پاکستان

کرم میں خون کی ہولی: محافظ ہی قاتل ہوں تو حفاظت کون کرے؟

حارث قدیر

پاکستان کے صوبہ پختونخوا کے ضلعے کرم میں 21نومبر سے شروع ہونے والے پرتشدد واقعات میں تین روز کے دوران کم از کم 82افراد ہلاک اور 156سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ فریقین نے 7ایام کے لیے سیز فائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔

سرکاری عہدیدار کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 16افراد سنی فرقے، جبکہ66کا تعلق شیعہ فرقے سے ہے۔ پرتشدد واقعات کا یہ تازہ سلسلہ جمعرات21نومبر کو پشاور سے پارا چنار اور پارا چنار سے پشاورجانے والے گاڑیوں کے قافلے پرمسلح افراد کے حملے کے بعد شروع ہوا۔ اس حملے میں 44سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اگلے روز مسلح افراد نے لوئر کرم میں حملہ کر کے 400سے زائد مکان ا ور دکانیں نذرِ آتش کر دی تھیں۔

ہفتے کی شب تک جاری رہنے والی ان جھڑپوں میں 300سے زائد خاندان علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ لوئر کرم میں مسلح لشکر کشی کے نتیجے میں 23افراد ہلاک ہوئے۔

گزشتہ ماہ اکتوبر میں بھی کرم میں ہونے والی فرقہ وارانہ جھڑپوں میں 3خواتین اور 2بچوں سمیت 16افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے قبل جولائی اور ستمبر میں ہونے والی کشیدگی کے دوران درجنوں ہلاکتوں کے بعد قبائلی جرگے نے جنگ بندی کرائی تھی۔ جولائی سے اکتوبر کے دوران فرقہ وارانہ جھڑپوں کے نتیجے میں 79افراد ہلاک ہوئے تھے۔

کرم کہاں ہے؟

کرم ایک پہاڑی علاقہ ہے، جو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے خیبرپختونخوا صوبہ میں ضم ہونے کے بعد ضلع کا درجہ رکھتا ہے۔ اس ضلع میں تقریباً7لاکھ آبادی رہائش پذیر ہے، جن میں سے 42فیصد سے زائد کا تعلق شیعہ برادری سے ہے۔ یہ ضلع تین اطراف سے افغانستان، جبکہ ایک طرف سے پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا سے منسلک ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل سے قریب تر ہے، جبکہ اس کی سرحدیں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار صوبوں سے بھی ملتی ہیں۔ ان افغان صوبوں کو شیعہ مخالف مسلح گروہوں کی پناہ گاہ تصور کیا جاتا ہے۔

کرم میں شیعہ اور سنی اکثریتی گروہوں کے درمیان فرقہ وارانہ تنازعات کی طویل تاریخ ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران اس علاقے میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا ہے، جس میں ٹی ٹی پی اور دیگر مسلح گروہوں کی طرف سے شیعہ برادری کو نشانہ بنانے کے متواتر حملے ہوتے رہتے ہیں۔

موجودہ تنازع کی جڑیں بھی قبائل کے درمیان طویل عرصہ سے جاری اراضی کے تنازع میں ہی پنہاں ہیں۔ یہ تنازع برطانوی سامراج کے قبضے کے دور سے جاری ہے۔ قبائل کی مذہبی وابستگیوں کی وجہ سے یہ تصادم فرقہ وارانہ صورت میں بھی اپنا اظہار کر رہا ہے۔ تاہم افغان جنگ کے بعد فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل عام میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

خاص کر افغان جنگ میں اکثریتی سنی فرقہ کو سامراجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ریاستی پالیسی نے اس علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات کو بڑھاوا دیا۔ یوں ایک طرف زمین کے تنازع کی وجہ سے جھڑپیں، تصادم، قتل عام موجود ہے، جبکہ دوسری طرف فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسلح تنظیموں کی جانب سے شیعہ اقلیتی فرقے کے افراد پر حملوں کا سلسلہ ہے۔ افغان جنگ میں سنی فرقہ پر مبنی عسکری تنظیموں کے قیام اور بڑے پیمانے پر ان میں اسلحہ کی تقسیم کی وجہ سے اقلیتی شیعہ فرقہ میں عدم تحفظ اور دفاعی ضرورتوں کے تحت کی گئی تیاری بھی اس تصادم انگیزی کو مزید مہلک بناتی جا رہی ہے۔

زمینوں کے تنازعات پرشروع ہونے والی لڑائی خونریز فرقہ وارانہ جھڑپوں کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے بڑے پیمانے پر قتل عام ہو رہا ہے۔

