التمش تصدق
انسان ایک ہی وقت میں انفرادی اور سماجی وجود کا حامل ہے۔انسان کے انفرادی وجود کو قائم رکھنے کے وہی تقاضے،جبلی ضروریات اور خواہشات ہیں،جو دیگر جانوروں اور انسانوں کی بقاء کے لیے ضروری ہیں۔ان ضروریات میں کھانا، پینا، سونا، نسل بڑھانے کے لیے جنسی عمل، بچوں کی پیدائش، ان کی پرورشِ اور ان کی حفاظت کرنا شامل ہے۔انسان کی انفرادی اور اجتماعی بقا ء ضروریات زندگی کے حصول میں ہے۔تمام انسانوں کو بھوک مٹانے کے لیے خواراک، موسمی شدت سے بچنے کے لیے لباس، رہنے کے لیے گھر، روزگار، تعلیم، علاج، تحفظ، انصاف اور سماجی مساوات چاہیے۔
انسان کی سب سے بڑی انفرادی یا شخصی آزادی یہ ہے کہ وہ حیوانی ضروریات سے آزاد ہو۔ ضروریات زندگی سے آزادی سے مراد بلا تفریق تمام انسانوں کو ضروریات کی فراہمی ہے۔انسان کے انفرادی وجود کا بنیادی حق زندہ رہنے کا حق ہے اور یہ حق زندگی کو قائم رکھنے کے تمام تقاضے پورے کر کے ہی انسان کو دیا جا سکتا ہے۔
انفرادی وجود کی بقا ء کے لیے جو ضروریات درکار ہیں، انہیں انسان تن تنہا حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ اس کے لیے اسے دیگر انسانوں کا تعاون دردکار ہوتا ہے۔یہ سماج ہی ہے جو انسان کو خوراک، لباس، اوزار، زبان اور خیال مہیا کرتا ہے۔سماج انسان کی ضروریات زندگی کے حصول کے لیے جدوجہد کی پیدوار اور اظہار ہے۔
اس حوالے سے کارل مارکس نے لکھا ہے کہ ”سماج کی کوئی بھی شکل ہو انسان کے باہمی اقدامات کا نتیجہ ہے۔کیا لوگ سماج کی ایک یا دوسری شکل کا انتخاب کرنے میں آزاد ہیں؟ کسی طرح نہیں۔یہ بات کہنا زیادہ ضروری ہے کہ لوگ اپنی پیداواری طاقتوں کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد نہیں ہیں کیوں کے ہر پیداواری طاقت ایک حاصل کی ہوئی طاقت ہوتی ہے جو پچھلی نسلوں کی سرگرمیوں کا پھل ہے۔اس طرح پیداواری طاقتیں انسان کی عملی قوت کا نتیجہ ہیں۔انسان کی سماجی تاریخ انسان کی انفردی بقا ء کی تاریخ کے سوا کچھ نہیں ہے خواہ وہ اس کا شعور رکھتے ہوں یا نہ۔“
سماج ایک جگہ پر ٹھہرا ہوا نہیں ہوتا ہے بلکہ دیگر نامیاتی اجسام کی طرح سماج کا بھی ارتقا ء ہے۔سماجی ارتقا ء دراصل پیدواری قوتوں کا ارتقاء ہے۔پیداواری قوتوں کی ترقی کس سطح پر ہے طے کرتی ہے سماج کتنا ترقی یافتہ ہے اور ارتقا ء کی کس منزل پر ہے۔ کسی بھی سماج میں جب پیداواری قوتوں کے ارتقا ء میں پرانا سماجی ڈھانچہ رکاوٹ بن جاتا ہے، تو انسان انقلاب کے ذریعے اسے مکمل تبدیل کر دیتے ہیں۔
انقلابات نہ صرف سماجی ڈھانچے کو تبدیل کرتے ہیں بلکہ انفرادی طور پر افراد کو بھی بدل دیتے ہیں۔انقلاب انسان کے زندہ رہنے اور سوچنے کے انداز بدل دیتے ہیں۔آج سرمایہ داری میں جس سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کی بنیاد پر جدید سہولیات جو دنیا کے مخصوص خطے اور اقلیتی طبقے تک محدود ہیں کسی فرد واحد کی ذہانت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ جدید ذرائع پیداوار اور ذرائع ترسیل انسانوں کی لاکھوں سالوں کی اجتماعی محنت اور جدوجہد کا ثمر ہیں،جن پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ان جدید ذرائع پیداوار کو نجی ملکیت کی زنجیروں سے آزاد کر کے ہی تمام انسان ترقی سے مستفید ہو سکتے ہیں اور بنیادی ضروریات سے آزاد ہو سکتے ہیں۔
