقی تیمور میں کیتھولک رہنماؤں سے کہا گیا تھا کہ مداخلت جزیرے کو فریتیلن کی قیادت کرنے والے ‘کمیونسٹوں’ سے پاک کرنے کے لیے ضروری تھی۔ (131)
مغرب سے ملنے والی حمایت کے باعث سہارتو اور سہارتو کا ٹولہ ایک مرتبہ پھر عوامی قتل عام کرآیا اور کچھ نہیں ہوا۔ واشنگٹن کو شکایت ہوئی نہ لندن کو۔ ان دنوں مغرب کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے انسانیت کی یاد نہیں ستاتی تھی۔ یہ حمایت آخر دم تک ٹھوس صورت میں موجود رہی۔ لیکن ایک دن آیا کہ سڑکوں پر پھر سے مجمع لگنے لگا اور انڈونیشیا کے جرنیلوں اور واشنگٹن میں بیٹھے ان کے سرپرستوں کو اب کسی ایک چیز کا انتخاب کرناہی پڑنا تھا۔ کیا وہ ایک بدعنوان آمر اور اس کے ضمیر فروش خاندان کو برسر اقتدار رکھنے کے لیے مزید دس لاکھ کا قتل عام کرنے پر تیار تھے؟ نہیں، وہ تیار نہیں تھے۔ سرد جنگ گزر چکی تھی۔ چین اب ایک متحرک سرمایہ دار ریاست بن چکا تھا۔ ہنوزامریکی بالا دستی کے سورج پر کوئی داغ نہیں لگا تھا۔ واشنگٹن فراخدلی کا مظاہرہ کر سکتا تھا۔ سہارتو کا زوال روکا نہیں گیا اور آسٹریلیا سے کہا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کے پرچم تلے اپنے دستے مشرقی تیمور بھیجے تاکہ انڈونیشین ملیشیا کو لاحق خون کی پیاس پر قابو پایا جا سکے۔ مشرقی تیمور میں ہونے والی شکست نے فوج کو مزید اس جانب مائل کیا کہ وہ اندرون خانہ اپنی طاقت کا اور زیادہ اظہار کرے۔ لیکن پرانا کنواں زہر آلودہ ہو چکا تھا۔ وہ جو اس کے نقش قدم پر چلے نہ تو اس کی وراثت کو چیلنج کر سکے نہ ہی اس کا رُخ واپس موڑ سکے۔ ان کے ہاتھ بھی تو خون سے رنگے ہوئے تھے۔ پی کے آئی کے جسمانی خاتمے کے باعث ملک میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا تھا۔ 1965ء کے بعد اسلام پرستوں کا خیال تھا وہ روکھے گلے سڑے نظام کا حصہ بن جائیں گے اور سہارتو کے ساتھ مل کر اسی طرح حکومت کریں گے جیسے کبھی پی کے آئی سائیکارنو کے ساتھ مل کر رہی تھی۔
عبدالرحمن وحید این یو کے رہنما تھے۔ اس اسلام پرست جماعت کی نیم خود مختار یوتھ لیگ انصور نے اپنے ہزاروں کارکنوں کو کمیونسٹوں کے خلاف بھرپور جنگ میں جھونک دیا تھا اور ہزاروں ‘سرخ کھٹمل’ مار ڈالے تھے۔ اکثر خونی آخر پاگل پن کا شکار ہو گئے، اپنے کئے پر پچھتاوے سے ان کا دم گھٹتا تھا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جس سیاسی صلے کی توقع تھی وہ بھی نہ ملا۔ سہارتو کا خراج ایسا تھا کہ کسی قسم کے مال غنیمت کو ان کے ساتھ بانٹ کھانا ممکن نہ تھا۔ این یو اجنبیت کا شکار ہو کر رہ گئی۔ کسی تنظیم کی پیوند کاری تشدد سے کر دی جائے تو پھر تشدد کی جڑیں کاٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تشدد بہر حال ایک ہنر ہے اور اسے بیچا جا سکتا ہے یا نئے حریفوں کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے یا گلے سڑے نظام کے پیدا کردہ جرائم پیشہ گروہوں اورمفت خوروں کی خاطر استعمال میں لایا جا سکتا ہے یا عقیدے کے نام پر دہشت کے کام آسکتا ہے۔ ریاست سے قتل کی تربیت لینے والے بدمعاش زیادہ عرصہ بے روز گار نہیں رہتے۔
