سید عدیل اعجاز
ادب اور بندی خانوں کا تعلق ایک دوسرے سے گہرا رہا ہے۔ بڑے بڑے ادباء نے جیل میں ایامِ اسیری کے دوران قید و بند کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی ا ور وسیع القلبی سے جھیلتے ہوئے لوح قلم کی پرورش کی ہے۔ ان میں پیش آنے والی مشکلات، ذہنی و نفسیاتی کرب، پل پل تنہائی کے ڈستے اژدہوں اور جیل میں قانون کی آڑ میں بے قانونی کا تذکرہ کیا ہے۔ ادبیاتِ عالم میں عقوبت خانے کو جہاں تنہائی کی کوکھ سے نکلتی ہوئی تخلیق کا استعارہ قرار دیا گیا ہے،وہیں اس کی تہہ میں جبر و بربریت کی سنگ باری کا درد ناک ذکر بھی پایا جاتاہے۔ یہ معاشروں میں مطلق کنجِ تنہائی نہیں بلکہ ایسے ٹکسال کی مانند ہیں جہاں حوالاتی اور ملزم کو سلطان المجرم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ سوقیانہ سلوک روارکھا جاتا ہے۔
جیل تو معاشرے کی روح کا زخم ہے۔ یہاں اسیرانِ قفس زخموں سے گرتے نمک کو پلکوں سے چنتے ہیں۔بسا اوقات قیدی مژگاں سے نمک چنتے چنتے، زخم سیتے سیتے اگلے جہاں سدھار جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے، اس مجرم کی حالت کے بارے میں تصور کیجیے جسے اگلی صبح پھانسی دی جانی ہو۔ دار پہ جھول جانے سے قبل وقت کیسے کٹتا ہو گا؟ موت کی تلخی اسے کیسے بے چین کرتی ہو گی؟ مجرم نے کیا کہنا چاہا ہو گا؟ زندگی کا وہ سونا، اس دنیا پہ آخری بار سونا کیسا درد بھرا سونا ہو گا۔ دار پر کھینچنے سے پہلے اس شخص کی چیخ کیا کہتی ہو گی،جسے جلاد ٹھڈا مار خاموش کرواتا ہے اور دار کے تختے کو اس کے پیروں تلے سے سرکا دیتا ہے۔ ادب میں یہ ان کہی باتیں ان کی درد میں لپٹی ہوئی سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں۔
چارلس ڈکنز نے جیل کو محض ایک جسمانی قید نہیں، بلکہ ذہنی کلفت کہا ہے۔ یہ جائے ابتذال ہے۔آسکر وائلڈ کی نظم”دی بالڈ آف ریڈنگ جیل“ ایک ذاتی تجربے پر مبنی تخلیق ہے۔ وائلڈ نے خود جیل میں وقت گزارا تھا۔ بعدازاں، اس نے نظم کے ذریعے قیدیوں کی تکالیف، گناہ اور معافی کے فلسفے کو اپنی تخلیق میں پرویا۔ فرانز کافکا ”دی ٹرائل“ میں جیل کو ایک مابعدالطبیعیاتی اور بیوروکریٹک جبر کی علامت کے طور دکھاتاہے۔ ان عقوبت خانوں کے در و دیوار پر بے بسی اور کرب بسرام کرتے ہیں۔ جو اپنے نوکیلے پنجوں سے دل و جگر کو پل پل زخماتے ہیں۔ گبریئل گارسیا مارکیز نے ”کولونل کو کوئی لکھنے والا نہیں“ میں، جیلوں اور نظربندی کو سیاسی قہر اور امید کا قتل کہا ہے۔ میگوئل آستوریاس ”مسٹر پریذیڈنٹ“میں آمریت اور جیلوں کے خوفناک تعلق پہ روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جیل ایک ایسی جگہ ہے جہاں قیدیوں سے ان کی انسانی حیثیت چھین لی جاتی ہے۔ انہیں سیاسی آلہئ کار بنا دیا جاتا ہے۔ جیل خانے عہدِ آمریت میں درندگی کی حد کو چھونے لگتے ہیں۔ زندگی میں موجود ولولوں کو کوڑے مار مار کر نیست و نابود کرڈالتے ہیں۔ عقوبت خانوں میں زندگی مجروح و مضروب ہو کر رہ جاتی ہے۔ بہر کیف، اسیری کے تلخ ایام کا ذکر دنیا کے کم و بیش ہر ادب میں موجود ہے۔ ادباء نے جہاں ان کا تذکرہ اپنی تخلیقات میں کیا ہے،وہیں سیاسی قیدیوں نے ان تجربات کو اپنی یادداشتوں میں بیان کیا ہے۔ ان یاد داشتوں میں محض سیاسی قیدی کا قلم ہی زندگی کی خزاں کو زبان نہیں دیتا ہے بلکہ جیل کے پتے پتے سے داستانِ غم و الم ٹپکتی ہے۔
