خبریں/تبصرے

کرونا، مغالطے اور کوئٹہ کا ہزار گنجی کیمپ خطرے کی گھنٹی ہیں

عزیز خان بڑیچ

چینی ڈاکٹرز نے کرونا وائرس پر قابو پانے کا عندیہ دے دیا ہے لیکن چینی ڈاکٹرز یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جب تک اس وائرس کو رام کرنے کیلئے کوئی ویکسین نہیں بنائی جاتی اور جب تک اس روئے زمین پر موجود کسی ایک بھی انسان میں یہ وائرس موجود ہے تب تک نہ تو چین اور نہ ہی دنیا کے کسی اور ملک میں کسی بھی انسان کو محفوظ گردانا جاسکتا ہے۔

کرونا وائرس کی یلغار کے ساتھ ہی اس وائرس کے بارے میں بہت سی صحیح اور غلط معلومات انٹرنیٹ پر فراہم کی جانے لگیں۔ ان غلط اور غیرسائنسی معلومات کے اثر سے صرف ایسے لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں جن کا علم وائرس، بیکٹیریا یا مائیکرو آرگنزمز کے بارے میں وسیع ہے۔ وہ لوگ جن کا علم اس حوالے سے ناکافی تھا، انکے پاس سوائے غلط معلومات کو سچ مان کے مغالطے میں مبتلا ہوجانے کے دوسرا کوئی بھی راستہ نہیں تھا۔

غلط معلومات کی بنیاد پر جہاں عام لوگ مغالطے کے شکار ہوئے، وہاں اچھے خاصے پڑھے لکھے حکومتی اہلکار بھی اس کا شکار ہوگئے۔ پاکستان جیسے ملک میں تو بعض اوقات حکومتی اہلکاروں نے اس وائرس کی روک تھام کیلئے انہی غلط معلومات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسیاں وضع کرلیں۔ اس کی ایک مثال بلوچستان گورنمنٹ کا تفتان کی بجائے کرونا وائرس کیمپ کو ہزار گنجی منتقل کرنا ہے۔ ہزار گنجی میں کچھ خیمے لگادئے اور بغیر چاردیواری اور سکیورٹی کے معاملہ نپٹا دیا گیا۔ یہ اتنا بڑا خطرہ مول لیا گیا ہے کہ ا بھی اندازہ لگانا مشکل ہے۔

اس غیرمحفوظ کیمپ میں اُن ڈاکٹروں کا جانا مشکل ہوگا کہ جو اس وائرس کا اچھی طرح سے علم رکھتے ہیں کیونکہ انکو یقین ہے کہ وائرس سے کسی بھی طور بچ نہیں پائیں گے۔ دوم، ایسے غیرمحفوظ کیمپ کہ جہاں سے کوئی بھی مریض بہ آسانی شہری آبادی میں آ جاسکتاہو، ایسی جگہ سے وائرس کو مختصر عرصے میں بے قابوہونے سے کون سی قوت روک سکتی ہے؟ کوئٹہ کے شہریوں کو اگر واقعی اپنے عزیز و اقارب پیارے ہیں تو وہ اس غیرمحفوظ کیمپ کے قیام بارے ان تحفظات بارے غور و فکر کریں۔ حکومتی اہلکار شاید ان غلط معلومات یا مغالطے کا شکار ہیں کہ کچھ دنوں بعد موسم کے بدلنے سے یہ وائرس گرمی کی شدت سے خود بخود مرجائیگا۔ یہ بات کتنی درست ہے؟ اس کا جواب جاننے کے لئے وائرس کی حقیقت جاننا ضروری ہے۔

وائرس دیگر تمام جاندار کہلائی جانے والی مخلوقات سے اس صفت میں علیحدہ ہے کہ جب یہ اپنے میزبان(دیگر جاندار) کے جسم کے اندر ہوتاہے تو یہ زندہ خصوصیات کا حامل ہوجاتاہے کیونکہ کسی زندہ جاندار کے جسم میں وائرس اپنی نسل بڑھانے کے اہل ہوتاہے اور جب وہ میزبان سے باہر آتا ہے تو بے جاندار بن جاتا ہے۔

