فیض احمد فیض
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحن زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں محو ہیں بنانے میں
دامن آسماں پہ نقش و نگار
شانہئ بام پر دمکتا ہے
مہرباں چاندنی کا دست جمیل
خاک میں گھل گئی ہے آب نجوم
نور میں گھل گیا ہے عرش کا نیل
سبز گوشوں میں نیلگوں سائے
لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں
موج درد فراق یار آئے
دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گل کریں تو ہم جانیں