سہارتو کی رخصتی کے بعد حقیقی متبادل محدود تھے۔ وحید صدر بن گئے اور دوران صدارت انہوں نے مارکسزم پر پابندی کے خاتمے کے لیے زور دیا اور 1965ء میں این یو نے جو کردار ادا کیا اس پر برسرعام معافی مانگی، شائد یہ کافی نہ تھا ،لیکن کسی اور سیاستدان کو تو اس کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ وحید کی تباہ کُن صدارت نے البتہ ان کی ساکھ تباہ کر دی۔ 1999ء کے انتخابات میں ان کے جماعت تیسرے نمبر پر آئی، اکبر تاند جنگ ایسی مکروہ شخصیت سے بھی پیچھے جو بھاڑے کا ایک میلہ باز ٹٹو ہے اور سہارتو کی گولکر جماعت سے تعلق رکھتا ہے جو گلے سڑے دور کی حکمران غیر جماعتی جماعت تھی۔ بڑے پیمانے کی بدعنوانیوں میں سزا پانے اور ان سزاؤں کے خلاف اپیلیں مسترد ہونے کے باوجود وہ گولکر جماعت کی سربراہی اور پارلیمان کے سپیکر کی حیثیت سے سبکدوش ہونے پر تیار نہیں۔ ملک پر حکومت کون کرتا؟ سائیکارنو کی بیٹی کے علاوہ کون کر سکتا تھا۔ پچھلی چند دہائیوں سے ایشیا میں ایک منظر بار بار دیکھنے میں آیا ہے: ایک پاپولسٹ مرد سیاستدان قتل کر دیا جاتا ہے، پھانسی لگا دیا جاتا ہے یا اقتدار سے ہٹا دیا جاتا ہے اور سالوں بعد لوگ اس کی بیوی یا بیٹی کو ووٹ دے کر اعلیٰ عہدے یا اس عہدے کی انتظار گاہ تک پہنچا دیتے ہیں۔ ایشیا میں کسی بھی دوسرے براعظم کی نسبت زیادہ خواتین رہنما رہی ہیں: مسز بندرا نائیکے (سری لنکا)، بے نظیر بھٹو (پاکستان)، حسینہ واجد، خالدہ ضیاء (بنگلہ دیش)، آنگ سن سو چی (برما) اور اب انڈونیشیا میں میگاوتی گویہ نام ان کے لیے موزوں نہیں۔
انہوں نے بھی اپنی جماعت (پی این آئی/ پی ڈی آئی) کے رائٹ ونگ قوم پرست گروہوں کے ہاتھوں اپنی ہی پارٹی کے لیفٹ ونگ کارکنوں اور پی کے آئی کے کارکنوں کے قتل پر، بالخصوص 1965-66ء میں بالی اندر، افسوس کا کوئی اظہار نہیں کیا۔ بعدازاں انہوں نے مشرقی تیمور پر قبضے کا دفاع کیا۔ نو آبادیاتی دور میں کی گئی ملتا تولی کی تاکید-97-97 کہ بنی نوع انسان کا کلیدی کردار انسان بننا ہے-97-97 کو معیار مقرر کر لیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ بعداز سہارتو دور میں بہت کم ایسے سیاستدان ہیں جنہیں نوع انسان قرار دیا جا سکتا ہے۔ یقینا پہلے سال باری باری ملک چلانے والی دو کمزور باقیات تو ہر گز بھی نہیں۔ لیکن پس منظر میں وہی فوج تھی، سینئیر افسروں کی وہی مجرمانہ نسل تھی، درندگی اور سفلے پن کی خوگر وھی سپاہ تھی اور ایک مرتبہ پھر آچے اور مغربی پاپوا میں وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ شروع کر رہی تھی۔
ان حالات میں انتہا پسند مذہبی تنظیموں کا ابھار قطعاً حیرت کی بات نہیں۔ دارالسلام بھی ایک ایسا ہی گروہ تھا جس پر غیر مسلموں پر حملوں کا الزام تھا۔ ایک اور گروہ جامعیہ اسلامیہ (جماعت اسلامی) تھا جو این یو اور محمدیہ کے مقابلے پر ایک چھوٹی سی تنظیم تھا۔