دنیا

کرونا وائرس: سرمایہ دارانہ نظام کی مصنوعی ترقی اور عوامی فلاح کا بت دھڑام

فرحان رضا

عالمی معاشی بحران کے دوران کرونا وائرس کی وبا کا پھیلنا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ شاید یہ حیران کن بات ان لوگوں کے لئے ہو جن کا خیال تھا کہ 1990ء میں سرد جنگ ختم ہونے کے بعد سرمایہ داری کو جو کھلا میدان ملا ہے اس میں انسانی ترقی عروج پر پہنچ جائے گی کیونکہ دنیا اس وقت ٹیکنالوجی کے انقلاب سے گزررہی ہے۔ ڈی این اے میں تبدیلی سے لے کر کمیونیکیشن کے تیزرفتارموڑ پر پہنچنے تک انسان نے شاید دنیاکی تسخیر میں کافی آگے کا سفر طے کرلیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سرمایہ داری کے ہمنوا اس بات پر حیران ہیں کہ ایک وائرس اسطرح دنیا بھر کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ کئی سازشی تھیوریاں گڑھی گئی ہیں۔ کسی نے کہا یہ وائرس خود پھیلایا گیا ہے تو کسی نے کہا اصل میں یہ بیماری اتنی شدید نہیں جتنا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ ابتدائی طور پر کسی طرح سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایک ننھا وائرس کس طرح آج کے انسان کو شکست دے سکتا ہے۔ جب معاملات ہاتھ سے نکلے تو پھر امریکہ ہو کہ فرانس، اٹلی، برطانیہ، ایران، پاکستان یابھارت۔ ۔ ۔ دنیا بھر کی حکومتوں کو حالات کی سنگینی کا اعتراف کرنا پڑا۔

اس وائرس نے مصنوعی ترقی اور عوامی فلاح کا بت دھڑام سے گرادیا ہے۔ عالمی سرد جنگ کے خاتمے ا ور سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سرمایہ داری نے بلا شرکت ِ غیر جو تیس سال گزارے ہیں ان میں سرمایہ دارانہ ریاستیں جیسے امریکا، برطانیہ، فرانس اور اٹلی وغیرہ بظاہر مضبوط نظر آتی رہیں لیکن اندرسے انتہائی کھوکھلی ہوگئی ہیں۔ بلا روک ٹوک منافع کے حصول نے ریاستوں کو اندر سے اتنا کمزور کردیا کہ وہ کسی بھی معاملے کو سنبھالنے کی اہلیت کھوچکے ہیں۔

یہ وائرس جو ایکدوسرے سے منتقل ہوتا ہے اس میں سب سے بڑا خطرہ پھیپھڑوں کا ناکارہ ہونا ہے۔ اس وائرس کی دوا ابھی تیار کی جا رہی ہے۔ اس کے لئے تجربات ہورہے ہیں لیکن فوری اقدامات سے جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔ اس میں سب سے اہم کردار وینٹی لیٹر زکا ہے یعنی جسم میں آکسیجن کی فراہمی جاری رکھی جائے۔ اگر مریض کئی دیگر مہلک بیماریوں کا شکار نہیں ہے تو ڈاکٹر اسے وینٹی لیٹر پر رکھ کر ساتھ میں قوتِ مدافعت بڑھانے کی دوائیں دے سکتے ہیں جس کے بعد اس کے زندہ بچ جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں لیکن نوزائیدہ بچوں اور بوڑھوں کے لئے اسطرح کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ یہ بات ہم نے کئی ڈاکٹرز سے بات کرنے کے بعد لکھی ہے۔

