تاریخ

لال خان تو زندہ ہے انقلاب کے نعروں میں

التمش تصدق

21 فروری 2024 کو عظیم انقلابی کامریڈ لال خان کی چوتھی برسی ہے۔جسمانی طور پر ہم سے جدا ہونے کے باجود کامریڈ لال خان اپنے نظریات کی صورت میں آج بھی زندہ ہیں۔دنیا کی اور بالخصوص پاکستانی کی موجودہ سیاسی، معاشی، معاشرتی،ثقافتی اور اخلاقی صورتحال کو سمجھنے کے لیے لال خان کا تجزیہ اور تناظر آج بھی حکمران طبقے کے دانشوروں سے ہزاروں گنا زیادہ رہنمائی فراہم کرتا ہے جو لاکھوں رویے تنخواہ لیتے ہیں اور زندہ ہوتے ہوئے بھی سماج کو سائنسی بنیادوں پر دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔لال خان کی تقریریں سن کر اور تحریریں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ابھی بھی زندہ ہیں اور اس کیفیت کا تجزیہ کر رہے ہیں۔پاکستان میں حکمران طبقے کی لڑائی کھل کر منظر عام پر آ چکی ہے۔یہ لڑائی نظریات کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ مختلف سامراجی ممالک کے نمائندہ دھڑوں کے درمیان دولت اور طاقت کے حصول کی لڑائی ہے۔یہ کالےدھن پر پلنے والی مافیا کی سیاسی قتدار میں حصہ داری کی لڑائی ہے۔

اس حوالے سے کامریڈ لال خان لکھتے ہیں اس وقت پاکستان کی سرکاری معیشت میں کالا دھن کینسر کی طرح بڑھ چکا ہے۔اس سماج، سیاست اور ریاست پر اس کالے دھن کے کئی طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جن میں ریاستی اداروں کے تنازعات اور متوازی معیشت کے متحارب حصوں کے نمائندوں کے مابین ٹکراؤ بھی شامل ہے”۔حکمران طبقے کی پالیسوں کے حوالے سے لکھتے ہیں "بچے کھچے قومی اداروں کی نجکاری سے بیروزگاری میں اضافہ ہو گا اور عوام پر صحت و تعلیم کے سرکاری اخراجات مزید کم کیے جائیں گے۔خساروں کی وجہ سے مہنگائی پہلے ہی زور پکڑ رہی ہے مزید بڑھے گی”. وہ مزید لکھتے ہیں کہ ” پاکستان میں معیشت آئی ایم ایف کے کنٹرول میں ہے اور اہم پالیسیاں ریاست کے مقتدر حلقے بنا رہے ہیں یہ حالات یہاں کے محنت کش طبقات پر مزید واضح کریں گے کہ ایک نیا سماج تخلیق کرنے کرنے کے لیے انہیں اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا ہو گا۔

کامریڈ لال خان کی جدوجہد اتنی طویل اور ان کا نظریاتی کام اتنا وسیع ہے کہ ان کی شحصیت اور نظریات کا احاطہ ایک مضمون میں نہیں کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے ساری زندگی حکمران طبقے کی دھوکہ دہی پر مبنی سیاست، اقلیتی طبقے کی ثقافت،جھوٹی صحافت،استحصالی معیشت، منافقانہ اخلاقیات اور رجعتی روایات و نظریات کے خلاف علمی اور عملی بنیادوں پر بے رحم لڑائی لڑی ہے۔انہوں نے حکمران طبقے کی طرف سے محنت کشوں کو تقسیم کرنے کے لیے پھیلائے گئے ہر ایک تعصب اور نفرت کو بے نقلاب کیا اور محنت کشوں کے عالمی اتحاد کے لیے جدوجہد کی۔انہوں نے سائنسی بنیادوں پر یہ وضاحت کی کے کوئی بھی قوم، مذہب، جنس یا نسل طبقاتی سماج میں یکجا اکائی نہیں ہوتی بلکہ افراد طبقات میں تقسیم ہوتے ہیں۔ایک ہی مذہب، نسل،جنس اور قوم سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں اور سرمایہ داروں کے مفادات مختلف ہوتے ہیں۔انسانوں کو رنگ، مذہب، ذات، زبان، علاقے یا جنس کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے پیچھے حکمران طبقے کے طبقاتی مفادات پوشیدہ ہیں۔وہ لکھتے ہیں محنت کشوں کا اتحاد حکمرانوں کو کھا جاتا ہےاس لیے وہ اس اتحاد کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔

