فاروق طارق
(کنوینر لاہور لیفٹ فرنٹ)
لاہور میں 29 نومبرکو طلبہ کے تاریخی جلوس کی بازگشت اب پورے پاکستان میں سنی جا سکتی ہے۔ اس جلوس نے بائیں بازو کو ایک نئی تقویت دی ہے۔ دایاں بازو اس کے جواب میں کافی بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس طرح بائیں بازو کے بڑھتے قدم کو روکیں۔ ماضی میں وہ ہمیشہ فاشسٹ ہتھکنڈوں سے اس قسم کے ابھار کو روکنے کی کوشش کرتے تھے مگر اب یہ تحریک اتنے جاندار طریقے سے ابھری ہے کہ اسے مار پیٹ اور غنڈہ گردی سے روکا نہیں جا سکتا۔
اس کا ایک مظاہرہ تو اس وقت ہوا جب عالمگیر وزیر کو نیو کیمپس سے اٹھایا گیا تو معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کہاں ہے۔ مگر تین روز طلبہ کے مسلسل مظاہروں نے ریاست کو مجبور کر دیا کہ وہ اسے پیش کر کے اس کے خلاف مقدمہ درج کرے۔
لاہور میں 29 نومبر کو بائیں بازو کی نئی تاریخ رقم ہوئی۔ چالیس سال کے بعد سوشلسٹوں اور انقلابیوں کا اتنا بڑا مارچ ہوا۔ جوش و خروش دیدنی تھا۔
اس مارچ کی سب سے اہم کامیابی یہ ہے کہ اس نے ”لال“ کو مین سٹریم بنا دیا ہے۔ ”لال“ اب کمرشل میڈیاکے لئے بھی ریٹنگ بڑھانے میں رول ادا کر رہا ہے۔
تمام بایاں بازو متحد تھا اور یہ اچانک نہیں ہوا تھا۔ اس مارچ کو کامیاب بنانے کے لئے ہم طلبہ اور مزدوروں نے دن رات کمپیئن کی تھی۔ گاڑیوں پر ہر کیمپس میں اعلانات ہوئے، پوسٹرز لگائے گئے۔ مگر اسے سب سے زیادہ اہمیت اس وقت ملی جب فیض انٹرنیشنل فیسٹیول میں نوجوانوں کے لگائے نعرے سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے۔
ہم کافی دیر سے بائیں بازو کی مشترکہ کوششوں میں مصروف تھے۔ بائیں بازو کی تحریک کی تعمیر اولین ترجیح بنی۔ یہ ہمارے موقف کی جیت تھی۔ ہم کہتے تھے کہ بائیں بازو کی پارٹیاں اور گروپ تب تعمیر ہوں گے جب بائیں بازو کی تحریک موجود ہو گی اور تحریک کی تعمیر کے لئے ایشوز پر کمپیئن کرنا ہو گی۔
ہم نے نوجوانوں کی قیادت میں لاہور کو ایک نیا انقلابی رخ دیا ہے۔ یہ ہماری دہائیوں کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ تھا۔
ہمارے ساتھیوں کی جانب سے پچھلے چند سالوں میں لاہور میں بائیں بازو کی تعمیر کے لئے مسلسل سرگرمیاں جاری رکھی گئی ہیں۔ فیض امن میلہ، جالب عوامی میلہ، ایجوکیشن تحریک، طلبہ یونینز کی بحالی، واٹر کمپیئن، کم از کم تنخواہ پر عمل درآمد، کلائمیٹ چینج تحریک، عورت مارچ، اقلیتی حقوق کے حصول کی جدوجہد، مسنگ پرسنز کی بازیابی تحریک، قومی استحصال کے خلاف لاہور سے آواز بلند کرنا، لاہور لیفٹ فرنٹ کی تشکیل و تعمیر جیسے واقعات نے لاہور میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ہم ہمیشہ کہتے رہے اور کہیں گے کہ تحریک کی تعمیر صرف اس وجہ سے نہ کی جائے کہ آپ کی پارٹی یا گروپ کو اس سے کیا ملے گا۔ اگر تحریک تعمیر ہو گی تو پارٹی یا گروپ بھی تعمیر ہو جائے گا۔
’طلبہ مزدور یکجہتی مارچ‘ کے گیارہ اہم اسباق
