فاروق سلہریا
فلمساز سرمد کھوسٹ کی فلم ”زندگی تماشہ“ پر کھڑے ہونے والے تنازعہ سے صرف ایک روز قبل تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مرکزی رہنما خادم رضوی کے بھائی، بھتیجے اور چند کارکنوں کو قید کی لمبی سزائیں سنائی گئیں۔ ان سزاؤں کے خلاف تو ٹی ایل پی نے کسی ردِ عمل کا مظاہرہ نہ کیا مگر ”زندگی تماشہ“ کو بطور مسئلہ کھڑا کر کے پچھلے چار دن سے یہ مذہبی جماعت ملک بھر میں نہ صرف زیرِ بحث ہے بلکہ اس کی جانب سے دی گئی مظاہروں کی محض ایک کال کے بعد عمران خان کی حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔
اس واقعہ کو بعض لبرل حضرات سوشل میڈیا پر اور میڈیا کے بعض حلقے (مثلاً جیو کے شاہزیب خانزادہ)محض حکومت کی کمزوری بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ریاست کو ٹی ایل پی کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے تھا۔ بہ الفاظِ دیگر، اگر حکومت چاہتی اور ثابت قدمی دکھاتی تو یہ تنازعہ ہی کھڑا نہ ہوتا۔
اس قسم کا تجزیہ انتہائی سطحی ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ تحریکِ انصاف ہو یا مسلم لیگ، ان کے نظریاتی افق ٹی ایل پی اور جماعتِ اسلامی سے مختلف نہیں ہیں۔ اگر عمران خان کو طالبان خان اور تحریکِ انصاف کو کلین شیو جماعتِ اسلامی کہا جاتا ہے اور درست طور پر کہا جاتا ہے، تو ایسے موقعوں پر تحریکِ انصاف کی سیاست کا تقاضا ہے کہ وہ خود کو ٹی ایل پی سے بڑی ٹی ایل پی ثابت کرے۔
یہی حال مسلم لیگ کا ہے۔ مسلم لیگ کے شاہی خاندان کے مردِ اوّل، کیپٹن (ر) صفدر صاحب تو قومی اسمبلی میں بھی اور عوامی جلسوں میں بھی اعلان کرتے آئے ہیں کہ ان کی حکومت کو گرانے کی وجہ ہی مسلم لیگ کی ختمِ نبوت سے وابستگی تھی۔
رہی پیپلز پارٹی تو وہ مذہب پر ہمیشہ منافقانہ اور موقع پرستانہ موقف اختیار کرتی آئی ہے۔ بھٹو سے لے کر بلاول تک، اس جماعت کی قیادت کو جب ضرورت پڑی، ”سیکولر“ بن گئے اور جب سیاسی لحاظ سے منافع بخش نظر آیا تو مذہب کا لبادہ اوڑھ لیا۔ اور تو اور اے این پی کے غلام احمد بلور کو جب بدعنوانیوں کے داغ مٹانے ہوتے ہیں تو وہ مبینہ طور پربلاسفیمی کرنے والوں کے سر کی قیمت مقرر کرنے لگتے ہیں۔
مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کی نظریاتی بنت اور موقع پرستی اپنی جگہ، اس قانون کا اصل فائدہ مذہبی گروہ اٹھاتے ہیں۔
ہتک کا قانون بننے کے بعد سے ایک کے بعد ایک واقعہ اٹھا کر دیکھ لیجئے جس میں کسی شخص پر توہین کا الزام لگا، ہر ایسے واقعہ کے بعد مذہبی جنونی قوتوں کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ یاد رکھئے بلاسفیمی کے نام پر بنیاد پرست اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ کرتے ہیں۔
ٹی ایل پی اس کی بہترین مثال ہے۔ اس نے ممتاز قادری کے جنازے سے سیاست شروع کی۔ نواز حکومت کو گرانے میں کردار ادا کیا۔ گذشتہ انتخابات میں بہت بڑا ووٹ حاصل کیا اور پنجاب کے بہت سے حلقوں سے مسلم لیگ نوازکو ہروانے میں اس کا ہاتھ رہا۔
حالت یہ ہو چکی ہے کہ فوج کا سربراہ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ وہ احمدی نہیں، سنی روایات کے مطابق مذہبی رسومات ادا کرتا ہے اور تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کروائی جاتی ہیں۔
ناقدین یہ کہہ سکتے ہیں کہ نواز لیگ کے خلاف ٹی ایل پی کو استعمال کرنے میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔ درست۔ ہاں مگر”استعمال ہونے کے بعد“اس گروہ کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ طالبان اور القاعدہ بھی سامراج نے افغان جہاد میں استعمال کئے تھے مگر پھر استعمال شدہ گروہ فرینکنسٹائن بن گئے۔
ادھر، یہ بات بھی یاد رہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا نظریاتی افق بھی خادم رضوی سے مختلف نہیں۔
ناقدین یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ٹی ایل پی یا تمام مذہبی جماعتوں کو کبھی اتنے ووٹ نہیں پڑے کہ وہ حکومت بنا سکیں۔
یہ تجزیہ زیادہ تفصیلی جواب مانگتا ہے۔ مختصراً: نہ صرف یہ کہ ایم ایم اے نے 2002ء میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں کلین سویپ کیا بلکہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام 1970ء سے لگ بھگ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں بننے والی ہر حکومت کے ساتھ اتحاد میں شامل رہے ہیں۔ اگر جماعت اسلامی ضیا آمریت کی بی ٹیم تھی تو اس کے بعد بننے والی اکثر حکومتوں میں مذہبی جماعتیں حصہ دار رہی ہیں۔
اہم بات مگر یہ ہے کہ بنیاد پرست قوتوں کی طاقت کا اندازہ ان کے ووٹوں سے لگانا ہی سیاسی اندھے پن کا اظہار ہے۔ ان کی طاقت ان کے ووٹوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔
”زندگی تماشہ“ کا تنازعہ یا جنرل باجوہ کا ختمِ قرآن کی تقاریب کروانا مندجہ بالا بات ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں؟
جب گورنر سلمان تاثیر کو جان سے مار دیا گیا تو پیپلز پارٹی کی اپنی قیادت ان کے جنازے میں شریک نہ ہو ئی تھی مگر شاید یاد ہو کہ اس وقت کے فوجی سربراہ بھی جنازے میں شریک نہ ہوئے تھے۔ معروف صحافی احمد رشید نے ان دنوں لکھا تھا کہ جنرل کیانی فوج میں منفی ردِ عمل کے ڈر سے جنازے میں شریک نہیں ہوئے تھے۔
یہ ہے ان گروہوں کی اصل طاقت! مذہب کے نام پر بننے والے ہر قانون اورمذہب کے نام پر ہونے والے ہر احتجاج کا اصل مقصد ہوتا ہے اپنی سیاسی طاقت میں اضافہ۔ یہ مقصد مذہبی قوتیں ہر بار حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ اس لئے ”زندگی تماشہ“ پر ہونے والا تنازعہ سے محض اظہارِ رائے، ریاست کی کمزوری اور آرٹ یا مٹھی بھر مولویوں کی اصطلاح استعمال کر کے جان نہیں چھڑائی جا سکتی۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