لبرل ازم انسان کی اجتماعی محنت پر انفرادی تصرف کو شخصی آزادی تسلیم کرتا ہے۔لبرل ازم دراصل اس نظام کی پیداوار ہے جو انفرایت پر قائم ہے۔نجی ملکیت اور انفرادیت پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام میں جنم لینے والی اخلاقیات، نظریات اور اقدار بھی خود غرضی، انفرادیت اور منافقت پر مبنی ہوتی ہیں۔لبرل حضرات نجی ملکیت کے تحفظ اور اس میں اضافے کی آزادی کو انسان کا پیدائشی حق اور شخصی آزادی کی بنیادی شرط قرار دیتے ہیں۔ان کے نزدیک سرمائے میں اضافے کی اندھی دوڑ ہی انسان کا مقصد حیات ہے۔امیر بننے کا خواب انسان کے پاس نہ رہے تو انسان کی دنیا ختم ہو جائے گی۔ نجی ملکیت جس کے وجود اور اضافے کی واحد شرط یہ ہے کہ محنت کش عوام،جو آبادی کی اکثریت ہے،ہر قسم کی ملکیت سے محروم ہوں اور قوت محنت بیچنے پر مجبور ہوں۔یوں اربوں محنت کشوں کی محنت مٹھی بھر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالک سرمایہ داروں کی دولت اور طاقت میں اضافہ کرتی رہے۔سرمایہ دار حکمران طبقے کے نزدیک ایک انسان کو دوسرے انسان کی محنت کے استحصال کی شخصی آزادی حاصل ہے اور یہ بنیادی انسانی حق ہے،جیسے غلام مالکان کو غلام رکھنے کی شخصی آزادی تھی۔
سرمایہ داری کے دانشوروں کے مطابق مزدور اپنی مرضی سے اپنی محنت بیچتے ہیں،عورتیں اپنی مرضی سے اپنا جسم بیچتی ہیں،فن کار اپنی مرضی سے اپنا فن بیچ رہا رہے ہیں،کام ان لوگوں کا ذاتی انتخاب ہے اور یہ نظام ان تمام لوگوں کو آگے بڑھنے کے مواقع دیتا ہے۔محنت کشوں کی محرومیاں اور مجبوریاں ان کی نا اہلی کی وجہ سے ہیں۔ان کو بھی محنت کر کے سرمایہ دار بن جانا چاہیے۔وہ ان حالات کو نظر انداز کرتے ہیں جن میں محنت کش اپنی محنت بیچنے پر مجبور ہوتے ہیں۔سرمایہ داری میں محنت کشوں کے پاس زندہ رہنے کے لیے اپنی قوت محنت بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔و محنت کشوں کو اجرتی غلامی کے خاتمے کی جدوجہد کے بجائے آقا یعنی سرمایہ دار بننے کی ترغیب دیتے ہیں۔بقول مارکس ”سرمایہ داری نے انسان کی تمام تسلیم شدہ انسانی آزادیوں کو چھین کر واحد آزادی دی ہے، تجارت کی آزادی۔“
نظام زر میں آزادیِ بھی ایک جنس ہے جو منڈی میں بکتی ہے۔جو شخص قوت خرید یعنی سرمایہ رکھتا ہے وہ ہر آزادی خرید سکتا ہے۔آپ نے جہالت سے آزادی حاصل کرنی ہے تو تعلیم بکتی ہے،بیماری سے نجات چاہتے ہیں تو علاج خرید سکتے ہیں،بھوک مٹانا چاہتے ہیں تو خواراک خرید سکتے ہیں۔موسمی شدت سے بچنے کے لیے لباس اور گھر خرید سکتے ہیں۔سفری سہولیات کے لیے مہنگی اور جدید گاڑیوں سے لے کر ذاتی طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی خرید سکتے ہیں۔اس منڈی میں انسانی محنت، جسم، ضمیر اور نظریات بکتے ہیں۔مذہب،سیاست، اور صحافت بکتی ہے۔ملاں،پنڈت اور پادری بکتے ہیں۔وکیل، طبیب اور ادیب بکتے ہیں۔بنیادی ضروریات سے آزادی کے علاوہ تفریح کا سامان بکتا ہے،فن اور فنکار بکتے ہیں، کھیل اور کھلاڑی بکتے ہیں۔