لاہور میں بائیں بازو کی موجودہ اٹھان سے کچھ سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلا سبق یہ ہے کہ کسی ایک ایشو پر بائیں بازو کو متحد ہو کر کمپیئن کے ذریعے عوامی سرگرمیوں کو منظم کرنا ہو گا۔ اور یہ کسی ایک گروپ کی تعمیر کے لئے نہیں بلکہ بائیں بازو کے عوامی سطح پر عمومی انقلابی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لئے ہونا چاہیے۔ اس کے لئے روایتی طریقوں کی بجائے پراپیگنڈا کے نئے پرجوش طریقوں کو اپنانا ہو گا۔ یہ روایتوں سے ہٹ کر انقلابی نعرے تھے جو مقبول ہوئے اور ان میں نوجوانوں کے جوش نے مزید چاشنی پیدا کر دی۔
دوسرا سبق یہ ہے کہ نوجوان ہی اب بائیں بازو کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 60ء، 70ء اور80 ء کی دہائی کے سینئر کامریڈز ان کی مدد کریں اور ان کو ہدایات نہ دیں۔ ان کے ساتھ چلیں۔ ان کو حوصلہ دیں مگر ان کو اپنے گروپ کی تعمیر کے لئے تقسیم نہ کریں۔
تیسرا سبق یہ ہے کہ جو پبلک سرگرمی طے کریں اس کی پوری تیاری کریں۔ عوامی سطح پر کمپیئن کے لئے مالی وسائل اکٹھے کریں۔ یہ ہفتوں کی بہت بڑی مہم کے بعد ممکن ہوا کہ لاہور میں ’کلائمیٹ چینج مارچ‘ اور’طلبہ مزدور یکجہتی مارچ‘ کامیاب ہوئے۔
چوتھا سبق یہ ہے کہ لیفٹ کی گروہی سیاست سے دور رہا جائے۔ جو صرف اپنے گروپ یا پارٹی کو ہی مقدم سمجھتے ہیں وہ متحدہ مہم کو سبوتاژہی کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں۔ یہ کامیابی تھی کہ لاہور میں اس مارچ کو کامیاب کرنے کے لئے لیفٹ کے تمام گروپ دل و جان سے اکٹھے تھے۔ سازشی عناصر اس کا حصہ ہی نہ بنے۔ اس اتحاد میں طلبہ کی سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی نے اہم ترین کردار ادا کیا۔
پانچواں سبق یہ ہے ان ایشوز پر مہم چلائی جائے جس پر اتفاق کرنا آسان ہو اور اس پر فوکس کیا جائے۔ طلبہ یونینز کی بحالی ایک ایسا ہی ایشو تھا کہ اس پر لیفٹ کا عمومی اتفاق تھا۔
چھٹا سبق یہ ہے کہ بائیں بازو کے موجودہ دائروں سے باہر رابطے کیے جائیں۔ نئی پرتوں کو چھیڑا جائے کیونکہ ایک براڈ بیس اتفاق اور اتحاد اس مارچ کی کامیابی کا بڑا عنصر تھا۔
ساتواں سبق یہ ہے کہ یہ کوئی ایک دفعہ کا ایونٹ نہ ہو بلکہ اسے تسلسل کے ساتھ سرگرمیوں کے ایک حصے کے طور پر منظم کیا جائے۔ اب ضروری ہے کہ اگلے چند ماہ کے دوران ایک اور بھرپور عوامی سطح کی سرگرمی منظم کی جائے۔
آٹھوں سبق یہ ہے کہ ہمارا طبقاتی رنگ ہر سرگرمی میں نہایت نمایاں ہو۔ اس مارچ میں لال ہمارا نشان تھا۔ اب دایاں بازوایک نظریاتی بحث میں ہمارے ساتھ الجھا ہوا ہے۔ جو ہم سب کے لئے ایک انتہائی اہم موقع ہے کہ ہم اپنے مارکسی نظریات کو سرمایہ دارانہ نظرئیے پر حاوی ثابت کریں۔
نواں سبق یہ ہے کہ سوشلسٹ نعرے بازی کو نئے عوامی طریقوں سے عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔ اور اسے ہماری محنت کش ثقافتی روایات سے منسلک کر دیا جائے۔ ڈھول کی تھاپ پر نعرے بازی اور تھیٹر پرفارمنس نے اس طلبہ مارچ کو منفرد انداز میں پیش کیا۔
دسواں سبق یہ ہے کہ ہم سب کو نوجوانوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان طالب علم اور اساتذہ نے جس منظم انداز میں اس سرگرمی کو اپنے
نئے انداز میں عوام کے سامنے پیش کیا وہ کمال تھا۔
گیارواں (مگر آخری نہیں) یہ سبق ہے کہ پرجوش اور انقلابی شعور سے لیس عورتوں کی شمولیت کسی بھی پبلک سرگرمی کی کامیابی کی گارنٹی ہے۔ عورتوں کی بھرپور شمولیت نے اس مارچ کو لازوال بنا دیا۔