فاروق سلہریا
اتوار کی شام تقریباً چھ بجے، نوے کے لگ بھگ افراد پر مشتمل ایک جتھے نے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں دو اساتذہ سمیت 18 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ دو کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ زخمی اساتذہ میں پروفیسر سچترا سین اور پروفیسر سکلا سین شامل ہیں۔ زخمی ہونے والوں میں جے این یو طلبہ یونین کی صدر آشی گھوش بھی شامل ہیں۔
جے این یو کے طلبہ کا کہنا ہے کہ لاٹھیوں اور لوہے کی سلاخوں سے مسلح اس جتھے کا تعلق آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے تھا۔ جے این یو کے گیٹ پر پولیس موجود رہتی ہے مگر ایک ویڈیو میں یہ تو دیکھا جا سکتا ہے کہ مسلح جتھہ پولیس کی آنکھوں کے سامنے یونیورسٹی سے رخصت ہو رہا ہے مگر دو گھنٹے جاری رہنے والی غنڈہ گردی کے دوران پولیس کیمپس کے اندر جانے کی زحمت نہیں کرتی۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس اس حملے میں بلا واسطہ ملوث تھی اور اس حملے کے معمار وزیر داخلہ امت شاہ تھے۔
یہ حملہ ایک طویل سلسلے کی کڑ ی ہے۔ جے این یو کے طلبہ و اساتذہ اور مودی حکومت کے مابین مسلسل ایک سیاسی جدوجہد جاری ہے۔ یہ یونیورسٹی بائیں بازو کا دانشوارانہ گڑھ ہے۔ یہاں سالہا سال سے بایاں بازوطلبہ یونین کا انتخاب جیت رہا ہے (حالانکہ کہ دہلی میں بائیں بازو کا کوئی انتخابی حلقہ نہیں ہے) جبکہ اساتذہ کی ایک مناسب تعداد بھی بائیں بازو کے رجحانات رکھتی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ جے این یو نہ صرف بھارت کی سب سے بہترین یونیورسٹی سمجھی جاتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ ایک اہم نام ہے۔
اگر یونیورسٹی کیمپس میں جانے کا اتفاق ہو تو ترقی پسند سوچ رکھنے والے حیران رہ جائیں گے۔ دیواروں پر بھگت سنگھ، فیض، مارکس، منٹو اور امبیڈکر کی قد آدم مورلز ہر آنے والے کا استقبال کرتی ہیں۔
اساتذہ اور پی ایچ ڈی اسکالرز طبقاتی اور ذات پات جیسے مسائل پر ترقی پسند اور اکثر اوقات مارکسی نقطہ نظر سے تحقیق کرتے ملیں گے۔ تحقیق کا معیار اکثر اوقات انتہائی اعلیٰ ہوتا ہے۔ یوں بھارت کے اہم ترین مسائل پر یہ یونیورسٹی ایک متبادل اور ترقی پسند تحقیق کا ایک اہم عالمی منبع بن چکی ہے۔ جے ین یو کے بیانئے اور یہاں کی سیاست بی جے پی کو بھی پسند نہیں اور کانگرس کو بھی نہیں بھاتی مگر کانگرس کی سرکار نے کبھی جے این یو کو حالیہ دور میں طاقت کی مدد سے فتح کرنے کی کوشش نہیں کی (ماضی میں ایسا ضرور ہوا)۔
چھ سال پہلے جب مودی حکومت بنی تو جے این یو اس ہندو بنیاد پرست حکومت کے نشانے پر آ گئی۔ ایک کام تو یہ کیا گیا کہ وائس چانسلر بی جے پی نواز شخص کو لگایا گیا تا کہ انتظامی کنٹرول تو بی جے پی کے ہاتھ میں آئے۔ دوسرا کام یہ کہ بی جے پی کے حامیوں کی بطور استاد بھرتی کرنے کا سلسہ شروع کیا گیا ہے۔
یہ وہی کام ہے جو ضیا آمریت میں ضیا الحق نے جماعت اسلامی سے مل کر کیاتھا۔ اس کی ایک مثال پنجاب یونیورسٹی لاہور ہے۔
اسی کی دہائی میں مشاہد حسین (جی ہاں سیاسی موقع پرستی کی تاریخ رقم کرنے والے سینیٹر مشاہد حسین کبھی بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے)، عمر اصغر خان اور مہدی حسن جیسے ترقی پسند اساتذہ کو نوکری سے نکالا گیا جبکہ بطور استاد جو بھی بھرتی کی جاتی اس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کا ایک مزید حامی یونیورسٹی میں پروفیسر بن جاتا۔
1997ء میں ایک گفتگو کے دوران مہدی حسن، جو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات میں پڑھاتے تھے، نے راقم کو بتا یا کہ 1979ء سے لے کر تا دم گفتگو جو اساتذہ یونیورسٹی میں بھرتی ہوئے، وہ ماضی میں جمعیت کے ناظم رہ چکے تھے جبکہ باقی دس فیصد بھی جماعت ِاسلامی کی سوچ سے ہی اتفاق رکھتے تھے۔
ضیا آمریت میں قائد اعظم یونیورسٹی کے ہی پروفیسر جمیل عمر بد ترین ریاستی ٹارچر کا شکار بنے جبکہ ان کے دیگر ساتھی بھی گرفتار ہوئے۔ پرویز ہودبھائی خوش قسمت تھے کہ گرفتاری سے بچ نکلے کیونکہ جب قائد اعظم یونیورسٹی میں گرفتاریاں ہوئیں تو وہ ایک دو دن پہلے پڑھائی کے سلسلے میں ملک سے باہر چلے گئے تھے۔
پاکستان میں ہر کالج اور یونیورسٹی کیمپس پر بایاں بازو ایک اہم طاقت تھا۔ اسی طاقت کو ختم کرنے کے لئے ضیا آمریت نے پہلے طلبہ یونینز پر پابندی لگائی۔ پھر جمعیت، اے پی ایم ایس او اور ایم ایس ایف جیسی دائیں بازو کی تنظیموں کی مدد سے سٹوڈنٹ لیفٹ کو ختم کیا گیا۔
مودی سرکار اب یہی کچھ بھارت میں کرنا چاہ رہی ہے مگر جے این یو پر حملہ غلط وقت پر کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے جامعیہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر پولیس نے بد ترین غنڈہ گردی کی جس نے پورے ہندوستان میں ایک عوامی تحریک کو جنم دیا ہے۔ جے این یو پر حملہ مودی حکومت کے فسطائی ہتھکنڈوں کے خلاف مزید نفرت کو جنم دے گی۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