اسی جاندار کے سیلز کی مشینری کو بروئے کار لاکے یہ وائرس اپنے ڈی این اے کی کامیاب ریپلیکیشن کا مظاہرہ کرکے ایک سے دو، دو سے چار اور چار سے آٹھ میں خود کو تقسیم در تقسیم کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی اس بڑھتی ہوئی تعداد کی بدولت اس خلیے یا سیل کہ جس میں یہ موجود ہے، کو توڑ پھوڑ کے اسے تباہ کردیتاہے۔ اسکے برعکس اگر یہ وائرس کسی جاندار جسم سے باہرہے تو اسے بیالوجی کی زبان میں زندہ شمار ہی نہیں کیا جاتا بلکہ جسم سے باہر یہ مردہ ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ کسی میزبان خلیے یا جسم کے باہر یہ وائرس اپنی نسل بڑھانے کے اہل نہیں۔

اس وائرس کے حملہ آورہونے کے کچھ ہی دن بعد چائنا کے سائنسدانوں نے اسکے ڈی این اے کی تشکیل یا کوڈ انٹرنیٹ پر ڈال دیا تاکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والا کوئی قابل سائنسدان اسکی روک تھام والی ویکسین بنانے میں جت جائے اور انسانوں کا اس وائرس کے ہاتھوں کم سے کم نقصان ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ساتھ ساتھ میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس ویکسین کی تیاری اور ترسیل میں دو سے اڑھائی سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس دوران شاید یہ وائرس اتنی انسانی جانیں لے چکا ہو گا کہ اندازہ لگانا مشکل ہو گا۔

ویکسین کے علاؤہ اس وائرس کو انسانی جسم کے اندر مارنے کا کوئی بھی طریقہ نہیں کیونکہ وائرس کو ہمارے جسم کے اندر مارنے والی ادویات میں شامل کیمیکلز میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ اس وائرس کے اردگرد مخصوص پروٹین سے بنے سخت کوٹ کو پھاڑ کر اسکے اندر موجود اسکے ڈی این اے کو سیل کے اندر ہی نیست و نابود کردے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اتنی طاقتور ادویات یا کیمیکلز وائرس تک پہنچنے سے پہلے ہی ہمارے جسم کا ہر اک نظام درہم برہم کردینگے۔

اس لئے کرونا وائرس سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے(ویکسین) جسکی مدد سے ہماری قوتِ مدافعت اس وائرس کو پہلے پہچان لے اور پھر فطری طور پر خود کو اتنا توانا کردے کہ جسکے بعد اگر یہ وائرس باہر سے حملہ آور بھی ہوجائے توہماری قوت مدافعت اس کو اسی وقت نیست و نابود کردینے کی کامیاب حکمت عملی وضع کرنے کی قوت رکھتی ہو۔

یاد رہے فطری طور پر ہماری قوت مدافعت دنیا میں موجود لاکھوں اقسام پر مشتمل مائیکرو آگنزمز کے سامنے وقت کے ساتھ ساتھ انہی خطوط پر اب تک نبردآزماہوتی آئی ہے۔ جب انسان نے اپنی قوت مدافعت سے اگر کم وقت میں اتنے بڑے کام لینے ہوں تو ویکسین کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ تو میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اس وائرس نے کسی بیس یا تیس ڈگری کے درجہ حرارت پر مرنا نہیں ہے۔ اک مرے ہوئے کو بیس یا تیس ڈگری کی گرمی کیا ماریگی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وائرس کو ختم ہونے کیلئے آگ جتنی تپش درکار ہوگی۔ دوسری بات، کرونا کے مریض کے استعمال کی ساری چیزوں کو جلائے بغیر بات نہیں بنے گی۔ یہ وبا اگر بے قابوہو گئی تو نتائج کا سوچ کر بھی انسان کانپ جائے گا۔  

Aziz Khan Barich
+ posts

عزیز خان بڑیچ کا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ زوالوجی میں ماسٹرز کیا ہے اور بائیں بازو کے سیاسی کارکن ہیں۔