رومیلا تھاپر
یہ فیصلہ ایک سیاسی فیصلہ ہے جو ریاست کئی سال پہلے بھی لے سکتی تھی۔ فیصلے کا مرکزی نقطہ زمین کی ملکیت اور اس پر گرائی گئی مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر ہے۔
گو مسئلہ عہد ِحاضر کی سیاست میں الجھا ہو اتھا اور اس نے مذہبی رنگ بھی اختیار کر لیا تھا مگر جو دعویٰ کیا گیا اس کی بنیاد تاریخی حوالہ جات کو بنایا گیا۔
عدالت کا کہنا ہے: ایک خاص جگہ پر ایک الہامی یا نیم الہامی ہستی نے جنم لیا اور وہاں اب ایک مندر بنے گاتا کہ جنم بھومی کا تقدس بحال ہو سکے۔ عدالتی دعوے کے حق میں کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں اس لئے یہ ایک ایسا عدالتی فیصلہ ہے جس کی عدالت سے توقع نہیں تھی۔
ہندو رام کو دیوتا مانتے ہیں مگر کیا اس بنیاد پر کسی بھی جگہ کو رام کی جنم بھومی قرار دے کر زمین کی ملکیت کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے یا ایک تاریخی عمارت کو مسمار کر کے وہ جگہ کسی اور کے حوالے کی جا سکتی ہے؟
فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ بارہ سو قبل مسیح میں اس جگہ ایک مندر تھا جہاں اب بابری مسجد ہے لہذٰا اب بابری مسجد کی جگہ مندر بن سکتا ہے۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کی کھدائی کے نتیجے میں پیش کئے گئے نتائج کو من و عن تسلیم کر لیا گیا ہے حالانکہ دیگر بہت سارے ماہرین ِ آثارِ قدیمہ اور تاریخ دان اے ایس آئی کے دعوؤں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ یہ معاملہ چونکہ مختلف الخیال تاریخ دانوں اور آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے ہونا چاہئے تھا لہٰذاصرف ایک رائے کو، بغیر کسی حیل و حجت کے مان کر، فیصلہ دینے کا مطلب ہے کہ اس فیصلے پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔
ایک جج نے تو یہ بھی کہا کہ وہ تاریخ دان نہیں اور اس مقدمے کا فیصلہ سنانے کے لئے تاریخ اور آرکیالوجی (آثار ِ قدیمہ) کا ماہر ہونا ضروری نہیں تھا!
بات مگر یہ ہے کہ اس مقدمے کی بنیاد ہی تاریخی نوعیت کے ایسے دعوے تھے جو ہزار سالہ پرانی تاریخ کی بنیاد پر کئے گئے تھے۔
ایک مسجد پانچ سو سال پہلے بنائی گئی تھی۔ یہ مسجد ہمارا ثقافتی ورثہ تھی۔ یہ مسجد ایک سیاسی قیادت کے کہنے پر ایک ہجوم نے زبردستی گرا دی۔ عدالتی فیصلے کی سمری میں کہیں نہیں لکھا کہ مسجد کی تباہی اور ثقافتی ورثے کے خلاف جرم کی مذمت ہونی چاہئے۔ نیا مندر بابری مسجد کے گنبدوں والی جگہ پر بنایا جائے گا جہاں رام کی مجوزہ جنم بھومی ہے۔ مندر کی جگہ مسجد بنانے کی مذمت تو کی گئی ہے اور اسی بنیاد پر نیا مندر بنانے کا جواز گھڑا گیا ہے مگر مسجد گرائے جانے پر کوئی حرف ملامت نہیں لکھا گیا بلکہ اس مسئلے کو مقدمے کا حصہ ہی نہیں بنایا گیا۔
اس فیصلے نے یہ عدالتی مثال قائم کر دی ہے کہ زمین کی ملکیت کا اس بنیاد پر دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کسی ایسی الہامی یا نیم الہامی ہستی کا جنم استھان ہے جسے ایک گروہ مقدس مانتا ہے۔ اب ہو گا یہ کہ ایسے کئی جنم استھان سامنے آئیں گے جو کسی ایسی جائیداد پر دریافت ہوں گے جس پر کسی کی نظر ہو گی۔
عدالت نے چونکہ ثقافتی ورثے کی سوچی سمجھی تباہی کی مذمت نہیں کی تو آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ ہم دیکھ رہے ہیں کہ 1993ء والا عدالتی حکم جس کے مطابق عبادت گاہوں کا سٹیٹس بدلا نہیں جا سکتا، گذشتہ کچھ سالوں سے مذاق بن کر رہ گیا ہے۔
تاریخ میں جو ہوا سو ہوا۔ اسے بدلا نہیں جا سکتا۔ مگرہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ تاریخی واقعات کے سیاق و سباق سمجھ سکیں اور تاریخی واقعات کو قابلِ اعتبار تاریخی ثبوت کی مدد سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ عہدِ حاضر کی سیاست کو جائز بنانے کے لئے ہم ماضی کو نہیں بدل سکتے۔ اس عدالتی حکم نے تاریخ کو بے توقیر کر کے دھرم کو تاریخ کا متبادل بنا دیا ہے۔
حقیقی مفاہمت تب ہی ممکن ہے جب لوگوں کو یہ اعتماد ہو کہ قانون ثبوت کے پیشِ نظر فیصلے کر رہا ہے نہ کہ عقیدے اور دھرم کی بنیاد پر۔