فاروق طارق
نیپال میں اس وقت ایک بار پھر بائیں بازو کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ اس حکومت میں 4بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ یہ نئی حکومت 25فروری کو وزیراعظم پرچندا کی جانب سے کانگریس سے علیحدگی کے اعلان کے بعد قائم ہوئی ہے۔ نئی بائیں بازو کی اتحادی حکومت میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونائیٹڈ مارکسسٹ لینن اسٹ (سی پی این یو ایم ایل) ہے، دوسری بڑی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال ماؤسٹ سنٹر(سی پی ایم ایم سی) ہے، وزیراعظم پرچندا کا تعلق اسی جماعت سے ہے۔ تیسریبڑی سیاسی جماعت آر ایس پی ہے، جو پہلے کانگریس کے ساتھ شامل تھی، اب اس نئے اتحاد میں شامل ہے۔ چوتھی بڑی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونیفائیڈ سوشلسٹ (سی پی این یو ایس) ہے، جس کی قیادت سابق وزیراعظم مدن کمار نیپل کر رہے ہیں۔
نیپال جنوب ایشیامیں واحد ملک ہے جہاں مذہبی بنیاد پرستی نہیں ہے۔ بہت بڑی آبادی ہندو ہے، صبح صبح بہت سے لوگ عبادت کرتے ہیں، لیکن کسی پر اپنے مذہب کو تھونپتے نہیں ہیں۔ ریاست کو مذہب سے الگ رکھا گیا ہے۔ ہندو مذہب کی اکثریت ہونے کے باوجود مذہبی اقلیتیں کافی حد تک یہاں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔
نیپال وہ واحد ملک ہے جہاں جنوب ایشیا کے کسی بھی شہری کو آنے میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ ماسوائے افغانستان کے کسی ملک کے شہری کو ویزے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان، بھارت،بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ وغیرہ کے تمام شہری بغیر ویزے کے یہاں آسکتے ہیں۔ ایئرپورٹ پر اتریں تو فوری ویزہ جاری کر دیا جاتا ہے۔ سال میں ایک دفعہ ویزہ فری ہے، دوسری مرتبہ جانے کیلئے 30ڈالر کی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ کسی اور ملک میں شاید ایسا نہیں ہے۔
سی پی این یو ایم ایل 1991میں قائم کی گئی تھی، اس سے قبل 1990میں دو جماعتی یونائیٹڈ لیفٹ فرنٹ تشکیل دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اگلے سال ان دونوں جماعتوں نے مل کر ایک نئی پارٹی تشکیل دی اور اسکا نام سی پی این یو ایم ایل رکھ لیا گیا۔
1991کے انتخابات میں اس نئی جماعت نے 69سیٹیں جیتیں اور مرکزی اپوزیشن پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ من موہن ادیکاری پارٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے اور مدن بنڈھاری پہلے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ تاہم ان کی وفات کے بعد مدن کمار نیپل سیکرٹری جنرل بن گئے تھے۔
1994میں ایک مڈ ٹرم الیکشن ہوئے، جن میں سی پی این یو ایم ایل نے 205میں سے 90نشستیں جیت لیں۔ اس کے بعد من موہن ادیکاری نے کمیونسٹوں کی پہلی حکومت قائم کی۔ یہ سوویت یونین کے بعد ایک زبردست واقعہ تھا کہ ایک ملک میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہو گئی۔ دوسری طرف اس وقت یورپ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے اکثر ملکوں میں کمیونسٹ پارٹیاں زوال کا شکار تھیں۔ نیپال میں یہ حکومت 9ماہ تک قائم رہی، لیکن اقلیتی حکومت ہونے کی وجہ سے 9ماہ بعد عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم ہو گئی۔
