دنیا

ترکی کا شمال مشرقی شام پر حملہ اور امریکی خارجہ پالیسی کی ناکامی

ڈاکٹر دارا سلام

بشکریہ: ان سائیڈ عریبیہ

امریکا نے ترکی کے شمال مشرقی شام پر حملے سے آنکھیں موند کر مشرق ِوسطیٰ میں ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کو واضح کیا ہے اور خطے میں اس کے ارادوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔

جب ترکی نے 9 اکتوبر 2019ء کو روجاوا، جو شمالی شام کی جمہوریہ فیڈریشن بھی کہلاتا ہے، میں کرد خود ساختہ انتظامیہ پر حملہ کرنے اور اسے ختم کرنے کے ارادے سے شمال مشرقی شام میں اپنا فوجی آپریشن شروع کیا تو اس نے بین الاقوامی اور علاقائی طور پر متعدد امریکی اتحادیوں کو حیران کر دیا۔ سوچنے کی بات تھی کہ ترکی کے اقدام سے قبل شام سے امریکی انخلا کے پیچھے کیا کارفرما تھا۔

انخلا کا فیصلہ 6 اکتوبر کو ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ ٹرمپ کی ٹیلی فونک گفتگو کے نتیجے میں ہوا جب انہوں نے ایک فیصلہ کن انداز میں اعلان کیا کہ ترکی کی سرحد پر تعینات امریکی افواج کو واپس بلا لیا جائے گا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ ٹرمپ کو بدلے میں کیا ملا۔ اس فیصلے کی ایک ممکنہ وضاحت یہ ہے کہ ٹرمپ نے اردگان کے ساتھ معاہدہ اس لیے کیا تاکہ ترکی روس کا ایس 400 میزائل خریدنے سے باز آجائے اور اس کے بجائے امریکی ایف 35 جنگی طیارے خریدے۔

مفاداتی سیاست اور متروکہ اتحادی

در حقیقت موجودہ امریکی انتظامیہ کی خارجہ پالیسی ایک مستقل پیچیدگی کا مظہر رہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے معاملات میں اسے پسپائی اور متضاد پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی کچھ پالیسیوں اور فیصلوں کے سنگین سیاسی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ان میں 2016ء میں ٹرمپ انتخابات میں روسی مداخلت کا تنازعہ بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں مولر کی تحقیقات اور اس کے آدھے انکشافات پر مبنی رپورٹ شائع ہوئی، اس کے ساتھ ہی یوکرین کے معاملے پر طوفان برپا ہونا جو ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی بنیاد بنا، فلسطین اسرائیل تنازع سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ کے عجلت میں کئے گئے غیر محتاط فیصلے، ایرانی جوہری معاہدے سے دستبرداری اور ایران کے ساتھ تازہ ترین جنگی تناؤ، اور شام سے فوج کی واپسی کا فیصلہ جیسے اقدامات بھی اس میں شامل ہیں۔

ان سب فیصلوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنی خارجہ پالیسی کی نوک پلک نہیں سنوار سکتی۔ تاہم 2019ء میں داعش کے خلاف برسرِپیکار اپنے اتحادی سرئین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کی حمایت ترک کرنے کا فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی غلطی تھی جس نے لگ بھگ 11000 مرد و خواتین جنگجوؤں کو بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا۔

درحقیقت کردوں کے ساتھ سیاسی اور اخلاقی وابستگی کا فقدان ماضی میں مشرقِ وسطیٰ میں مغربی طاقتوں کی پالیسیوں کا خاصہ رہا ہے۔ مفاداتی سیاست کے تحت ٹرمپ انتظامیہ کے دوسری قوموں خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ تعلقات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کس طرح ٹرمپ کے ذاتی اور سیاسی مفادات کے آگے اخلاقی وابستگی ماند پڑ جاتی ہے۔

ٹرمپ کا اپنا سیاسی نقطہ نظر کاروبار سے وابستہ دنیا کے مقابلہ بازی اور منافع سے جڑا ہے۔ یہ طرزِ عمل عالمی سیاست میں ایک خطرناک حقیقت بن چکا ہے، خاص طور پر مقبول سیاستدانوں کا یہی رویہ ہے جو آسانی سے اپنے سیاسی اور معاشی فوائد کی خاطر اخلاقی اقدار کو ترک کردیتے ہیں۔

