دنیا

کرونا وائرس وبا: سرمایہ دارانہ نظام کا جرم

راجر سیلورمین

ترجمہ: علی تراب

ہم ایک غیرمعمولی عہد میں جی رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ ’’تہذیب‘‘ کے ریشے بکھر رہے ہیں کیونکہ یہ وبا کوئی ’’خدائی فعل‘‘ نہیں ہے بلکہ یہ سرمایہ داری نظام کا ایک جرم ہے۔ یہ بات بہت پہلے سب کے علم میں تھی کہ منافعوں کی خاطر بڑے پیمانے پر جانوروں کی افزائش میں استعمال ہونے والے زہریلے مادے جانوروں سے انسانوں میں بیماریوں کی منتقلی کا باعث بنتے ہیں اور اس بحران نے ریاستی اخراجات میں وحشیانہ کٹوتیوں کے اثرات بھی واضح کردئیے ہیں، کہ کس طرح صحت کا نظام مفلوج ہوگیا ہے اور شرمناک حد تک کٹوتیوں کی وجہ سے حفاظتی سامان، ٹیسٹ کٹس اور سانس کے آلات میں کمی ہوگئ ہے۔ اس تیزی سے پھیلتے ہوئے وائرس نے سرمایہ داری کی ناکامی کو عیاں کردیا ہے، جس نے دنیا بھر میں دسیوں ہزار لوگوں کو ہلاک کیا ہے اور اب برطانیہ کے وزیراعظم، وزیرِ صحت اور چیف میڈیکل آفیسر کو بھی اپنا شکار بنا لیاہے، یہاں تک کے ویلز کے شہزادے کو بھی نہیں بخشا۔ عوام کیلئے اپنے تحفظ کا ایک ہی طریقہ ہے کہ سماج سے کٹ جائیں اور قیدِ تنہائی میں چلے جائیں، اسی کے ساتھ تہذیب کا سفر بھی تھمتا جارہا ہے۔

ڈینیل ڈیفو نے 1665 میں پھوٹنے والے ’’طاعون کے سال کا جریدہ‘‘ شائع کیا تھا۔ جیک لندن اور البرٹ کیمس نے بھی یوٹوپیائی ناول لکھے جن میں مستقبل میں آنے والے طاعون کا تصور پیش کیا تھا۔ لندن کا ناول جو 1912 میں لکھا گیا اس میں ایک ’’سرخ طاعون‘‘ کا ذکر ہے، ایک ’’سرخ موت‘‘ جو ایک جھٹکے میں پوری انسانی تہذیب کا خاتمہ کردیتی ہے، پراسرار طور پر لندن کی پیشن گوئی دور کی بھی نہیں بلکہ 2013 کی تھی!

ڈبلیو آئی این کی حالیہ دستاویز میں ہم نے لکھا: ’’اگر آنے والے سماجی دھماکے نہ بھی ہوں پھر بھی ایک نیا دہشت، جبر اور جنگ کا دور اور اس کے علاوہ ماحولیاتی گراوٹ انسانیت کے مستقبل کیلئے خطرہ ضرور بنے ہوئے ہیں۔ ہم پہلے ہی خود کو کساد  بازاری، تصادم اور ماحولیاتی آفت کیلئے تیار کررہے تھے، لیکن ہم یہ اندازہ نہیں لگا سکے تھےکہ مالیاتی بحران اتنی تیزی سے ایک ڈرامائی شکل اختیار کرجاۓ گا۔

شاذونادر ہی ایسا ہوتا ہے، چودھویں صدی کا ’’سیاہ طاعون‘‘ اور 1918 کا ’’ہسپانوی فلو‘‘، کہ ایک بحران ہمہ وقت پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ سب سے قریبی مثال سابقہ صدی کی دو عالمی جنگوں کی دی جاسکتی ہے لیکن انہوں نے ملکوں کو مخالف بلاکس میں تقسیم کردیا تھا، جبکہ یہ وبا پوری انسانیت کیلئے ایک مخالف کے طور پر سامنے آئی ہے اور اس چیز کی ضرورت ہے کہ انسانیت اسکا حل بھی ایک ساتھ تلاش کرے۔

