لاہور (جدوجہد رپورٹ) گذشتہ شام دن بھر کی زبردست احتجاجی مہم کے بعد ترقی پسند طالب علم رہنما محسن ابدالی اپنی گمشدگی کے گھنٹو ں بعد واپس اپنے گھر پہنچ گئے۔
جمعرات کی صبح پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے رہنما اور پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم فل کے سکالر محسن ابدالی کوسادہ کپڑوں اور پولیس وردی میں ملبوس دس افراد ان کے گھر سے اٹھا کر لے گئے۔ ان کی ”گرفتاری“ کے بعد ان کا خاندان اور ساتھی طالب علم پولیس سے رابطہ کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ انہیں کہاں لے جایا گیا ہے یا ان کے خلاف کیا مقدمات ہیں۔ پولیس انہیں کوئی جواب نہیں دے رہی تھی۔ یہ ”گمشدگی“کا ایک اور کیس تھا جس کے خلاف زبردست احتجاج شروع ہو گیا۔
اس کے بعد ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر محسن ابدالی کی گمشدگی ایک اہم ٹرینڈ بن گیا۔ شام پانچ بجے ان کی رہائی کے لئے لاہور میں چیئرنگ کراس پر ”آزادی کیمپ“ منعقد کیا گیا جس میں لاہور بھر سے سینکڑوں طالب علم اور سماجی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس کیمپ کے دوران ہی ان کی رہائی کی خبر پہنچ گئی۔
اٹھائے جانے سے ایک روز قبل انہوں نے لاہور پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرے سے خطاب کیا تھا۔ یہ احتجاجی مظاہرہ اسلام آباد میں گرفتار کئے گئے پشتون تحفظ موومنٹ اور عوامی ورکرز پارٹی کے کارکنوں کی رہائی کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔
محسن ابدالی گذشتہ سال ہونے والے طلبہ یکجہتی مارچ اور کلائمیٹ مارچ کے منتظمین میں سے ہیں۔