فوزیہ ا فضل خان
ترجمہ: قیصرعباس
کچھ ایسا ہے!
کہ اسی شہر لاہور میں
جہاں میں نے جنم لیا تھا
کلمہ چوک اور
فیروزپور روڈ کے قریب
شرکت گاہ کے پار
میں انگلیوں پرلپیٹتے ہوئے
اپنے بال ایک ایک کرکے
نوچتی جارہی ہوں!
صوفیانہ موسیقی کی اسی دھن پر
جسے ممنوع قراردے دیاگیا ہے
رقص کرتی لڑکی کو
عورت کی حرمت کے ٹھیکیدار
خانقاہ سے گھسیٹ کر
اپنی خواب گاہوں میں
اس کے نہ کردہ گناہوں کی سزادیتے رہے
جو پھولتا ہوا پیٹ
اور زخم خوردہ جسم کے ساتھ اب بھی
سلاخوں کے پیچھے سزا کاٹ رہی ہے!
اسی مملکت خداداد میں
جہاں صرف مقدس پیروں
اور بڑی بڑی مونچھوں پر تاؤ دیتے
نگہبانوں کوہی
شراب پی کر رقص کرنے کی اجازت ہے!
اور میں
بیس سالوں بعد پھر وہیں
اپنے ہی شہر میں، اپنی جنم بھومی میں
عورت اور ترقی کے موضوع پر اسی سیمینارمیں
اسی حرافہ عورت کا
پرانا کردارنبھارہی ہوں!
کچھ ایسا ہے
کہ لا ہور کچھ بدلانہیں ہے
وہی جانے پہچانے چہرے ہیں ہال میں
جو سفید بالوں کے ساتھ کچھ بوڑھے ہوچکے ہیں
انسانی حقوق، اپنے حقوق،
بیٹیوں کے حقوق
غریبوں کے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق
کے لئے ابھی تک چیخ رہے ہیں!
مملکت خداداد اب بھی
آئی ایم ایف اور
ورلڈبینک کے
قرضوں پرزندہ ہے!
ایک اور مردِ آہن نے
بیس سال پہلے کے
مردِ آہن کی جگہ لے لی ہے
جو اب بھی عقیدے کے
مقدس رکھوالوں کے
حصارمیں ہے!
خدا ہمارے آمروں پر
دنیاکی سب سے عظیم، سیکولر جمہوریت کا سایہ
ہمیشہ قائم رکھے!
عورت اور ترقی کے موضوع پر
سیمینارہوتے رہیں تو بہترہے
اور میں اپنے دیس آتی رہوں تو اچھا ہے
کہ میں لڑکپن کی ملنگی
دیوانی لڑکی کو زندہ رکھ سکوں!
بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتی ہوئی
ایک اداکارہ کے لئے تو
شایدیہی کافی ہے!