اٹھارویں صدی کے جرمن فلسفی امانوئل کانٹ نے ان سیاست دانوں کے بارے میں متنبہ کیا تھا جو آزادی، خودمختاری اور انسانی حقوق جیسی اخلاقی اور سیاسی اقدار کو اپنے مفادات کی خاطر پامال کرتے ہیں اور اپنے حق میں ان کی شکل بگاڑ دیتے ہیں۔ آج کی عالمی سیاست میں دائیں بازو کے مقبول رہنماؤں میں یہ خصوصیات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔

شام میں کم و بیش نو سال کی خانہ جنگی، جس نے ایک بڑا انسانی المیہ پیدا کیا، کے بعد امریکی فوج کا یہاں سے نکل جانا اور ترک فوج کو ان علاقوں پر حملہ کرنے کا صاف راستہ مہیاکرنے کا فیصلہ یقینا کوئی دانشمندانہ اور نپی تلی خارجہ پالیسی کا مظہر نہیں۔

ترکی کے دور رس ارادے اگرچہ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے شمال مشرقی شام میں کرد فوجی علاقوں پر حملہ کرنے اور کرد علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے ترکی کوسبز جھنڈی نہیں دکھائی تاہم امریکی فوجیوں کی واپسی کے فیصلے نے ترکی کے صدر اردگان کو نام نہاد ”محفوظ“ زون بنانے میں کافی مدد دی ہے، جس کے وہ کافی عرصے سے خواہش مند تھے۔

جنوبی سرحد پر سکیورٹی خدشات اور ترکی کے دعوے کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے تھے کیونکہ کردوں کی طرف سے ترک علاقوں پر حملوں کی کوئی اطلاع نہیں تھی جسے جواز بنا کر فوجی آپریشن کیا جا تا۔ شمال مشرقی شام اور روجاوا کی آبادیاتی ساخت کو انجینئر کرنے کی سیاسی کوشش کے پیچھے کارفرما اردگان کے اصل ارادے اور فوجی حملے کے محرکات اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔

اردگان نے حال ہی میں اپنے سرکاری ٹی وی چینل ٹی آر ٹی کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ دس لاکھ شامی مہاجرین کی رہائش کے لئے نئے زیر قبضہ علاقوں میں بستیاں زیر تعمیر ہیں۔

آبادیاتی ساخت میں تبدیلی کی سیاست کا ہدف مخصوص افراد اور نسلی گروہوں کے خلاف بلاجواز جنگ ہے۔ زیادہ تر ان کے مکمل خاتمے کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے تاہم اگر ان لوگوں کا ان کے آبائی علاقوں سے مکمل صفایا نہ بھی ہو پائے تو کم از کم نسلی صفایا تو ہو جاتا ہے۔ اس پْرتشدد عمل کے نتیجے میں کرد، عرب، عیسائی اور یزیدی نسل کے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور سینکڑوں موت کے منہ میں چلے گئے۔

ترک فوج اور اس کی حمایت یافتہ شامی ملیشیا کے بارے میں ایسی متعدد اطلاعات ہیں جن سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تصدیق ہوتی ہے اور جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔ ترکی کا بنیادی ہدف شمال مشرقی شام میں کرد خود ساختہ حکومت کا خاتمہ ہے۔ ترکی میں مقیم 3.6 ملین شامی مہاجرین کو دوبارہ آباد کرنے کے ترک صدر کے دعوے سے کرد خودمختاری کو روکنے کا بنیادی ہدف حاصل کرنا ہے۔ ترکی نے طویل عرصے سے اپنے فوجی حملے کے متعلق یورپ کو خاموش رکھنے کے لئے شامی مہاجرین کو ایک پریشر کارڈ کے طور پر استعمال کیا ہے۔

نقصان کیا ہوا؟

شام میں ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کو متعدد پریشان کن ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ترکی کی حمایت یافتہ شامی ملیشیا کی صورت میں انتہا پسند گروہوں کونئی زندگی ملی۔ ان ملیشیاؤں کو جن کی ترکی مالی اعانت اور تربیت فراہم کرتا ہے، ان کے انتہا پسندانہ نظریات القاعدہ اور داعش سے مختلف نہیں ہیں۔ اس کا زبردست نقصان کردوں کی خودمختار حکومت کو پہنچا جو روجاوا میں شامی بغاوت کے بعد 2011ء میں قائم ہوئی تھی۔