سی پی این یو ایم ایل کو پہلی بڑی سپلٹ کا سامنا 1998میں کرنا پڑا، جب بھارت سے پانی کی شیئرنگ کے ایشو پر پارٹی تقسیم ہو گئی تھی۔ پارٹی کے 46ممبران نے علیحدہ ہو کر نئی پارٹی قائم کر لی۔ اس نئی پارٹی کا نام کمیونسٹ پارٹی آف نیپال مارکسسٹ لینن اسٹ (سی پی این ایم ایل)تھا۔ اس نئی پارٹی کے رہنما بام دیو گوتم تھے، جو بعد میں کانگریس کے ساتھ حکومت میں شامل ہو گئے تھے۔
1999کے عام انتخابات میں سی پی این یو ایم ایل نے 205میں سے 70سیٹیں جیتیں اور دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ پارٹی کی 7ویں کانگریس2003میں جینک پور میں ہوئی۔ اس کانگریس میں پارٹی چیئرمین کے عہدے کو ختم کر کے مدن کمار نیپل کو پارٹی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔
2003میں جب نیپال کے شہنشاہ دیاندرا نے کانگریس کی حکومت کو تحلیل کیا تو اس وقت یہ سی پی این یو ایم ایل کو بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ 2005میں جب کانگریس کی حکومت کو دوبارہ بحال کیا گیا تو سی پی این یو ایم ایل دوبارہ حکومت میں شامل ہو گئی اور ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ اسی دوران بادشاہ نے ایک بار پھر حکومت کو ختم کر لیا۔
شہنشاہ کے اس اقدام کے خلاف7جماعتی اتحادتشکیل پایا، جس نے شہنشاہ کے خلاف جدوجہد شروع کر دی۔ ماؤ اسٹ بھی اس احتجاجی تحریک میں شامل ہو گئے۔ 2006میں ایک بہت بڑی عوامی تحریک کے نتیجے میں بادشاہت کا خاتمہ کر دیا گیا اور ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی۔
2008میں آئین ساز اسمبلی کے قیام کیلئے جو عام انتخابات ہوئے ان میں سی پی این یو ایم ایل نے 605میں سے 106نشستیں جیتیں۔ پارٹی کی اس مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے مدن کمار نیپل نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ جال ناتھ کو سیکرٹری جنرل چنا گیا۔
2008سے 2013تک کے دور میں پارٹی کئی بار تقسیم کا شکار ہوئی، حکومت میں شامل ہوئی، اتحادوں میں گئی اور اتحادوں سے الگ ہوئی۔ یہ ایک سیاسی عدم استحکام کا دور تھا۔ تاہم 2013کے الیکشن میں سی پی این یو ایم ایل نے 575میں سے 175نشستیں حاصل کیں اور دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔2014میں منعقد ہونے والی پارٹی کی 9ویں کانگریس میں خادکاپرساد اولی مدن کمار نیپل کو شکست دے کر پارٹی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔
2017کے عام انتخابات سے پہلے سی پی این یو ایم ایل نے پرچندا کی پارٹی سے اتحاد کا اعلان کر دیا۔ اس پارٹی نے 275میں سے 121سیٹیں جیت لیں اور ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی اور ملک کے 6 میں سے5صوبوں میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ یہ بائیں بازو کی بہت بڑی جیت تھی، جس میں سب سے بڑی پارٹی اور دوسرے نمبر کی پارٹی کمیونسٹ تھی، کانگریس تیسرے نمبر پر تھی۔ 2017سے 2021تک اس نئی پارٹی کی حکومت قائم رہی۔
2018میں انہوں نے دوبارہ سی پی این یو ایم ایل کو تحلیل کر کے کمیونسٹ پارٹی آف نیپال کے نام سے کام کرنا شروع کر دیا۔ تمام جماعتیں ضم ہو کر ایک ہی پارٹی قائم کر لی گئی۔ 2021میں سپریم کورٹ کی مداخلت کے نتیجے میں یہ انضمام غلط قرار دیا گیا اور الیکشن کمیشن نے پارٹیوں کو علیحدہ اپنے پرانے نام کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دے دی۔ اس وقت کے وزیراعظم خادکا پرساد اولی نے اپنے وعدے کے مطابق پرچندا کو وزیراعظم بنانے سے انکار کر دیا اور حکومت تحلیل ہو گئی۔ خادکا پرساد نے 2021میں ایک عبوری حکومت قائم کی۔