انگریزی، لاطینی، روسی، چینی اور افریقی ادب میں جیل کا درد ناک انداز میں نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اردو ادبیات کا دامن بھی اس موضوع سے خالی نہیں ہے۔ انگریزی کی آمد کے ساتھ جہاں اور بہت سے ظلم دیکھنے کے کو ملے،وہیں جبری قید کی سزا بھی ملی۔ جنگِ آزادی کے بعد تو اس خطے میں زندگی جینا دشوار ہو چکا تھا۔ دہلی ایسے رستے بستے شہر کو کھلی جیل بنا دیا گیا جہاں غالب کا دم گھٹنے لگا اور انسانیت سسک کر رہ گئی۔ بعد ازاں، غالب نے اپنے ان احساسات کا ذکر خطوط میں کیا۔ اسی کے ساتھ غالب کے یارِ غار، مولانا فضلِ حق خیر آبادی کا ذکر ضروری ٹھہرتا ہے۔ انھیں جب کالے پانی کی سزا دیتے ہوئے جزائر انڈیمان میں بھیجا گیا تو وہاں کون سا ظلم تھا جو ان اور دوسرے سیاسی قیدیوں کے ساتھ روا نہیں رکھا گیا۔ وہ اپنے ہم نفسوں کو حشرات الارض کی خوراک بنتے، جسم کے پھٹنے، ان میں پلتے کیڑوں کو صبح و شام دیکھتے تھے۔اس دوران فضل حق کو مرنا آسان لگتا۔ زندگی کی رت ان سے روٹھ چکی تھی۔ ان سب کا ذکر فضل حق خیرآبادی نے الثورۃ الہندیہ میں کیا،جس کا ایک ایک لفظ غم کا ابلتا ہوا چشمہ ہے۔ وہاں زندگی، صبح ِسرما کی کرن اور شامِ بہاراں کی مانند نہیں تھی بلکہ جہنم تھی۔
انگریزی استعمار کے ساتھ ساتھ ہندوستان کا قانون بدلا اور سزا کے نت نئے قوانین وجود میں آئے۔ بیسویں صدی میں سیاسی قیدیوں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ اسی دوران مولانا ابوالکلام آزاد، گاندھی اور نہرو نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ ابواکلام نے جیل میں شب فرقت کاٹی اور ان خون آشام ایام کے دوران تذکرہ، غبارِ خاطر اور قولِ فیصل ایسی معرکتہ الآرا کتب تصنیف کیں۔ حسرت موہانی نے چکی کی مشقت کاٹی اور اردو ادب کے دامن میں زنداں نامہ کو ڈالا۔ جب بھی جیل کا نام آتا ہے تو مولانا موہانی چشمِ ویراں میں مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھرتے ہیں۔ ان سی جیل کون کاٹے گا۔ تاہم، آزاد پاکستان میں بھی یہ روایت جاری رہی۔ راولپنڈی سازش کیس اور سیفٹی ایکٹ کے تحت جب ترقی پسند مصنفین کو بے جا حبسِ دوام میں رکھا گیا تو اس دوران فیض احمد فیض کے ہاں شاعری تخلیق ہوئی۔ فیض احمد فیض کی شاعری اس کی بہترین مثال ہے۔ انھوں نے اپنی اسیری کے تجربے کو شعری اظہار کا سنہرا روپ دیا۔ ان کی مشہور نظم ”زندان کی ایک شام“میں قید کی زندگی کی تلخیاں اور امید کی چمک کا حسین امتزاج نمو پاتا ہے۔ حمید اختر نے کالی کوٹھری ایسی کتاب سپردِ قلم کی۔ زندانی ادب پر یہ اب تک سب سے جامع کتاب قرار دی جا سکتی ہے۔ جہاں مصنف نے کم و بیش ایک سال قیدی تنہائی کو کھایا، اوڑھا اور جسم کے رگ و جاں میں سمویا۔حمید اختر کتاب کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں کہ 9مئی کو قید سے رہائی کے بعد میری زندگی قید سے پہلے کی طرح کبھی نہ ہو سکی۔ ان کے ذہن سے مجرموں کی آہیں، ملزموں کی آس، موت سے ایک رات قبل زنداں کی دیواروں کو نوچنا، جاتے جاتے ان دیواروں کے ذریعے دنیا پر اپنے نشان چھوڑنے کی سعی کرنا، غم سے پکے ہوئے سینے سے نغموں کی آوازیں اور پھانسی پر جھول جانے والے مجرموں کی جگر پاش چیخیں، ان کے متعلقین کی گریہ و زاری، جلادوں کا سلوک، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کی سختی، بے راہ روی، ڈاکٹروں کی کرپشن، ملزموں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک، ان کو دی جانے والی گندی خوراک، کھلے عام سانس لینے پر پابندی، قانون کی آڑ میں سخت ترین بے قانونی اور بہت کچھ جو ان کے لاشعور سے نہ نکل سکا۔ اسی کے مصداق، افتخار گیلانی کی کتاب، تہاڑ میں میرے شب و زور بھی انھیں واردات سے مملو ہے۔
ادب کے ساتھ ساتھ، صحافتی دنیا میں بھی ایسے رجلِ رشید موجود ہیں جن پر یہ شامِ غم گزر چکی ہے، جو یہ الم ناک سفر طے کر چکے ہیں، جس کے ذکر پر آج بھی درد کی ٹیسیں ان کے موئے بدن سے نکلتی ہیں۔ دور کیوں جائیے، حسین نقی، الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمان شامی اور متعدد سینئر صحافی موجود ہیں جن پر یہ قیامت گزر ی تھی۔ ہمارے درمیان سیاسی قیدی بھی موجود ہیں جو اس دشوار گزار منزل کو طے کر چکے ہیں۔ ہمارے ان اکابرین، جو سرد و گرم چشیدہ ہیں، پاکستان کی جہنم زار جیلوں میں محبوس رہ چکے ہیں ان کے تجربات کو کبھی کام میں لانے کی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی اس ضمن میں کسی طرح کی اصلاحات کا خاکہ کھنچوایا گیا ہے۔
تاہم، جب خدیجہ شاہ اور احد چیمہ کا جیل ریفارمز کی کمیٹی میں ذکر سنا تو بہت حیرت محسوس ہوئی۔ حیرت کے اسی عالم میں جیلوں، بندی خانوں کی کہانیاں نظروں کے سامنے ابھر کر رہ گئیں۔ احد چیمہ کون سے سیاسی قیدی تھے؟ وہ تو پھولوں کی سیج پر براجمان تھے۔ان کی جیل کا زیادہ عرصہ تو سروسز ہسپتال کے وی۔آئی۔پی وارڈ میں گزرا۔ اسی دوران چودھری شجاعت حسین بھی ان کے ساتھ والے کمرے میں زیر ِ علاج تھے۔ جس کمرے میں احد چیمہ موجود تھے وہ کمرا کم اور گھر زیادہ محسوس ہوتا تھا۔ ہر طرف پھلوں اور پھولوں کی بہتا ت تھی۔ ہر دن عید کا دن تھا۔
خدیجہ کی قید بھی پھولوں کی سیج کی مانند تھی۔ یقینا ان کے کان خاتون جیلر کی دھمکی آمیز لہجے سے ناآشنا رہ ہے ہوں گے، بلکہ ان کے بندی خانے کے آگے تو ہاتھی جھولتے ہوں گے، سلام پیش کرتے ہوں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے ان اصحاب کا جیل کی اصلاحات کی کمیٹی میں ہونا بہت معیوب محسوس ہو رہا ہے۔ ویسے بھی یہ سیاسی قیدی تھے۔ ان کے روز و شب کسی عام، سی۔کلاس کے قیدی سے یک سر مختلف تھے۔ کیا ہی خوب ہوتا اگر آں جناب کسی مستحق شخص کو اس کمیٹی میں شامل کرتے۔ جن پر یہ ستم گزر چکا ہے۔ ادب میں ان کتب کا مطالعہ کیا جاتا جن میں اس دور کے آلام کے بارے میں ذکر ہے۔ آج کے دور میں ہلکی سی سختی برداشت کرنے کے بعد بہت سے ثمرات سمیٹنا لوگوں کا وطیرہ بنتا جا رہا ہے۔ اصلاحات تو وہی کروا سکتا ہے جو عام قیدیوں کی طرح رہ چکا ہو، سی کلاس دیکھ چکا ہو، پولیس کے رویوں کو سہ چکا ہو۔ وگرنہ کیا یہ کافی نہیں کہ ہر روز، لاہور میں فیروز پور روڈ پر، سینٹرل جیل کے سامنے ملاقاتیوں کی لمبی قطار، جیل میں مقید اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے لگی ہوتی ہے۔ یہ ملاقاتی بسا اوقات وہیں باہر، لبِ سڑک رات گزارتے ہیں اور اگلے روز مل کر واپس جاتے ہیں۔ سینٹرل جیل کے سامنے لمبی قطاریں تو روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سواری یہاں سے گزرے یا کسی عام جیل خانے میں ورودِ مسعود کرے تو جان پائیں کہ پاکستان میں جیلیں دوزخ کا منظر پیش کرتی ہیں۔ ضلع اور تحصیل کی سطح پر ان کی قہرمانیت اور فرعونیت سے اٹھنے والی پکاریں کب صاحبانِ جبہ و دستار کے کانوں تک آنے دی جاتی ہوں گی، وہاں کا نظام تو انتہائی تعفن زدہ ہے۔ غنڈہ گردی عام ہے۔
دسمبر 2006 کے اخبارات میں حوالاتی عبدالرزاق کی کہانی اب تک موجود ہے کہ کیسے وہاڑی کے اس رہائشی ملزم کو تین سال تک جیل میں محبوس رکھا گیا اور احتجاج کرنے پر اس کے لبوں کو سی دیا گیا تھا۔ کیا ایک انسان اس سلوک کا مستحق ہے؟ کسی کے تن کو اس طرح مجروح کرنا ظلم نہیں ہے؟ یہ صریح درندگی نہیں تو کیا تھی؟ پاکستانی جیلوں میں نہ جانے کتنے عبدالرزاق اب تک سٹر رہے ہیں۔ آج عبدالرزاق کہاں ہیں، کچھ معلوم نہیں۔ جیل اصلاحات کے دوران ایسے لوگوں کی آواز کو شامل کیا جانا ضروری ٹھہرتا ہے۔ حمید اختر زندہ ہوتے تو اس سلسلے میں ضرور مددگار ٹھہرتے۔ خیر، انھوں نے سن 2006 میں جیل اصلاحات کی طرف اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی نظر مبذول کرانے کی کوشش کی، براہ راست قیدیوں کے خطوط کو اخبار میں چھاپ کر ان کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی مگر پھر وہی ڈھاک تین پات۔
یہ درست ہے کہ جیلوں کی اصلاحات وقت کا تقاضا ہے۔ ان کا کیا جانا ضروری ہے، مگر اس کے لیے ٹھوس کام کیا جانا چاہیے،تا کہ اس کے ثمرات سے عام قیدی لطف اندوز ہو سکیں۔ ادب معاشرے کی سچائی کو بیان کرتا ہے۔ عام لوگوں کے احساسات کو الفاظ دیتا ہے۔ ان کے آلام کو دنیا کے سامنے لاتا ہے۔ زندانی ادب پڑھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ غرباء کے غم آفاقی ہیں۔ یہ غم عام طبقات کی آواز کو قومی دھارے میں شامل کر کے ہی کم کیا جا سکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس معاملے پر از سرِ نو غور فرمائیں گے۔ معتبر اور گرگِ بارہ دیدہ افراد کو اس کمیٹی میں شامل کرنے کو ترجیح دیں گے۔ بالخصوص قیدیوں سے گفتگو کر کے ان کی گزارشات کی روشنی میں اصلاحات دینے کے عمل کو یقینی بنائیں گے۔ انگریزی استعمار کے عہد کے قوانین کو ادھیڑا جائے گا اور ایسے قوانین مرتب کیے جائیں گے جن کے تحت قیدیوں اور حوالاتیوں کو انسان کا درجہ مل سکے۔ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق سہولیات فراہم کرنے کے قواعد پر مشتمل اقوام متحدہ کی ہینڈ بک موجود ہے۔ جن ضروری سہولتوں کو عالمی ادارے نے لازم قرار دیا ہے ان پر پابندی کا پاکستانی جیلوں میں بھی اطلاق ہونا چاہیے۔ ہماری حکومتیں اور انتظامیہ ایسے معاہدات پر دستخط کر کے ان پر عمل کرنے کی پابند ہیں، لیکن یہاں اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