اس جمہوری آغاز نے خطے میں ایک نیا سیاسی اور معاشرتی نظام پیش کیا تھاجس کے تحت جمہوریت، عوامی شعبوں اور فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی مضبوط شرکت پر مبنی سیکولر اور جمہوری حکومت تشکیل دی گئی۔ مزید یہ کہ اس نے ایک ایسا فریم ورک تیار کیا تھا جس کے اندر شام کے مختلف نسلی اور مذہبی گروہ سماجی بنت کا حصہ بن کر اکٹھے رہ سکتے تھے۔ روجاوا میں جمہوری خودمختاری نے معاشرتی اور ماحولیاتی انصاف کے حصول کی خواہش ظاہر کی تھی اور شام میں سیاسی افراتفری کے حل کے لئے ٹھوس تجاویز بھی دی تھیں۔ یہ حکومت اختیارات کو بلدیاتی سطح پر لانا چاہتی تھی جسے وفاق یا کنفیڈریشن کے تحت منظم کیا جاسکتا ہے۔

اس منفرد جمہوری منصوبے کو نافذ ہونا چاہیے تھا اور امریکہ اور یورپ کو اسے شام میں خونریزی کے خاتمے اور معقول سیاسی انتظام کی حیثیت سے برقرار اور مستحکم کرنا چاہیے تھا۔ تاہم اس مستحکم سیاسی تحریک کی پشت پناہی نہ کرنے کا امریکی فیصلہ مشرق وسطی میں اس کی گدلی خارجہ پالیسی کی توثیق تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کبھی بھی جمہوریت اور آزادی کی اقدار پر قائم نہیں رہا بلکہ اس کی بجائے اس نے خطے میں غاصب اور جابرانہ حکومتوں کا تحفظ کیا ہے۔

شام میں ٹرمپ انتظامیہ کے واضح سیاسی وژن کی کمی، بلاشبہ شدت پسند گروہوں کی بحالی اور بشارالاسد کی حکومت کی حوصلہ افزائی ہے۔ امریکہ شمال مشرقی شام کو سیاسی مینڈیٹ دینے اور اسے ایک محفوظ، آزاد اور جمہوری خطے کی حیثیت سے تسلیم کرنے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتا تھا تاکہ مستقبل میں شام میں سیاسی تصفیہ ممکن ہو سکے۔

غلط اندازوں والی خارجہ پالیسیوں کے نتیجے میں ٹرمپ انتظامیہ کے معاملات انتہائی پیچیدہ رہے ہیں۔ داعش کو شکست دینے اور شام میں ایک بہت بڑا علاقہ حاصل کرنے کے بعد، اسے غیر مستحکم کرنا اور اس کی آبادی کو فوجی حملے کا سامنا کرنے کے لئے چھوڑ دینا سیاسی طور پر غیر دانشمندانہ تھا۔ اس کے برعکس شام میں روس کی خارجہ پالیسی بشارالاسد کی حکومت کی مسلسل حمایت میں زیادہ مستقل رہی ہے۔ روس نیٹو کے رکن ترکی کو قریب لانے میں کامیاب رہا ہے۔ ترکی نے روس اور نیٹو کے مابین جکڑی ہوئی آزادی کو ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کی مدد سے حاصل کر لیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ٹرمپ کی واحد تشویش شام کے تیل کے کنوؤں کا تحفظ ہے۔ امریکا شمال مشرقی شام میں ترک فوج کے حملوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، اموات اور تباہی سے آنکھیں موندے لازمی طور پر تیل کے حصول کے اپنے سامراجی عزائم پر عمل پیرا ہو گا۔

Dara Salam
+ posts

ڈاکٹر دارا سلام لندن کے اسکول آف اورنٹیل اینڈ افریقن اسٹڈیز (SOAS) کے’شعبہ سیاسیات و بین الاقوامی تعلقات‘ سے وابستہ ہیں۔ ان کا تعلق عراقی کردستان سے ہے۔