امیش حسن عسکری
جب سے لاہور میں طلبہ کی طرف سے فیض میلے پر کی جانے والی نعرے بازی کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے تب سے یہ بحث چل نکلی ہے کہ کون سا نظام بہتر ہے اور کیا جس نظام کے حق میں نعرے لگائے جا رہے ہیں وہ قابلِ عمل بھی ہے کہ نہیں۔ اِس بحث میں نہیں پڑتے کہ کمیونزم، سوشلزم یا بائیں بازو کی سیاست میں فرق کیا ہے اور ان کی عملی شکلیں ایک دوسرے سے کس حد تک مختلف ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں۔ یہاں صرف یہ جاننے کی کوشش کرنی ہے کہ اس متبادل نظامِ سیاست کے خلاف لبرلز یا مذہب پسندوں کا مقدمہ کیا ہے۔
چند موٹی موٹی دلیلوں کو ہی دیکھ لیتے ہیں۔
پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ سوشلزم آج سے تیس سال پہلے سوویت یونین کے بکھرنے کے ساتھ متروک ہو گیا تھا۔ اب اِس کی گنجائش نہیں ہے۔
عالی وقار۔ آج سے تیس سال پہلے سٹالنزم مرا تھا، سوشلزم نہیں۔ اگر سوشلزم مر گیا ہوتا تو امریکی سامراج کو لاطینی امریکہ میں آج بھی سوشلسٹ تحریکوں کے خلاف مصنوعی انقلابوں کی مالی اور فوجی حمایت میں ہلکان کیوں ہونا پڑتا؟
اچھا ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ سوشلزم واقعی مر گیا تھا۔ لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا اب استحصالی سرمایہ داری ہی ہمارا مقدر ٹھہرا دی گئی ہے؟ کیا جنگیں، بھوک، سماجی ناہمواری، مذہبی شدت پسندی اور نفرت انگیز سیاست کو چْپ چاپ سہتے جائیں؟
کیا یہ طے ہے کہ ہم سب گرم بستروں میں بیٹھ کراپنی فیس بْک ٹائم لائن پہ ان سارے مسائل کا رونا روئیں اور سرِ بازار اپنے مشترکہ درد کا ماتم بھی نہ کریں؟
متبادل مر گیا تو کیا ایک نئے متبادل کے بارے میں سوچنا اور اس کے لیے اِکٹھ کرنا بھی گناہ ہے؟
دوسری دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ یہ سرخ ایشیا کے نعرے لگانے والے لاہور کی اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اپنے مخالف نظریات کو باطل ثابت کرنے کی اِس سے بیہودہ مثال اور نہیں ہو سکتی۔
جنابِ عالی آنکھیں کھولیں۔ یہ ایلیٹ کے بچے نہیں ہیں۔ یہ پاکستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نوجوان ہیں۔ ان میں سے اکثر گورنمنٹ کالج اور پنجاب یونیورسٹی کے ادب، سیاسیات اور سماجی علوم کے طلبہ ہیں۔ یہ ٹھیلوں سے نان چنے کھاتے ہیں اور انارکلی سے کپڑے لیتے ہیں۔ اِن میں پاکستان کے چھوٹے علاقوں سے آنکھوں میں بڑے خواب سجا کر شہروں کا رخ کرنے والے بچے ہیں جو شہر کی بیگانگی اور تنہائی سے اْکتا کر ایک نئی سیاسی شناخت کی تلاش میں نکلے ہیں۔
ایک دلیل جو ہمارے ملک میں کبھی بھی، کہیں بھی کسی کے بھی خلاف کام آ جاتی ہے وہ ہے ”بیرونی ہاتھ“۔ یعنی جو کوئی اس نظام کے بنیادی ڈھانچوں میں توڑ پھوڑ کی بات کر ے اس پر کسی بھی ملک کی ایجنسی کا لیبل چپکا دوکہ فلاں ملک کی فنڈنگ ہے۔ فلاں ایجنسی کی مداخلت ہے۔ اس کاروبار میں مذہبی ٹھیکیدار اور سند یافتہ محبانِ وطن پیش پیش رہتے ہیں۔ جناب وزیرِاعظم کے سابق مرشد، ہارون الرشید صاحب ایک ٹی وی چینل پر بیٹھ کر یہ بتا رہے تھے کہ یہ سارا مارچ این جی اوز نے کروایا ہے۔
