حسنین جمیل فریدی
لال سلام کامریڈز!
میری خوش قسمتی ہے کہ میں بائیں بازو کے سینئر رہنماؤں کی زیرِ سرپرستی 16 فروری کو لاہور میں ہونے والے فیض امن میلہ کمیٹی کا حصہ ہوں اور اس میلے کے انعقاد میں ادنیٰ سا کردار ادا کر رہا ہوں۔ میں اور میری تنظیم کے دیگر کامریڈز اس میلے کو نوجوانوں کی تحریک کے نام منسوب کرنے پر پوری کمیٹی کے مشکور ہیں اور اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ نوجوان آپ کی توقعات پر پورا اترنے کی بھر پور کوشش کرینگے۔
جس طرح آپ سب نے اپنی تمام عمر بائیں بازوکے عوام دوست نظریات کا پرچار کرتے ایک عظیم جدوجہد میں گزاری، یقینا ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ نے طلبہ یکجہتی مارچ، شہری تحفظ مارچ، عورت مارچ اور ماحولیاتی مارچ جیسے بڑے مظاہروں میں ہماری رہنمائی کی اور شرکت کر کے انہیں کامیاب بنایا۔ مجھے امید ہے کہ آپ اسی طرح نوجوانوں کا ساتھ دیتے رہیں گے اور ہم مل کر پاکستان میں بائیں بازو کی ایک مضبوط تحریک کی بنیاد رکھیں گے۔
پاکستان میں بائیں بازو کے متحد نہ ہونے کو حرفِ تنقید بنایا جاتا ہے مگر ہم نے ماضی میں فیض میلہ یا جالب میلہ جیسے بڑے میلوں اورحالیہ متحدہ سیاسی جہتوں کے ذریعے ان ناقدین کو غلط ثابت کیاہے۔ اس اتحاد سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں اور لاہور لیفٹ فرنٹ جیسے بڑے سیاسی محاذ نے جنم لیا جس کے ذریعے ہم نے مل کر مظلوم طبقات کی آواز بلند کی اور مشکل حالات میں بھی جدوجہد جاری رکھی اور چند کامیابیاں بھی سمیٹیں۔
”لال لال“ کی اس حالیہ لہر میں نوجوانوں سے زیادہ آپکی جدوجہد کی پوری تاریخ اور ان نوجوانوں کی تربیت کار فرما ہے۔ آپ نے بد ترین آمریت کے ادوار میں بھی ”انا الحق“ کا نعرہ بلند کیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ آپ نے ہر دور میں مظلوموں کیلئے اپنی آواز بلند کی جس پر آپ تمام لال سلام کے مستحق ہیں۔
اس مشترکہ جدوجہد کے باعث اگر بایاں بازو دوبارہ طاقت پکڑ رہا ہے تو اس میں سب سے اہم مرحلہ اس یکجہتی کو برقرار رکھنا ہے۔ ہمیں اندرونی و بیرونی ان تمام عوامل سے محتاط رہنا ہے جو ہمارے اندر انتشار پھیلا کر ہمیں منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ بائیں بازوکا شیرازہ بکھر جائے اور ہم پھر چھوٹی چھوٹی قوتوں کی صورت اپنی الگ الگ لڑائیاں لڑتے رہیں اور اپنی مشترکہ منزل سے دور ہوتے چلے جائیں۔
ہمارا نظریہ تمام محکوم طبقات کو یکجا کرنے کا پرچار کرتا ہے لہٰذا از حد ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اس پر عمل کریں۔ تمام تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی اپنی تاریخی جدوجہد ہے، کسی ایک فرد کا کردار بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی بھی گروہ چھوٹا بڑا نہیں بلکہ ہر کسی نے اپنے حصے کی شمع جلائی۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ابھی بھی بہت سے لوگوں کی جدوجہد پسِ پردہ ہے۔ ہماری سیاست شخصی بنیادوں پر نہیں بلکہ نظریاتی بنیادوں پر استوار ہے لہٰذا ہمیں اپنے ذاتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ایک جان ہو کر اس ملک کے 99 فیصد کی آواز بننا ہے۔
صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بائیں بازو کی عالمی تحریک ابھر رہی ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور چلی سمیت ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں فیض کا کلام ”ہم دیکھیں گے“ صرف شاعری تک محدود نہیں بلکہ ایک عملی مزاحمتی تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے اور دائیں بازو کے استبداد کا بھر پور مقابلہ کر رہا ہے۔ پاکستان سمیت سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اثرچلنے والی عالمی حکومتیں عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہیں جبکہ مظلوم طبقوں پر سرمایہ دارانہ استبداد بڑھتا جا رہا ہے۔ اس عالمی تحریک کو اس ملک میں پھیلانے اور تیز کرنے کی بھاری ذمہ داری ہمارے ناتواں کندھوں پر آن پڑی ہے جس کا مقابلہ ہم صرف اتحاد اور یگانگت سے ہی کر سکتے ہیں۔
ان ملکی و عالمی استبدادی قوتوں کو شکست دیناآسان نہیں بلکہ ایک بھر پور اور مضبوط اتحاد ہی اسکا مقابلہ کر سکتا ہے۔ طلبہ، مزدوراور کسان مل کر ہی ایک ترقی پسند متبادل سیاست کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم مل کر فیض میلہ، جالب میلہ اور مظلوم طبقات کے دیگر ہیروز کی یاد میں میلے سجائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی جدوجہد بھی جاری رکھیں گے۔ یقینا سفر بہت کٹھن ہے مگر منزل تب ہی آسان ہوگی جب ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے اور مل کر مزاحمتی سیاست کو فروغ دیں گے۔ بقول فیض:
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل نہیں آئی!
آپکا نوجوان تحریکی ساتھی!
حسنین جمیل فریدی
پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو
حقوق خلق موومنٹ