فاروق طارق
نیا سال عمران خان کے لئے نئی مشکلات لے کر سامنے آئے گا۔ 2020ء تحریک انصاف کا سال نہیں ہو گا بلکہ یہ جلسے جلوسوں، مظاہروں اور تحریکوں کا سال ہو گا۔ عوام مہنگائی کے خلاف بڑے پیمانے پر باہر نکلیں گے۔ یہ نئی ترقی پسند سیاسی قوتوں کے ظہور کا سال ہو گا۔
حکومتی معاشی پالیسیاں اس بات کو یقینی بنائیں گی کہ مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔ سال کا آغاز بھی اسی سے ہواہے۔ دالیں ایک روز میں چالیس روپے فی کلو مہنگی ہو گئی ہیں۔ ایل پی جی کی قیمتوں میں یک دم 23 روپے فی کلو کا اضافہ کیا گیاہے اور اس کی قیمت 151 روپے فی کلو کی غیر معمولی بلند قیمت تک پہنچ گئی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ہر ماہ کی طرح اس دفعہ بھی ڈیڑھ روپے فی یونٹ تک اضافہ کیا گیا، پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں بھی ڈھائی سے ساڑھے تین روپے فی لیٹر اضافہ ہوا۔
یہ ابھی آغاز ہے، یہ نئے سال کو نیو لبرل ایجنڈے کی پہلی سلامی ہے۔ حکومت کا یہ پراپیگنڈا جو سال کے آغاز میں بڑے زور و شور سے کیا جا رہاہے کہ کچھ انتظار کریں معیشت درست سمت میں چل رہی ہے، قیمتیں کم ہوں گی اور معیشت مستحکم ہو گی سراسر غلط ثابت ہو گا۔ معیشت مستحکم تو کیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بحران کا شکار ہو گی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ آئی ایم ایف کے معاشی فارمولے عوام مخالف ہیں اور یہ صرف طبقاتی بنیادوں پر سرمایہ دار طبقات کو ہی فائدے پہنچائیں گے۔
معیشت کے خسارے کا کم ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ عوام پر معاشی بوجھ اتنا ڈال دیا گیا ہے کہ خسارہ کچھ کم ہوا ہے لیکن یہ مستقل بنیادوں پر نہیں ہو ا۔ اس خسارے کو کم کرنے کے لئے سرمایہ داروں کواس میں شامل نہیں کیا گیا اور ساتھ ہی بڑے تاجروں کو بھی ان کی صف میں ابتدائی ہچکچاہٹ کے بعد شامل کر دیا گیا ہے۔
معیشت ریگولیٹ کرنے کی تمام ابتدائی کوششیں آہستہ آہستہ واپس لی جا رہی ہیں کیونکہ تاجروں کی چند ملک گیر ہڑتالوں نے ان کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے ہیں۔
عمران خان کی بڑھتی عدم مقبولیت نے اداروں کے اندر تصادم کی فضا بھی قائم کر دی ہے۔ پہلی دفعہ کابینہ کے اجلاس میں فوجی جرنیلوں اور وزیروں کے درمیان رانا ثنا اللہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ قائم کرنے کے ایشو پر تو تو میں میں ہوئی ہے۔ رانا ثنا اللہ کے کیس نے ایک بات بالکل واضح کر دی ہے کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ شاید ہی کسی اور کیس میں اس حکومت کی کریڈیبلیٹی کو اتنا نقصان پہنچا ہو جتنا اس کیس سے پہنچا ہے۔ یہ سیاسی انتقامی کاروائیوں کا ایک کھلا کیس تھا۔
تحریک انصاف کی جانب سے کرپشن ختم کرنے کا نعرہ بھی اپنی ساکھ کھو چکا ہے۔ ہر وقت ہر برائی کا سابقہ حکومت کو الزام دینے کی دلیل بھی بے نقاب ہوتی جا رہی ہے۔ آخر کب تک لٹیروں، چوروں اور ڈاکوؤں کی گردان عوام میں جگہ بنا کے رہ سکتی ہے۔
عمران خان حکومت کو اس وقت شدید دھچکہ لگا جب آرمی چیف کی ایکسٹینشن کو سپریم کورٹ نے روک دیا اور ایک خصوصی عدالت نے آمر جنرل مشرف کو سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا، یہ ایک ایسا قدم تھا جو اس حکومت کے لئے غیر متوقع تھا۔ اس سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے بنائے ہوئے کھیل اور فارمولے کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑاہے۔
یہ بھی اب ایک کھلا راز ہے کہ حکومت آئی نہیں لائی گئی تھی۔ حکومت چلانے والے سامنے والے چہرے نہیں بلکہ پس پردہ گروہ ہیں۔ جنہوں نے سوچا تھا کہ عمران خان ہی اس سسٹم کو چلا سکتا ہے۔ وہ بھی شاید سوچ رہے ہیں کہ ان سے غلطی ہو گئی تھی۔
عمران خان حکومت ایک رائیٹ ونگ کنزرویٹو حکومت ہے جو سامراجی اداروں اور انکے بھیجے گئے ایجنٹوں کے اشاروں پر کام کر رہی ہے اور عوام مخالف معاشی فیصلے کر رہی ہے۔ اس کی خوش قسمتی ہے کہ اسے شہباز شریف جیسا اپوزیشن لیڈر ملا ہے، میاں نواز شریف سویلین راج کی وکالت میں پیش پیش تھا اور شہباز شریف اس بیانیے کا اندرونی مخالف تھا جس نے تحریک چلانے کے کئی اہم مواقع ضائع کئے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں کوئی عوامی بنیادیں موجود نہیں ہیں اور سندھ حکومت کو قائم رکھنے کے لئے انہیں بار بار اسٹیبلشمنٹ سے مصالحت کرنی پڑتی ہے۔
اس صورتحال میں بائیں بازو کے لئے نئی جہتیں سامنے آ رہی ہیں۔ ان کا بیانیہ مین سٹریم بنتا جا رہاہے۔ ان کے مظاہرے کامیاب ہو رہے ہیں۔ اسی لئے ریاست اب ان کے خلاف بغاوت کے مقدمات بنا رہی ہے۔ ایک نئی نوجوان قیادت ابھر رہی ہے، نوجوانوں میں سوشلزم کے نظریات جگہ بنا رہے ہیں۔ ایک عوام دوست بیانیہ مقبول ہو رہا ہے۔ وجہ سرمایہ درانہ معاشی استحصال کی شدت ہے، عوام مسلسل مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان کو اب نئے راستوں کی تلاش بھی ہو رہی ہے۔
اگلا دور کافی دلچسپ ہو گا، نجکاری کے خلاف سخت مزاحمت ہو گی اور طلبہ یونینوں کی بحالی ملک میں طلبہ تحریک کے ابھرنے کے امکانات کو روشن کرے گی۔ سیاسی فضا میں دیر بعد اب سرخ رنگ بھی نظر آنے لگا ہے۔ یہ محنت کش طبقات کی جدوجہد کا دور ہو گا۔