یہ نظام سفری آزادی بھی دیتا ہے۔ آپ سرمایہ دار ہیں تو آپ پر کوئی سرحدوں کی قید نہیں ہے۔ حتیٰ کہ سرمایہ دار حکمران طبقے کو جنگوں اور قحط کے ذریعے کروڑوں انسانوں کا قتل عام کرنے کی آزادی ہے۔منافعے کے لیے فطرت کا استحصال اور ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کی شخصی آزادی بھی حاصل ہے۔محنت کشوں کو ووٹ دینے اور سرمایہ داروں کو ووٹ خریدنے کی آزادی ہے۔اظہار رائے کی آزادی ہے پر رائے عامہ بنانے کے تمام پروپیگنڈہ ذرائع حکمرانوں کے قبضے میں ہیں۔ایک فیصد طبقے کی عیاشی اور شخصی آزادی 99فیصد محنت کشوں کی اجرتی غلامی پر قائم ہے۔
حکمران طبقہ جس طبقے کی محنت پر عیاشی کر رہا ہے،اسے ہی درس دیتا ہے کہ اس کو بھی محنت کے ذریعے نجی ملکیت کی برکات سے مستفید ہونا چاہئے۔ حکمران طبقہ عوام میں اس سوچ کو پروان چڑھاتا ہے انسان کو صرف اپنی ذات کے بارے میں،اپنے خاندان، اپنے مستقل،اپنے بیوی، بچوں کی فکر کرنی چاہیے نہ کہ سماجی مسائل پر غور کرتا پھرے۔وہ محنت کشوں کو باور کرواتے ہیں کہ آزادی انفرادی محنت سے کمائی جاتی ہے۔
ہم ان سے سوال کرتے ہیں فطرت کی جن قوتوں سے انہوں نے آزادی حاصل کی ہے،کیا وہ سہولیات انکی یا ان کے آباؤاجداد کی ذاتی محنت کا نتیجہ ہیں؟ کیا وہ جو خوارک استعمال کرتے ہیں اسے خود پیدا کرتے ہیں؟جس مکان میں رہ رہے ہیں،اس کی تعمیر انہوں نے اپنے ہاتھوں سے کی ہے؟جدید سفری سہولیات،جن کا وہ ااستعمال کرتے ہیں کیا وہ ان کی ذاتی ایجاد ہے؟ذرائع ابلاغ اور مواصلات ان کی ایجاد ہے؟جس زبان میں وہ اظہار خیال کرتے ہیں ان کی ذاتی پیداوار ہے؟جس سیارے کو سرمایہ دار اپنے منافعے کی ہوس میں تباہ کر رہے ہیں اس پر کیاصرف ان کا حق ہے؟ جو تعلیم وہ اپنے بچوں کو دے رہے ہیں،کیا فطرت اور سماج کے حوالے سے علم ان کے ذاتی تجربات کا نتیجہ ہے؟
تمام دولت فطرت پر انسانی محنت کی پیداوار ہے۔جن آلات سے محنت کی جاتی ہے،وہ نسل انسان کی محنت اور جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔محنت کش طبقہ ہی ہر قسم کی دولت کا خالق ہے۔انسان جو فطرتاً سماجی حیوان ہے،سرمایہ داری اسے زبردستی انفرادی جانور بنانے کی کوشش کی کرتی ہے۔ اس کے مطابق انسان کا کام انفرادی حیاتیاتی تقاضوں کی تکمیل کی جدوجہد تک محدود ہے۔محنت کش،جو سماج کی اکثریت ہیں،وہ بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں اور زندہ رہنے کی جنگ میں بھی ناکام ہو ر ہے ہیں۔
بقول لیون ٹراٹسکی”جب تک انسان کی قوت محنت کا استحصال جاری رہے گا،تو ناگزیر طور پر اس کی زندگی بھی خرید و فروخت کی شے بن کر رہ جائے گی۔ایسے میں انسانی زندگی کا تقدس ایک شرمناک جھوٹ ہی رہے گا،جس کا مقصد محکوم انسانوں کو زنجیروں میں رکھنے کے سوا کچھ نہیں۔“
ذرائع پیداوار پر محنت کشوں کے اشتراکی کنٹرول کے ذریعے سے ہی اس سفر کا آغاز کیا جا سکتا ہے،جہاں سے نسل انسان کی حقیقی آزادی کا آغاز ہو گا۔اشترکیت انسان کے انفرادی وجود سے انکار نہیں کرتی بلکہ زیادہ بلند پیمانے پر انفرادی صلاحیتوں کو نکھارنے کے وسائل اور اظہار کے موقع مہیا کرتی ہے۔