فاروق طارق
آخر اب آئی ایم ایف بھی مجبور ہوگئی ہے یہ کہنے پر کہ ”ہم کساد بازاری میں داخل ہو چکے ہیں، یہ 2009ء کے فنانشل بحران سے کہیں زیادہ شدید ہو گی، 80 ممالک ہم سے ایمرجنسی امداد مانگ رہے ہیں۔“
سرمایہ داری نظام ایک وائرس سے نپٹنے کی روادار نہیں۔ یہ سامراجی اور سرمایہ دار حکمران طبقے جنگوں اور جنگی سامان پر پیسے لگاتے رہے۔ یہ صحت کو بھولے ہوئے تھے۔ منافع خوری ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ اسی وجہ سے آج دنیا میں آکسفیم انٹرنیشنل کے مطابق صرف 2153 ارب پتیوں کے پاس 4.6 ارب انسانوں کی نسبت زیادہ دولت ہے، جو کل انسانوں کا 60 فیصد ہیں۔ ان ارب پتیوں کی تعداد پچھلے دس سالوں میں دوگنی ہو گئی ہے۔
پاکستان میں بھی بڑے بڑے نجی ہسپتالوں کی لوٹ مار عروج پر ہے۔ صحت کو تحفظ دینے والے سازو سامان بنانے کی بجائے یہ نجی ہسپتال پیسے بناتے رہے۔ تحریکِ انصاف حکومت تو سرکاری ہسپتالوں کو پرائیویٹ افراد کے ٹولوں کے حوالے کرنے کے قوانین بناتی رہی۔ نہ وینٹی لیٹر، نہ ماسک اور نہ حفاظتی لباس۔
دنیا بھر کے زیادہ تر ممالک میں لوگ ہسپتالوں کے برآمدوں، لانوں اوردروازوں پر دم توڑ رہے ہیں۔ چین میں پچھلی دہائیوں کے دوران صحت کے میدان میں بڑی سرمایہ کاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موجودہ حکومت وائرس کے نقصانات پر کافی حد تک قابو پا چکی ہے۔ سوشلزم کی سابقہ بگڑی تگڑی شکلیں بھی سرمایہ داری سے بہت بہتر تھیں۔ آج تو چین کی حکومت انہی سابقہ پالیسیوں کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ نیو لبرل ایجنڈا پر کام کرنے والی سرمایہ دار حکومتیں آج کرونا وائرس کے آگے بے بس ہیں۔ اگر صحت ترجیع نہیں تھی تو یہی ہونا تھا۔
آج سوشلزم کی ضرورت ہر قدم پر محسوس ہورہی ہے۔ سوشلزم انسان کو ترجیع دیتا ہے۔ انسانی ضرورت کو پہلے دیکھتا ہے۔ منافع اس کی سرشت میں ہی نہیں ہے۔ اسی لئے سوشلزم ہر لحاظ سے سرمایہ داری پر حاوی ہے۔ سرمایہ داری بربریت ہے اور سوشلزم انسانیت ہے۔