انسانی سماج نت نئی تبدیلیوں سے عبارت ہے۔ دانشور وہ ہوتا ہے جس کا ہاتھ ان تبدیلیوں کی نبض پہ ہو۔ یہ وہ دانشور ہیں جنھیں ان طلبہ کی سوچ کی سمجھ ہی نہیں آ رہی۔ اس لیے انھوں نے برسوں پرانا اور آزمودہ نْسخہ استعمال کیا ہے۔ مثلاً انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ طلبہ روایتی سیاست سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ انھیں اس نظام میں اپنا حصہ چاہیے۔ یہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کے آلہ کار نہیں ہیں۔ یہ وہ نسل ہے جس نے پاکستان میں بسنے والی چھوٹی قومیتوں اور صنفوں کے خلاف جبر کو محسوس کیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے ہم جماعت بلوچ، پشتون اور گلگتی طلبہ سے ان کے علاقوں کے حالات سن رکھے ہیں۔
یہ کیسے دانشور ہیں جنھیں یہ نا انصافیاں اور ریاستی نا ہمواریاں نظر نہیں آتیں لیکن بیرونی ہاتھ نظر آ جاتا ہے۔
بائیں بازو کی سیاست کے خلاف سب سے موثر ہتھیار یہ رہا ہے کہ اسے ایک ثقافتی جنگ کے طور پر پیش کیا جائے۔ کلاسیکی مارکسی نظریہ چونکہ تمام مروجہ اخلاقیات کو پیداواری ذرائع سے جوڑتاہے اس لیے کئی ”اشتراکیت پسند“لوگ سماج کی رائج اخلاقی اقدار سے انحراف بھی کر جاتے تھے لیکن یہ بات آج کے لیفٹ کے بارے میں نہیں کی جا سکتی۔ مغرب میں مسلمان اقلیتوں کے حقوق کے لیے آوازیں بھی بائیں بازو کی طرف سے اٹھ رہی ہیں۔ برطانیہ میں جیریمی کوربن لبرل سرمایہ داری اور اسلاموفوبیا کے خلاف موثر ترین آواز ہیں۔ اسی طرح کرائسٹ چرچ حملوں کے بعد مسلمان دوستی کی وجہ سے شہرت پانے والی نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈہ آرڈرن بھی بائیں بازو کی سیاستدان ہیں۔ اگر کوئی ایک چیز ہے جو اس مارچ کو عالمی لیفٹ سے جوڑتی ہے تو وہ ہے اکثریت کے جبر سے ٹکراؤاور جو الزام وہاں کے انتہائی دائیں بازو کے گروہ جیریمی کاربن جیسے سیاستدانوں کا رستہ روکنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں بالکل وہی الزام یہاں کے لبرل اور مذہبی طبقات بائیں بازو کی سیاست کے بارے میں کر رہے ہیں۔
معاشرے کے رائج اخلاقی پیمانوں سے بیزاری کا طعنہ آج کے ان نوجوان لڑکے لڑکیوں کو نہیں دیا جا سکے گا۔ اسی طرے مارچ کے اندر موجود کئی طلبہ مذہب کی کسی بھی تشریح کے اعتبار سے مذہبی بھی ہیں۔ سو چند ایک انفرادی مثالوں کے علاوہ بحیثیت مجموعی مارچ کے شرکا اور قائدین کو مذہب اور رائج اخلاقی قدروں سے منحرف کہہ کر جان چْھڑا لینے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ کم سے کم اب کی بار تو نہیں چلے گا۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ نظریہ کبھی نہیں مرتا۔ بائیں بازو کا نظریہ‘ پاکستان میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ لوگ ادھر ادھراپنی اپنی حیثیت میں ان نظریات کا اظہار تو کرتے رہتے تھے لیکن ایک منظم تحریک کی صورت میں کبھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا شاید یہی وجہ ہے کہ طلبہ مارچ کو اس جانب پہلا قدم سمجھا جا رہا ہے۔
اس سارے عمل کا پاکستان کی نظریاتی سیاست پر ایک گہرا اثر پڑا ہے اور وہ یہ کہ اب لوگ لبرل اور سوشلسٹ کا فرق پوچھنے لگے ہیں کیونکہ ان طلبہ پر تنقید محض روایتی مذہبی حلقوں سے نہیں بلکہ لبرل سرمایہ داری کے حامیوں سے بھی آ رہی ہے۔ ورنہ یہاں تو صورتحال یہ تھی کہ ہر جینز پہن کر انگریزی کے چار لفظ بول لینے والی لڑکی کو یار لوگ کہہ دیتے تھے: او کْڑی بڑی لبرل اے۔