برطانیہ میں اس بحران نے حکومت کی نااہلی کا پردہ چاک کردیا ہے، جس نے شروع میں ’’اجتماعی مناعت‘‘ کا گمراہ کن بہانہ بناکے لوگوں کی زندگیوں کی حوالے سے مجرمانہ غفلت برتتے ہوئے سکول اور ٹیوب ٹرینیں کھلی رکھیں، جو وائرس کی افزائش کیلئے موزوں جگہیں ہیں اور دوسری جانب اس حکومت نے اپنے پسندیدہ سرمایہ دار ڈائسن کو فائدہ پہنچانے کیلئے امارات اور پورپی یونین کو سستے داموں سانس کے آلات بیچ دئیے اور عوام تو دور وائرس کے خلاف ہراول دستے کے طور پر خدمات انجام دینے والے صحت کے عملے کو بھی حفاظتی سامان اور ٹیسٹ کٹس مہیا نہیں کراۓ۔

اب اس جھٹکے نے فی الحقیقت پوری دنیا کو مفلوج کردیا ہے۔ پورا انسانی سماج خوف کی جکڑ میں ہے اور تاحال ہر کوئی سہما ہوا ہے۔ عوام کا فوری ردِعمل تو فی الحال حکومتی احکامات کی فرمانبرداری کا ہے، لیکن ایک بار جب یہ آفت ٹل جائیگی تو عین ممکن ہے اگلے مرحلے میں یہ غصہ ایک قیامت خیز انداز میں پھٹ پڑے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسےوقت میں جب لوگ مجبوراً ایک دوسرے سے علیحدہ ہوچکے ہیں، لوگوں نے ایک بار پھر عہدِ جدید کے کارپوریٹ میڈیا کی مصنوعی چکاچوند اور بہلاووں سے آگے بڑھ کر حقیقی انسانی تعلقات تلاش کرلیے ہیں۔ سماجی یکجہتی کے ایک نئے احساس نے جنم لیا ہے، جو ہمیں راتوں رات گلیوں محلوں میں رضاکارانہ طور پر بننے والے امدادی گروہ، فاصلہ برقرار رکھتے ہوئے بالکونیوں اور چھتوں پر گیتوں اور موسیقی کی محفلوں اور عالمی سطح پر عوام کی جانب سے صحت عامہ کے لیے کام کررہے محنت کشوں (ڈاکٹرز، نرسز اور پیرامنڈکس) کو پیش کیا گیا خراجِ عقیدت کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یہ سب ایک سوشلسٹ سماج کے جنم کی نفسیاتی بنیادیں اور آنے والے انقلاب کی قوتِ محرکہ ہیں۔

سرمایہ دارانہ حوس کے مقابلے میں ریاستی منصوبہ بندی کی برتری سب کی نظروں کے سامنے واضح ہوگئ ہے۔ کٹوتیاں کرنے والی پارٹی آج اربوں روپے کے امدادی پیکیجز دینے پر مجبور ہے۔ جس انداز میں پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے بعد ایک انقلابی لہر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، قوی امکان ہے کہ اس بحران کے ختم ہوتے ہی غم و غصے کی ایک ایسی عظیم لہر اٹھے جو اس گلے سڑے نظام کو نیست و نابود کرکے ہمیں ایک نئے سماج کی تعمیر کی جانب لے جائے۔

یہ ایک تاریخی موڑ ہے۔ لیکن یہ آنے والے انقلاب کی بنیادی وجہ نہیں ہے۔ اس بحران کے آنے سے پہلے ہی چار براعظموں کے درجنوں ممالک کی سڑکوں پر انتہائی دلیرانہ عوامی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں۔ جو آنے والے وقتوں میں اٹھنے والی عوامی شورشوں کا محض ٹریلر معلوم ہونگی۔

Roznama Jeddojehad
+ posts