2021میں سابق وزیراعظم مدن کمار نیپل نے کمیونسٹ پارٹی آف نیپال سے علیحدگی کا اعلان کیا اور ان کیساتھ 55سنٹرل کمیٹی کے ارکان اور 25ارکان پارلیمنٹ بھی چلے گئے۔ اس طرح پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت ختم ہو گئی اور خادکا پرساد اولی کو استعفیٰ دینا پڑا۔
2022کے عام انتخابات میں کمیونسٹ پارٹی آف نیپال نے خادکا پرساد اولی کی سربراہی میں 275میں سے 78سیٹیں جیتیں۔ 88سیٹوں کے ساتھ کانگریس پہلے نمبر پر تھی، 50سیٹیں لے کر پشپا کمار دل پرچندا تیسرے نمبر پر تھے، آر ایس پی 25سیٹیں لے کر چوتھے نمبر پر تھی۔ کانگریس نے پشپا کمار دل پرچندا کی حمایت کی اور وہ وزیراعظم بن گئے۔ 25فروری 2024کو پرچندا نے یکطرفہ طور پر کانگریس سے علیحدگی کا اعلان کر کے یہ کہا کہ وہ سی پی این یو ایم ایل کے ساتھ دوبارہ اتحاد قائم کر رہے ہیں اور ایک نئی بائیں بازو کی اتحادی حکومت بنائیں گے۔ یہ حکومت مارچ میں قائم ہوئی، جس میں 7وزراء سی پی این یو ایم ایل کے ہیں، جبکہ وزیراعظم پرچندا ہیں۔
نیپال میں کمیونسٹ پارٹیوں کی پارلیمنٹ میں کل 66فیصد نشستیں ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت دنیا کے کسی اور ملک میں نظر نہیں آتی ہے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ یہ کمیونسٹ پارٹیاں ماضی کی طرح کی نہیں ہیں، جو ایک پارٹی کی حکومت اور ایک پارٹی سسٹم پر بات کرتی ہوں۔ یہ حقیقت میں سٹالنسٹ پارٹیاں ہی نہیں رہی ہیں اور نہ ہی یہ اب ماؤسٹ پارٹیاں رہی ہیں۔ یہ اب پارلیمانی پارٹیاں بن گئی ہیں، جو بائیں بازو کے نظریات کی ترویج کرتی ہیں۔ ان کو زیادہ سے زیادہ سوشل ڈیموکریٹک نقطہ نظر کی حامل پارٹیاں کہا جا سکتا ہے۔
تاہم جس قسم کی صورتحال جنوب ایشیا میں ہے، جہاں مذہبی جنونیت مسلسل پنجے گاڑھ رہی ہے۔ مودی دوبارہ منتخب ہونے جا رہے ہیں، پاکستانمیں بھی عمران خان مذہب کو استعمال کرتے ہوئے اس کے فروغ کی بات کرتے ہیں۔ کسی ملک میں بھی ایسی صورتحال نہیں ہے، جو نیپال میں نظر آتی ہے۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹیاں بھی ایسی صورتحال میں غنیمت ہیں، جہاں لوگ کافی حد تک آزادانہ کام کر سکتے ہیں۔
نیپال ابھی بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔نیپال کی آمدن کا انحصار سیاحت اور بیرون ملک محنت کشوں کی برآمد پر ہی ہے۔ یہ تاریخی طور پر بہت ترقی پسند ملک رہا ہے، اس نے کبھی بھی اپنی سرحدیں بند نہیں کیں اور کسی بھی ملک کا شہری یہاں آسانی سے آسکتا ہے اور سیر کر سکتا ہے۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بھی یہاں پر ہیں،جو سیاحت کیلئے بہت پرکشش ہیں۔ انفراسٹرکچر ماضی میں بہت زبوں حالی کا شکار تھا، جس میں کسی حد تک اب بہتری آئی ہے۔ کمیونسٹ اقتدار میں ہو کر کسی حد تک محنت کش طبقے کیلئے کام کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی بھی نیپال جنوب ایشیا کے غریب ترین ملکوں میں شامل ہوتا ہے۔ کمیونسٹوں کے دور میں بھی معاشی شرح نمو میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی ہے۔
ان کمیونسٹ پارٹیوں کے مابین بھی بہت زیادہ سیاسی پیچیدگیاں رہی ہیں، ان کے رشتے بھی عجیب و غریب ہی ہیں، کبھی یہ ایک دوسرے کے خلاف ہوتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے یہ ایک دوسرے کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ یہ پارٹیاں ایسی ہیں کہ ان کے رہنما پبلک میں بھی اپنی پارٹی کے خلاف بات کر سکتے ہیں۔ تحریر و تقریر کی آزادی ہے اور سیاسی مباحث بھی بہت زیادہ ہیں۔ نیپال ایک ایسا ملک ہے، جس کی جنوب ایشیا کے دیگر ملک پیروی کر سکتے ہیں اور کسی حد تک سیاست کو ایک نئی سمت دے سکتے ہیں۔