وینٹی لیٹر پر جانے سے پہلے کا اہم مرحلہ ہے کہ مرض کی تشخیص ہوسکے جو ڈاکٹرز ہی بہتر کرسکتے ہیں۔ بخار کا ہونا، خشک کھانسی ہونا اور پھر رفتہ رفتہ سانس پھولنا۔ ۔ یہ وہ علامات ہیں جن کی بنیاد پر کرونا وائرس کی موجودگی ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے لئے ڈاکٹرز کے پاس خصوصی لباس ہوں، لیزر کے ذریعے جسم کا درجہ حرارت چیک کرنے کاآلہ ہو اور ہسپتال موجود ہوں جہاں وائرس کے شبہ میں لائے گئے مریضوں کا علاج کیا جاسکے۔

کرونا وائرس نے سرمایہ داری کا یہ بھرم پاش پاش کردیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں کو صحت کی بنیادی سہولت دینے کے اہل ہیں۔ جتنے ہسپتال تیس سال پہلے تک بنے تھے اس کا عشر عشیر بھی ان ریاستوں نے گذشتہ تیس سال میں نہیں بنائے۔ اس لئے آبادی کے تناسب سے سرکاری ہسپتالوں کی تعداد ناکافی ہے۔ وینٹی لیٹرز کی تعداد ناکافی ہے اور ڈاکٹرز کی تعداد بھی۔ یہ امریکا، برطانیہ اور یورپ کی بات ہورہی ہے۔ اسی طرح کرونا وائرس کی وبا جس وقت پھیلنی شروع ہوئی اسی دوران امریکا میں صحت کا بجٹ کم کرنے کی منظوری دی جارہی تھی۔

سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد سرمایہ داری نے گلوبلائزیشن اور ریاست کا کردار ختم کرنے کے نام پرلوٹ مار شروع کی۔ منافع کہاں سے زیادہ مل سکتا ہے بس اس پر توجہ دی گئی۔ باقی بنیادی سہولیات سے انہیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ سرمایہ صرف انہی صنعتوں اور منصوبوں پر دستیاب تھا جو منافع دے سکتے تھے۔

ریاست کا کردار کم کرکے صحت جیسی بنیادی سہولت کو نجی شعبہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ ریاستوں نے 1990ء سے صحت کے بجٹ کم کرنا شروع کئے۔ عوام کی بنیادی سہولیات کو نجی شعبہ میں دیتے وقت ہمیشہ یہ جھوٹا مکارانہ دعویٰ کیا گیا کہ اس سے عوام کوبہتر سہولت ملے گی، کارکردگی بہتر ہوگی اور مقابلے کے رحجان کی وجہ سے قیمتوں میں کمی آئے گی۔ یہ ایک کھلا جھوٹ تھا۔ بجلی کی کمپنیوں کی نجکاری ہو یا صحت کے شعبہ میں نجی انشورنس کمپنیوں یا میڈیسن کمپنیوں کا کردار ہو سب کا مقصد یہ تھا کہ کس طرح عوام کو لوٹ کھسوٹ کر مزید منافع بنایا جائے۔

محنت کشوں کو نجی کمپنیوں سے انشورنس کارڈز دلوائے گئے جس میں او پی ڈی کی سہولت ہی دستیاب نہیں ہوتی البتہ ایسے تمام امراض کے علاج کی سہولت ہے جس سے ہسپتال کے بزنس بڑھ سکیں اور یہ کارڈز بھی ہر ایک کو نہیں دیئے گئے۔ پاکستان جیسے ممالک میں تو اس میں طبقاتی فرق رکھا گیا۔ افسر کوزیادہ رقم والا کارڈ تو گارڈز اور آفس بوائے کے لیے کوئی کارڈ نہیں۔ ہسپتالوں اور انشورنس کمپنیوں کے گٹھ جوڑنے منافع کا انوکھا چلن متعارف کرایا۔ صحت کے شعبہ کو کاروبار کا درجہ دیا گیا۔ حکومتوں نے نئے ہسپتال بنانا بند کردیئے۔

