پاکستان

کوئٹہ بم دھماکہ اور میڈیا کی خاموشی

امان اللہ کاکڑ

تین دن پہلے کوئٹہ میں منان چوک کے قریب پریس کلب کے پاس واقع شارع اقبال پر ایک خون ریز خودکش دھماکہ ہوا۔ دھماکے میں ڈان اخبار کے مطابق 8 افراد شہید جبکہ 20 افراد زخمی ہوئے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو جو سول ہسپتال کوئٹہ میں شہدااور زخمیوں کے مناظر دکھا رہی ہے، میں بتایا گیا کہ 20 سے زیادہ افراد شہید جبکہ 30 کے قریب افراد زخمی ہیں۔

یہ دھماکے کوئٹہ میں کئی سالوں سے ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک وی او اے رپورٹ کے مطابق 2001ء سے کوئٹہ میں یہ 2522 واں دھماکہ ہے (راقم اس کی تردید یا تصدیق نہیں کر سکتا۔ عموماًسوشل میڈیا کی معلومات کو ذرا شک سے دیکھا جا تا ہے)۔ بہر حال شہر میں ہزاروں انسانی جانیں دھماکوں کی نظر ہو چکی ہیں۔ کوئٹہ کا ہر دوسرا چوک شہیدوں کی یاد گار سے وابستہ ہے۔ ہر اہم بازار یا سڑک پر دھماکے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان وغیرہ کے واقعات معمول کے مطابق رونما ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے مختلف اضلاع میں دہشتگردوں نے حملے کئے ہیں مگر زیادہ تر واقعات کوئٹہ شہر میں ہوتے ہیں۔ دہشت گردی نے شہر کا کلچر بدل کر رکھ دیا ہے۔

لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ کوئی ہسپتال، کوئی بازار، کوئی چوک اور کوئی ہوٹل محفوظ نہیں ہے۔ شام 8 بجے تک تقریباً اکثر دکانیں بند ہوجاتی ہیں۔ دیر سے باہر نکلنا کوئی مجبوری ہوتی ہے ورنہ کوئی نہیں نکلتا۔ کوئٹہ ایک سنسان شہر بن گیا ہے۔ پارک اور تفریح کی جگہیں تو دور کی بات، کوئی جوان، کوئی بزرگ، کوئی عورت، کوئی کاروباری، کوئی پروفیشنل اور کوئی بھی شخص اپنی جگہ پر مطمئن نہیں ہے بالخصوص اس قسم کے واقعات کے بعد جو تین دن پہلے ہوا۔

دوسری طرف کارپوریٹ میڈیا ان واقعات کی کوئی کوریج نہیں کرتا۔ اس تازہ دھماکے کی مثال ہی لے لیں۔ کسی ٹی وی چینل پر میڈیا نے نہیں دکھایاکہ کو ئٹہ میں کیا ہوا، کتنے لوگ اپنے پیاروں سے محروم ہوگئے، کتنے بچے یتیم ہوگئے اور کتنی عورتیں بیوہ ہوگئیں؟ نہ ہی وہ مناظر دکھائے جو سول ہسپتال کوئٹہ میں تھے۔ سول ہسپتال ایک ماتم گاہ بنا ہوا تھا۔

کٹھ پْتلی اور نااہل حکومت اور واٹس ایپ ایڈمن پر اگر بات نہ ہو تو بہتر ہوگا کیونکہ یہ لوگ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ منافقت پر مبنی رویہ اپناتے ہوئے لفظی اور منافقانہ انداز میں مذمت کرتے ہیں اور جھوٹے طور پر لواحقین کے غم میں شریک ہوجاتے ہیں اور پھر دوسرے واقعے تک غائب ہوجاتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 64 ارب روپے سالانہ امن و امان پر خرچ کرنے والے کہاں ہیں؟ ہر جگہ سکیورٹی فورسز تعینات ہیں، یہ دہشتگرد پھر کہاں سے آتے ہیں؟ یہ سوال صرف موجودہ کٹھ پْتلی اور ناہل حکومت اور انکے پشت پناہوں سے نہیں بلکہ اس کام میں ہر حکومت ِوقت ناکام رہی ہے۔ ان تمام تر اخراجات کے باوجود کوئٹہ بار بار لہو لہو ہوجاتا ہے۔

یاد رہے منگل کے روز اس دلخراش واقعے کے خلاف پشتون خواہ میپ نے مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا تھا اور دیگر پارٹیوں نے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ نے اس خون ریز واقعے کے خلاف کوئٹہ اوردیگر اضلاع میں احتجاجی مظاہرے کئے۔

ادھر، کسی نے بھی ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

Aman Ullah Kakar
+ posts

امان اللہ کاکڑ پلانٹ بریڈنگ اینڈ جینیٹکس (زراعت) کے طالب علم ہیں۔ قلعہ سیف اللہ سے تعلق ہے۔ طبقاتی جدوجہد کے کارکن اور بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ہیں۔