حالیہ جھڑپیں او رریاست کا کردار

میڈیا کے مطابق حالیہ جھڑپیں بھی زمین کے تنازع پر ہی شروع ہوئیں۔ شیعہ اکثریتی قبیلے مالی خیل اور سنی اکثریتی قبیلے مدگی کلے کے درمیان ایک علاقے پر تنازعہ پیدا ہوا۔ یہ زرعی زمین کا ٹکڑا شیعہ قبیلے کی ملکیت تھا، جسے سنی قبیلے کو لیز پر دیا گیا تھا۔ یہ لیز جولائی میں ختم ہونا تھی، لیکن جب وقت پورا ہوا تو زمین واپس کرنے سے انکار کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں لڑائی شروع ہوگئی۔ یہ لڑائی بھی ماضی میں ہونے والی لڑائیوں کی طرح فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر گئی۔

مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ فوجی اور نیم فوجی اہلکاروں کی بھاری تعداد میں موجودگی کے باوجود ابتدا میں اس لڑائی کو روکنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ماضی میں اس طرح کے تنازعات مقامی جرگوں میں جلد از جلد حل کر لیے جاتے تھے۔ تاہم صوبے میں انضمام کے بعد عدالتی نظام اور ضلعی انتظامیہ نے کنٹرول سنبھال لیا۔ عدالتوں میں اس طرح کے مقدمات کا سالوں تک فیصلہ نہیں ہوپاتا اور ضلعی انتظامیہ ان معاملات کو یکسو کرنے میں مکمل ناکام ہے۔ ماضی میں بھی ریاست کی پالیسیوں نے معمولی تنازعات کو خونریز جنگی صورتحال اور فرقہ وارانہ نفرتوں پر منتج کیا ہے۔

اس خطے میں گزشتہ7دہائیوں کے دوران تشدد کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ تاہم سب سے سنگین تصادم 2007میں شروع ہوا، جس میں شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان لڑائی تقریباً چار سال تک جاری رہی۔ کئی دیہاتوں کو آگ لگا دی گئی اور ہزاروں لوگوں کو علاقہ چھوڑ کر ملک کے دوسرے حصوں میں پناہ لینا پڑی۔ اس لڑائی کے دوران 2ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جبکہ 5ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔

تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر زمینوں کے تنازعات والے علاقوں کے علاوہ باقی علاقوں میں شیعہ اور سنی کمیونٹیز کے مابین اچھے تعلقات ہیں اور باہم مل جل کر زندگی گزارتے ہیں۔ افغانستان کے مختلف صوبوں سے عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے البتہ شیعہ افراد پر حملے کیے جاتے رہے ہیں۔ مقامی سطح پر تصادم زمین کے تنازعات پر ہوتا ہے، جو فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر جاتا ہے۔

حالیہ تصادم میں بھی سکیورٹی اداروں اور ریاست کی نااہلی اور لاپرواہی بڑے پیمانے پر نقصان کی موجب بنی ہے۔ یہ ریاست اس قدر ناکام اور نامراد ہو چکی ہے کہ معمولی سے معمولی تنازعے کو بھی حل کرنے کی بجائے مزید بھڑکانے کا موجب ہی بنتی ہے۔ 12اکتوبر کو مسلح تصادم اور طویل دورانیے تک سڑک کی بندش کے بعد جب قافلوں کی صورت گاڑیوں کو گزارنے کی منصوبہ بندی کی گئی تو محض چند پولیس اہلکاروں کو 100سے زائد گاڑیوں کے ساتھ بھیجا گیا۔

اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کے بعد بھی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے کوئی اقدام نہ کیا جانا ریاستی اداروں کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ دوسری جانب صوبائی حکومت اپنی قیادت کی رہائی کے لیے تحریک پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، جبکہ صوبہ میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔

افغان جنگ کے بعد اس خونریزی کے کھیل میں محافظ ہی قاتلوں کا کردار بھی ادا کرتے آئے ہیں۔ جب صورتحال اس نہج پر پہنچ جائے تو پر شہریوں کی حفاظت کا ذمہ انہیں خود ہی لینا پڑتا ہے۔ جب شہری اپنی حفاظت کا ذمہ خود لینے کی کوشش کرتے ہیں تو خونریزی میں مزید اضافہ ہی ہوتا ہے۔ دہشت گردی کی اس جنگ کے ساتھ ایک کاروبار بھی جڑ چکا ہے اور یہ ریاست کے اندر ایک نظریاتی جنگ کی صورت بھی اختیار کر چکی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور ایران کے مابین فرقہ وارانہ تقسیم بھی اس جنگ کا اہم حصہ بنتی جا رہی ہے۔ اس نظام کو اپنی بقاء کے لیے انسانی خون درکار ہے اور یہ خون بڑے پیمانے پر بہایا جا رہا ہے۔ مظلوم کا ظالموں کے نمائندوں کے طور پر آپس میں جنگیں لڑنے کا چلن چھوڑ کر مظلوم اور ظالم کی حقیقی تقسیم کے گرد جنگوں کا اہتمام ہی ان جنگوں کے خاتمے کا موجب بن سکتا ہے۔

Haris Qadeer
+ posts

حارث قدیر کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے راولا کوٹ سے ہے۔  وہ لمبے عرصے سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مسئلہ کشمیر سے جڑے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