ریاست کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے۔ یہ وہ منتر تھا جو مسلسل جپا گیا۔ جب بحرانی صورتحال ابھری توامدادی تنظیموں کے ذریعہ صحت کی عارضی سہولیات فراہم کرکے بحرانوں جیسے سارس کا مرض یا ایبولا کی وبا کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی۔ امدادی کام کو بھی اس ننگی سرمایہ داری نے ایک کاروبار کا درجہ دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان شعبوں میں امدادی کام تسلسل سے ہوا جس کی ضرورت سرمایہ داری کو زیادہ تھی۔ اکیسویں صدی میں غیر تعلیم یافتہ لیبر سرمایہ داری نظام میں زیادہ کارآمد نہیں ہے۔ اس کے لئے ہنر مند لیبر کی تیاری ضروری تھی اسی لئے جتنی امداد تعلیم کے شعبہ پر کمپنیوں نے عالمی این جی اوز کے ذریعہ گذشتہ بیس سال میں تقسیم کرائی اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔

پاکستان جیسے ملک میں ہمیشہ غربت کا بہانہ بنا کر صحت کا بجٹ دیگر اخراجات کے مقابلے میں کم ہی رکھا گیا۔ جو اضافہ ظاہر بھی کیا جاتا ہے وہ ناکافی ہے۔ اسی لئے کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں گذشتہ تیس سال میں تیس بڑے جنرل ہسپتال بھی نہ بن سکے۔ پاکستان میں اسوقت بھی اکثریت کو ریاست بنیادی صحت کی سہولت فراہم نہیں کرسکتی۔ جتنے ہسپتال بنے وہ خیراتی ہسپتال ہیں ان میں بھی بعض نے اپنا رویہ خیراتی سے زیادہ تجارتی رکھا ہواہے۔

منافع کا حصول ہی سرمایہ داری کا اصل مقصد ہے۔ اس کے لئے اس نے انسان کو ایک کموڈیٹی بنادیا۔ وہ بنیادی وسائل جو ایک عیاشی نہیں بلکہ لازمی ضرورت ہیں انہیں جتنی تیزی سے کاروبار میں گذشتہ تیس سال میں تبدیل کیا گیا اس سے پہلے تاریخ میں ہمیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر پینے کا صاف پانی کھربوں ڈالر کی صنعت کا درجہ اختیار کرچکا ہے۔ پانی فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن یہ کام ریاستوں نے نجی شعبہ کو منافع کمانے کے لیے دیدیا ہے۔ لگتا ہے اس وبا پھوٹنے کے بعد اگلی باری صاف ہوا کی تجارت ہوگی۔ جو مالدار ہوں گے وہ اسپیشل کلین ایئر سلینڈر یا ماسک لے سکیں گے اور یہ اسٹیٹس سمبل ہوگا۔

کرونا وائرس نے بتایا کہ امریکا ہو کہ اٹلی، برطانیہ ہو کہ فرانس، ایران ہو کہ بھارت، پاکستان، افغانستان‘ مزدور اور محنت کش طبقہ تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ فلاحی ریاست کا تصور ختم کرکے جو تھوڑا بہت مزدور اور محنت کش طبقے کوجینے کا حق دیا جارہا تھا وہ بھی چھین لیا گیا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کے سامنے بڑی دیوار کھڑی کی جائے۔ یہ جنگ محنت کا درست معاوضہ، صاف پانی، اعلیٰ تعلیم اور صحت کا بجٹ بڑھانے کے بنیادی مطالبات کے گرد ہو۔ تعلیم، پانی، بجلی اور علاج ایک لگژری نہیں، کاروبار نہیں ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ جدوجہد اب پہلے سے زیادہ ضروری ہے۔  

Farhan Raza
+ posts

فرحان رضا سینئر صحافی ہیں۔ جیو، اے آر وائی، آج اور جی این این سمیت مختلف چینلز کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں۔ انہوں نے صحافت کا آغاز پرنٹ میڈیا سے کیا تھا۔ ڈیلی ٹائمز سمیت مختلف اخبارات میں کام کیا۔ پولیٹیکل اکانومی پر ان کی گہری نظر ہے اور نظریاتی طور پر سوشلسٹ ہیں۔