اویس قرنی
پاکستان کا تعلیمی نظام پہلے ہی تباہ حال ہے لیکن کورونا کی وبا نے دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرح تعلیم کے شعبے کے دیوالیہ پن کو بھی واضح کر دیا ہے۔ پاکستان صحت اور تعلیم کے شعبہ جات میں سرکاری رقوم خرچ کرنے کے حساب سے انتہائی بدترین ممالک میں شامل ہے۔ سرکاری تعلیمی ادارے آبادی کے تناسب سے نہایت ہی قلیل ہیں جبکہ تعلیم بڑے منافع بخش کاروباروں میں شمار ہوتی ہے۔ اڑھائی کروڑ بچے ابتدائی تعلیم سے بے بہرہ سڑکوں کی خاک چھان رہے ہیں۔ چند بچے ہی کالج کی شکل دیکھ پاتے ہیں اور ان کا بھی صرف 9 فیصد یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل کر پاتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ کہ حالیہ تبدیلی سرکار نے گزشتہ برس سے تعلیم پر بے رحم حملے جاری کیے ہوئے ہیں اور 50 فیصد تک کا اعلیٰ تعلیمی بجٹ کاٹ دیا ہے۔ یہ پاکستان کے معمول کے ادوار کی صورتحال ہے۔
کرونا وبا نے اس شعبے کی دگر گوں کیفیت کو مزیدآشکار کر دیا ہے۔ سینکڑوں سال پرانے روایتی حربوں سے جدید تعلیم کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہاں تعلیم کا مقصد سیکھنا کم اور ڈگریوں کا حصول زیادہ ہے۔ کروڑوں روپوں سے حاصل شدہ یہ تمام ڈگریاں کورونا کے ان ہنگامی حالات میں بے معنی ہو گئی ہیں۔ مینجمنٹ سے لے کے مارکیٹنگ تک کے تمام شعبہ جات سماجی طور پر غیر متعلقہ ہو چکے ہیں۔ یہ شعبہ جات سماجی آگاہی کی مہم میں بنیادی کردار ادا کر سکتے تھے۔ لیکن جب تعلیم کا مقصد محض نوکریوں کا حصول ہو جہاں روایتی جمع نفی سے روزمرہ کے کام سر انجام دیے جاتے ہوں وہاں تخلیق دب سی جاتی ہے۔ اور جب سالہا سال کی مارکیٹنگ کی تعلیم کا مقصد صرف اور صرف منافع جات ہوں وہاں سماجی بہتری کے تصورات تخلیق نہیں کیے جا سکتے۔ یہی اس نظام کا بنیادی متناقضہ ہے۔ یہ صرف منافعے پر چلتا ہے اور اسی کے حصول کی تراکیب تخلیق کرتا ہے۔
حالیہ بحرانی کیفیت نے ایک موقع دیا ہے کہ تعلیم جیسے شعبہ جات کے اصل تاریخی مقاصد کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور مستقبل کی بہتر پیش بندی کی جا ئے۔ اس بحران نے پاکستانی حکمرانوں کو بوکھلاہٹ کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے اور جیسے کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کہا کرتے تھے کہ”حکمران طبقہ بحران سے نکلنے کا جو طریقہ استعمال کرے گا، غلط ہی کرے گا۔ “ تعلیمی اداروں میں طویل تعطیلات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور صورتحال ہو بھی نہیں سکتی تھی۔ لیکن جو اس کے بعد قدم اٹھایا گیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ان حکمرانوں کی دنیا اور پچھڑے ہوئے طبقات کے شب روز کے درمیان کتنی وسیع خلیج ہے۔ تمام آسائشوں سے آراستہ پرتعیش محلات میں زندگیاں گزارنے والوں کے اذہان عام لوگوں کی محرومیوں اور مجبوریوں کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ یہی ان کے اعلانات اور احکامات سے واضح بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام تعلیمی اداروں کو بند کرتے ہوئے آن لائن کلاسوں کے اجرا کا حکم دیا گیا۔ یہ حکم نامہ محروم طبقات کے ساتھ بھونڈے مذاق کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔
2018ء کے حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی 36 فیصد آبادی انٹرنیٹ کی سہولت سے مستفید ہوتی ہے جبکہ اس سال کی آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق یہاں کی 20 کروڑ آبادی (کُل آبادی کا 89 فیصد) انٹرنیٹ افورڈ کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستان ان بدترین چار ممالک میں شامل ہے جہاں سستی اور عام رسائی کے قابل انٹر نیٹ کی سہولیات نہیں ہیں۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ یہاں انٹرنیت جیسی بنیادی سہولیات کا حصول بھی طبقاتی نوعیت کا ہے۔ دور دراز کے قصبوں اور دیہاتوں میں اس بنیادی سہولت کا کوئی وجود نہیں یا اس کی سپیڈ اور سروس انتہائی ناقص ہوتی ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ مغربی ممالک کی ایک احمقانہ نقالی ہے جس سے نہ تو دوردراز کے طلبہ مستفید ہو سکتے ہیں اور نہ ہی متوسط طبقات کے حامل طلبہ روزانہ کے ہزاروں روپے کے انٹرنیٹ پیکیجز کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ ہاں البتہ ان اقدامات سے ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کی چاندی ضرور ہو گی۔ اس وبا کی ہنگامی صورتحال میں بھی مظلوم طبقات کے خون کے قطرے مسلسل نچوڑے جا رہے ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں شام کے اوقات میں ہاسٹل انتظامیہ انٹرنیٹ کے آلات بند کر دیتی ہے‘وہاں آن لائن کلاسز کے اجرا کے احکامات عجیب ستم ظریفی کے مترادف ہیں۔ انٹرنیٹ کی محدود رسائی کے بعد سب سے اہم سوال اس سہولت کے ذریعے کلاسز کا ممکنہ اجرا ہے۔ پاکستان کے چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر باقی ماندہ ملک میں تعلیم کا بنیادی انفراسٹرکچر ہی موجود نہیں ہے۔ سکولوں میں وائٹ بورڈ اور کرسیاں تو درکنار مناسب عمارات ہی نہیں جہاں تدریسی عمل کو جاری رکھا جا سکے۔ اساتذہ کی تعداد پہلے ہی کم ہے اور نیولبرل سرمایہ داری کے تحت نجکاری کے ذریعے اساتذہ کو نوکریوں سے نکالا جا رہاہے۔ اور اگر اسی کیفیت کو ہی مدنظر رکھا جائے تو اساتذہ میں بھی وہ تکنیکی صلاحیت ہی نہیں ہے جس سے آن لائن کلاسز کے اجرا کو یقینی بنایا جا سکے۔ یہ ایسے مسائل نہیں ہیں جن پر راتوں رات اعلانات سے قابو پایا جا سکے۔ نواز شریف حکومت کی لیپ ٹاپ تقسیم کی کمپئین کے باوجودطلبہ کی ایسی وسیع تعداد موجود ہے جو ابھی تک ان جدید آلات سے محروم ہے اور جن کو اس سہولت تک رسائی بھی ہے وہ ایسی مشینری کے مکمل استفادے سے قاصر ہیں۔ حکمران طبقہ محنت کش طبقات کے حالاتِ زندگی سے نہ صرف بے بہرہ ہے بلکہ ان اقدامات کے ذریعے وہ ان کا منہ چڑا رہا ہے۔
حالیہ بحران نے روایتی تعلیمی طریقہ کار کی کلی کھول دی ہے۔ سمسٹر سسٹم کی جارحیت بھی واضح ہو چکی ہے۔ پاکستان کی حالیہ طلبہ تحریک کا ایک اہم مطالبہ اسی روایتی سمسٹر سسٹم کا خاتمہ تھا۔ اب یہ نظام ایسے نہیں چل سکتا۔ حالات کے تقاضوں کے اعتبار سے اسے بدلنا ہو گا اگر یہ نہ بدلا گیا تو تاریخ میں پھر ایسے کئی مواقع آئیں گے جہاں آج کی طرح یہ پھر بند گلی میں کھڑا ہو گا۔ تکنیکی تعلیم، ڈپلومہ سسٹم اور مضامین کے جدلیاتی امتزاج کے ذریعے ہی ایک جدید سماج کی تعمیرممکن ہو سکتی ہے۔ آج کے بحران نے ثابت کر دیا ہے کہ ہر طالب علم کے لیے بنیادی طبی تعلیم اور جنگی تربیت کس قدر ضروری ہے۔
ان حالات میں یہ واضح ہے کہ پاکستان کی تاریخی طور پر نااہل سرمایہ داری میں تدریسی عمل کا جاری رہنا ناممکن ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسے اقدامات کی افادیت نہایت ہی متضاد نوعیت کی ہے۔ پاکستان کا موجودہ انفراسٹرکچر ابھی کسی متبادل طریقہ کار کا متحمل نہیں ہے اس لئے ان ہنگامی حالات میں تمام تر تدریسی عمل کو یکسر روک دیا جائے۔ اساتذہ کو مکمل تنخواہوں کے ساتھ چھٹیاں دی جائیں اور کسی قسم کی کٹوتی عمل میں نہ لائی جائے جبکہ طلبہ کی ادا شدہ فیسوں کو آئندہ فیس میں شمار کیا جائے۔
پاکستانی معاشرے میں تعلیم کا حتمی مقصد نوکریوں کا حصول ہے۔ ایسے میں اس ہنگامی صورتحال کے پیشِ نظر طلبہ کا پورے سمسٹر جتنا وقت ضائع ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ بعض تعلیمی شعبہ جات ایسے بھی ہیں جن میں عمر کی قید ہے۔ کورونا وبا سے آنے والے تعلیمی تعطل سے ہزاروں نوجوان ایسے ہوں گے جو مقررہ حد عمر سے تجاوز کرجائیں گے۔ چنانچہ ایسے امتحانات کو اس تعلیمی تعطل کو مد نظر رکھتے ہوئے تاخیرکے ساتھ منعقد کیا جائے۔ جبکہ باقی شعبہ جات میں مضامین کے کریڈٹ آورز کو آئندہ سمسٹر اور موسم گرما کے سمسٹر میں اس طرح ترتیب دیا جا ئے کے طلبہ پر ضرورت سے زیادہ بوجھ بھی نہ پڑے اور وہ مقررہ وقت میں اپنی تعلیم کو مکمل بھی کر سکیں۔
لیکن تدریسی عمل کے رکنے کا مطلب سیکھنے کا عمل بند ہونا نہیں ہے۔ بقول لینن ’زندگی سیکھاتی ہے‘اور آج کا انسان زندگی کے سب سے تلخ تجربات سے سیکھ رہا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا شعبہ آج سرمایہ داری کی متروکیت کا اعلان کر رہا ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ متروک نظام انسانوں کو روندتا چلا جا رہا ہے۔ سوشلزم سچ ہے۔ اور یہی نجات کا واحد راستہ ہے۔