کامریڈ لال خان جہاں ہر قسم کے تعصب کے خلاف تھے وہاں ہر قسم کے جبر کے خلاف بھی جدوجہد کو اپنا انقلابی فریضہ سمجھتے تھے وہ جبر صنفی ہو،مذہبی ہو، قومی ہو یا اس کی اور کوئی شکل ہو یہی وجہ ہے وہ پاکستان جیسے سماج میں جہاں قومی مسئلہ ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے وہاں بلوچستان سے لے کر کشمیر تک انقلابی تنظیم کی بنیادیں رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے طبقاتی سماج میں پائی جانے والی بیگانگی اور تنہائی کی سائنسی وضاحت کی۔اس حوالے سے لال خان لکھتے ہیں”معاشی گراوٹ جوں جوں بڑھتی ہے سماجی بیگانگی اور دوری میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔آج کروڑوں کے ہجوم میں بھی انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔صرف غریب ہی نہیں درمیانے اور بالادست طبقات بھی اسی نفسا نفسی سے دوچار ہیں”. اس تنہائی اور بیگانگی سے نجات کے لیے انسان جب خاندان اور خونی رشتوں میں پناہ لیتا ہے اس کو وہاں سے بھی دھتکارا جاتا ہے۔بظاہر طبقاتی مفادات سے بالا سمجھے جانے والے خاندان کے طبقاتی کردار کے حوالے سے لال خان لکھتے ہیں رشتوں کی پہچان اب مالیاتی حثیتوں اور سماجی رتبوں پر مبنی ہو کر رہ گئی ہے۔کسی بےروزگار نوجوان کی جانب اس کے جاذب ترین خونی رشتوں کی نظریں بھی بدل جاتی ہیں۔اس سے اجتناب کرنے لگتی ہیں۔امارت اور غربت کا فرق خاندان کو بھی طبقاتی بنیادوں پر دو لخت کر دیتا ہے۔امیر گھرانوں میں پلنے والے غریب رشتے دار جس اذیت سے گزرتے ہیں عمر بھر اس عذاب سے نکل نہیں سکتے ہیں۔

لال خان کی سیاسی بصیرت، نظریاتی پختگی،غیر معمولی جرت،لازوال جدوجہد کے باوجود وہ کوئی دیوتا نہیں تھے نہ ہی کوئی مسیحا تھے۔لال خان قوم پرستی اور بنیاد پرستی کے ساتھ شخصیت پرستی کے بھی سخت خلاف تھے۔وہ انقلاب کے لیے شخصیت کے بجائے انقلابی پارٹی کو ضروری سمجھتے تھے جو محنت کش عوام کو اجتماعی قیادت مہیا کر سکے۔اس لیے انہوں نے آخری سانس تک انقلابی پارٹی کی تعمیر کی جدوجہد کی ہے۔وہ کہتے تھے "انسان چاہے کتنا ہج ذہین کیوں نہ ہو وہ انقلابی پارٹی کا متبادل نہیں ہو سکتا۔وہ ایک ہی وقت میں سائنس، آرٹ،تاریخ اور فسلفے کا ماہر نہیں ہو سکتا "۔ کامریڈ لال خان بھی ایک انسان تھی جن میں بے شمار خوبیوں کے ساتھ کچھ کمزوریاں اور خامیاں بھی ہوئی ہوں گی۔ لال خان کو جو چیز عظیم بناتی ہے وہ ان کے نظریات اور ان نظریات کے ساتھ ان کی بے لوث لگن اور انقلاب کی تڑپ تھی۔

لال خان کے رویے میں حکمران طبقے اور اس کے نظام کے خلاف نفرت اور حقارت تھی ان کے لہجے میں حکمرانوں کے کے للکار تھی وہاں انقلابی ساتھیوں کے ساتھ انتہائی عاجزی کے ساتھ پیش آتے تھے۔لال خان کی شخصیت میں خود نمائی کا شائبہ تک نہیں تھا۔پیشہ ور انقلابیوں کی جس جماعت کی تعمیر کے لیے وہ جدوجہد کرتے تھے وہاں وہ خود پیشہ ور انقلابی کی حقیقی مثال تھے،جس کا جینا اور مرنا انقلاب کے لیے تھا۔انہوں نے تنطیم کے اندر اور بائر درمیانی طبقے کی دوسرے انسانوں کو حقیر اور چھوٹا تصور کرنے والی سوچ کے خلاف لڑائی لڑی اور اس نفسیات کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی۔جب بھی دنیا کے کسی بھی ملک میں محنت کش سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف انقلاب کا علم بلند کریں گے لال خان سمیت دیگر انقلابیوں کا انقلابی کام اور سوشلسٹ نظریات ان کی رہنمائی کریں گے۔آج اس نظام میں محنت کشوں کے لیے پہلے سے زیادہ ذلت اور بربادی ہے، بھوک ہے، بیماری ہے اور ریاستی جبر ہے۔ان ذلتوں اور بربادیوں سے لڑنے کے لیے انقلابیوں کو لال خان جیسا حوصلہ اور لگن درکار ہے جو انسان کو نظریات ہی مہیا کر سکتے ہیں۔

Altamash Tasadduq
+ posts

مصنف ’عزم‘ میگزین کے مدیر ہیں۔