عمر شاہد
جہاں کورونا وبا نے پوری دنیا میں معاشی اور سماجی سرگرمیوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، وہاں اس نے شرح منافع کے فلسفے پر مبنی جدید صنعتی سماج کی بنیاد پر قائم سرمایہ دارانہ تہذیب کے بحران کو بھی عیا ں کیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی سماجی پیداوار کو بروکار لاتے ہوئے نجی اور ذاتی منافعوں کے انبار لگانا ہے جس میں یہ سمجھا اور باور کروایا جاتا ہے کہ پوری کائنات کا مرکز صرف انفرادی طور پر انسان ہی ہے اور قدرت کے تمام ذرائع کا حتمی مقصد منافعوں میں بتدریج اضافہ ہے۔ لیکن قدرت کے اپنے قوانین ہیں جس کے تابع ہی انسان زندگی گزار سکتا ہے۔ طبع پیداوار محض افراد کے پیداواری عمل کی بجائے سماجی سرگرمیوں کی ایک مجتمع شدہ شکل ہے۔ جیسا مارکس نے بیان کیا تھا کہ”افراد کی فطرت ان کی پیداوار کا تعین کرنے والے مادی حالات پر منحصر ہے۔ “ یہاں یہ بھی اہم نقطہ ہے کہ مارکس نے انسان کو قدرت سے الگ تھلگ آزادانہ کردار کی بجائے قدرت کے ایک اہم حصہ کے طور پر بیان کیا۔ اینگلز نے اس مظہر کی وضاحت ان الفاظ میں کی ”انسان اور جانور میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جانور قدرت کے مہیا کردہ ماحول میں خود کو ڈھال لیتا ہے جبکہ انسان اس ماحول کو اپنے مطابق ڈھالتا ہے۔ “ انسان روز اول سے ہی اپنے بچاؤ کے لئے فطرتی مظاہر کے خلاف صف آرا رہا ہے۔ غاروں میں رہنے سے لے کر انسانی تہذیب کے ارتقا تک مختلف مراحل تک میں انسان نے ایک لازوال جدوجہد کی ہے۔ اس میں یہ کافی حد تک کامیاب رہا اور اس کاوش کے نتیجے میں جدید انسانی تہذیب کا قیام عمل میں آسکا۔
تاہم یہ سارا عمل جدلیات کے اصولوں کے تابع جاری رہا۔ سرمایہ داری میں جہاں ایک طرف فطرت کو بے رحمی سے برباد کیا گیا تو وہیں پر فطرتی مظاہر کو نئی شکلوں میں ڈھال کر اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے استعمال کیا جا تا رہا۔ فطرت کا ماحولیاتی نظام اپنے اصولوں کے مطابق تمام اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بناتا ہے۔ خلیات پیدا اور ختم ہوتے ہیں پھر یہ آپس میں جڑ کر نئی اشکال کو جنم دیتے ہیں۔ اس پیچیدہ نظام کی اہم خصوصیت اس کا تولیدی عمل ہے جو کہ صدیوں سے ایک ربط کے تحت اپنے آپ کو مزید وسیع کر رہا ہے۔ چھوٹے خلیات، بیکٹیریا اور وائرس سے لے کر بڑے جانداروں کے پیچیدنظاموں تک ہر جگہ فطرت نے ایک باہمی ربط سے کنٹرول کیا ہوا ہے۔ لیکن انسانی تہذیبوں کا ظہور طبقاتی سماجوں سے ہوا۔ زرعی معاشروں کی تشکیل نے فطرت کے اس ماحولیاتی نظام پر ضرب کاری کرتے ہوئے اس کو اپنے مطابق ڈھالنا شرو ع کیا۔ جنگلات صاف کرتے ہوئے میدانی علاقے تشکیل دیے گئے جہاں انسانی ہاتھ سے فصلیں اور اناج اگانے کا عمل شروع کیا گیا۔ اس عمل میں جنگلی جانوروں کو بھی اپنے مطابق ڈھالنے کے لئے ان کو پالنے کے عمل کا آغاز ہوا۔ جنگلی حیاتیات کا قدرتی مسکن ختم کرکے ان کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کیا گیا۔ مثال کے طور پر گارڈین اخبار کی 2018ء کی ایک تحقیق کے مطابق کرہ ارض پر 7.6 ارب انسان تمام زندہ اشیا کا صرف 0.01 فیصد ہیں۔ انسانی تہذیب کے آغاز سے لے کر اب تک دنیا کی 83 فیصد جنگلی حیاتیات (جانور اور پودے) ناپید ہو چکے ہیں۔ اس ریسرچ کے مطابق آج زمینی سیارے کے کل پرندوں میں سے 70 فیصد پولٹری فارمنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ممالیہ جانوروں میں 60 فیصد پالتو بن چکے ہیں جبکہ صرف 4 فیصد جنگلی جانور رہ گئے ہیں۔ باقی 36 فیصد انسان خو د ہیں۔ اس سے کئی ایسی بیماریاں انسانی سماجوں میں داخل ہوئیں جو کہ پہلے ناپید تھیں۔ جیسے آج بھی انسانی سماج میں سب سے بدترین بیماری انفلوئنزا سمجھی جاتی ہے جو کہ تیزی سے پھیلنے والی وبا ہے۔ انفلوئنزا کا قدرتی ذخیرہ عام طور پر پرندے اور خاص طور پر پانی میں مسکن رکھنے وال پرندے سمجھے جاتے ہیں۔ یہ بات 1970ء میں امریکی ماہر رچرڈسلیمن کی تحقیق سے سامنے آئی جب اس نے جنگلی بطخ سے انفلوئنزا کا وائرس دریافت کیا۔ قدرتی آبی ذخیروں میں ایک خاص نظام موجود ہے جس میں وائرس اپنے میزبان کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائے بغیر اپنی زندگی کا دور مکمل کرنے کا انتظام خود کرتا ہے اور بغیر کسی مرض کی سنگین علامات دکھائے تلف ہو جا تا ہے۔
زرعی انقلاب کے بعد جب جنگلی جانوروں کو پالنے کا سلسلہ شروع ہوا تو ان کی بیماریاں انسانوں میں منتقل ہونا شروع ہو گئیں۔ وائرس بھی طفیلی جانداروں کی مانند ہوتے ہیں جن کی حیات اپنے میزبان سے ملنے والی غذا پر منحصر ہوتی ہے۔ انسانی تہذیبوں کے ارتقا سے جب آبادی میں اضافہ ہوتا گیا تو یہ انفلوئنزا وائرس بھی قدرتی عمل میں مختلف شکلیں بدلتے ہوئے طاقتور ہوتے گئے۔ انسان کی قوت مدافعت بھی ان کے آگے جواب دینے لگ گئی اور یہ آبادیوں میں پھیلتے ہوئے ایک وبا کی شکل اختیار کرتے گئے اور اب عالمی پیمانے پر وباؤں کے خطرات زیادہ منڈلا رہے ہیں۔ اس مظہر کا اظہار پچھلے عشرے میں ایبولا، ڈینگی، ’MERS‘، ’SARS‘ اور اب حالیہ کورونا وائرس کی شکل میں ہو رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام جہاں ایک طرف انسانی سماجوں کو آگے کی طرف لے جانے میں ایک بڑا قدم تھا وہیں پر یہ اپنی اساس میں استحصال پر مبنی معاشرہ ہونے کی وجہ سے اربوں انسانوں کی زندگیوں کو منفی طور پر متاثر کر رہا ہے۔ لینن نے اسے ایک نہ رکنے والی وحشت پر مبنی نظام کہا تھاجس میں آبادی کی ایک بڑی تعداد زندہ رہنے سے بھی عاجز آ جاتی ہے۔ اٹھارویں صدی میں صنعتی انقلاب کے بعد نوآبادیاتی نظام کی تشکیل ہوئی تو یورپی لوگ پوری دنیا میں اپنے ساتھ نئی بیماریاں بھی لے کر گئے۔ سامراجیت نے جہاں پر سماج تاراج کیے وہیں پر پسماندہ معاشروں کے انسانوں پر معاشی اور سماجی بربادی کے ساتھ کئی بیماریاں اور وبائیں بھی لائی۔ جیسے برطانوی سامراج کے دوران برصغیر میں ہیضہ کی وجہ سے لاکھوں افراد کی اموات ہوئیں۔ براعظم امریکہ میں متعدد وبائی امراض سے آبادی کا صفایا ہو گیا (یا کیا گیا)۔ افسوس سے اس صورتحال میں بیمار ہونے والے مقامی فرد کی بیماری کی تشخیص اور علاج کی بجائے اس کو علیحدہ کرکے مار دیا جاتا اور بیماری پھیلنے پر ریڈ انڈینز کی پوری پوری بستیوں کو بھی نذر آتش کیا جا تا رہا۔ لیکن انسانی تاریخ کی سب سے خطرناک وباؤں میں ہسپانوی فلو کو بھی شامل کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے سب سے پہلی موت پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانوی وزیر اعظم اور جنگی’ہیرو‘ ڈیوڈ لائیڈ جارج کی ہوئی۔ 1918ء میں ہسپانوی بادشاہ الفوزو میڈرڈ میں اس مرض سے بیمار ہوا۔ اس وبا سے دنیا بھر میں 1918ء کے موسم بہار سے لے کر 1919ء کے موسم خزاں تک تقریباً 50 ملین سے 100 ملین تک افراد کی اموات ہوئیں جو کہ پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں مرنے والوں سے بھی زیادہ ہیں۔ اس وبا کے پھیلانے میں اہم عنصر عالمی جنگ کے دوران افواج کی نقل و حمل اور جنگی قیدیوں کا رہا ہونا تھا۔ آبادیوں میں یہ بڑی تیزی سے پھیلتا گیا اور اس کے خلاف کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ شعبہ طب کے حتمی مقصد کا محض بادشاہوں اور امرا کی جان بچانا تھا۔ اس وقت پبلک ہیلتھ کا شعبہ تک سرمایہ دارانہ ممالک میں نہیں تھا۔ سرمایہ داری کے فلسفے میں اہم ’یو جینکس‘ رہا ہے جس کے مطابق عمدہ انسان پیدا کرنے کی طرف ساری توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ان کے مطابق غریب محنت کش اگر کسی خطرناک بیماری کا شکار ہو جائیں یا مر جائیں تو اس کی وجوہات پھر ان میں موروثی طور پر موجود ہیں جبکہ سماجی حالات کوئی اثر نہیں کرتے۔ ان ممالک میں زیادہ تر ڈاکٹر اپنا شفاخانہ خود چلاتے یا پھر مذہبی اداروں یا عطیات پر کام کرتے تھے۔ زیادہ تر افراد کے پاس ان کی رسائی تک نہ تھی۔ 1918ء کی عالمی وبا نے اس وقت طب کے شعبے کو مکمل طور پر جھنجوڑ دیا۔ جب یہ وبا پھوٹی تو ان کے پاس کوئی ٹیسٹ یا ویکسین وغیرہ نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وبا پھیلنے کے نتیجے میں صحت کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے صرف فوجیوں اور امرا کو بچانے کی کوششیں کی گئیں۔ عوام اور محنت کشوں کی بڑی تعداد کو بخار کے نتیجے میں صرف نمک والا پانی پینے اور آبادی سے علیحدہ رہنے کے مشورے دیے گئے۔
اس سارے منظر نامہ کو اسی دوران ہونے والے بالشویک انقلاب نے تبدیل کر دیا۔ پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد روس میں بالشویک پارٹی کی قیادت میں ہونے والے انقلاب کے نتیجے میں دنیا میں پہلی مرتبہ محنت کشوں اور مظلوم عوام نے براہ راست اقتدار پر قبضہ کیا۔ سوویت روس میں 3 ملین ہلاکتیں ہوئیں اوربرطانوی ہندوستان میں 18 ملین افرادمحض سامراجی اقدامات کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ انقلاب کے بعد سب سے پہلے اقدامات میں عوامی بنیادوں پر مفت صحت کا نظام متعارف کروایا گیا اور مرکزی طور پر گریگوری کمینسکی پہلے پیپلز کمیسار برائے صحت عامہ تعینات ہوئے۔ انقلاب کے بعد خانہ جنگی اور قحط کی بربادیوں کے باوجو عوامی صحت کے شعبے کا نظام استوار کیا جانے لگا۔ ہر سوویت اور فیکٹری کی سطح پر بنیادی صحت کے مراکز کی بنیاد رکھنے کے کام کا آغاز کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر بربادیوں کے باوجود سوویت یونین دنیا کا پہلا ملک بنا جس نے ہسپانوی فلو کو شکست دی اور ہیضہ جیسے مہلک مرض کا خاتمہ کیا۔ انقلاب کے 20 سال کے اندر ہی سوویت یونین کا صحت کا نظام دنیا بھر میں صف اول میں شمار کیا جانے لگا۔ اس نظام کا مقصد ’بیماریوں کے خلاف انسانی مدافعت‘ کو مضبوط کرنا تھا۔ اس سلسلے میں سوویت یونین میں ویکسین اور ریسرچ پر خاص توجہ دی گئی۔ ہر محنت کش کا ریاست کی جانب سے ہفتہ وار چیک اپ لازمی تھا اور غذائی ضروریات کے ساتھ صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل کیا جا تا رہا۔ ملک میں 1921ء میں شروع کی جانے والی ملیریا کے خلاف مہم اتنی کارگر تھی کہ عالمی ادارہ صحت نے 1950ء کے بعد پوری دنیا میں سوویت طرز پر مہم چلائی۔ چند سالوں میں ہی وبائی امراض ماضی کا قصہ ہو گئیں۔ یہ نہیں تھا کہ وبائیں یا بیماریوں وجود نہیں رکھتی تھیں بلکہ سوویت صحت کے نظام نے ان بیماریوں اور وباؤں کو کم از کم نقصان کے ساتھ بروقت قابو کر لیا تھا۔ بالشویک انقلاب کے بعد ہی پوری دنیا میں شعبہ طب کو سماجی سوال کے طور پر لیا گیا اور پوری دنیا میں وفاقی بنیادوں پر پہلی دفعہ صحت کے شعبہ کے ذمہ داروزیر کی تعیناتی شروع کی گئی۔ یورپ کے سویڈن، ناروے اور ڈنمارک وغیرہ جیسے ممالک نے تو اپنا پورا صحت عامہ کا نظام سوویت یونین کی طرز پر قائم کیا۔ برطانیہ جیسے جدید صنعتی ملک میں 1948ء میں کہیں جا کر نیشنل ہیلتھ سروس قائم کی گئی۔ امریکی سامراج کی جانب سے اسے ’سوشلسٹ ساز ش‘ قرار دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں ریاستی بنیادوں پر صحت کے عوامی نظام کی بجائے نجی انشورنس پر مبنی صحت کا نظام متعارف کروایا گیا جو آج بھی دنیا میں مہنگا ترین ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک میں ناقص ترین شمار ہوتا ہے۔
آج ایک صدی گزرنے کے باوجود دنیا کورونا وائرس کی وبا کے خلاف ایک بار پھر بے بس نظر آتی ہے جس کی اہم وجہ سوویت یونین کے زوال کے بعد پوری دنیا میں صحت کے شعبے کی نجکاری کا عمل ہے۔ صحت کے نظام کو سرمایہ داروں کی لونڈی بنا کر رکھ دیا گیا ہے جہاں شرح منافع کی خاطر وہ زندگیوں اور زخموں کی تجارت کر رہے ہیں۔ تاریخ نے آج پھر ثابت کیا ہے کہ اصل بحران کی وجہ کورونا وائرس نہیں بلکہ یہ لوٹ مار پر مبنی سرمایہ داری نظام ہے۔ آج انسانیت کو بچانے اور کورونا جیسی وبائی امراض سے لڑنے کا واحد راستہ منصوبہ بند معیشت پر مبنی سماج کا قیام ہے جہاں پر انسان منافع خوری کی نفسیات سے آزاد ہو کر انسانی ضروریات کی تکمیل کی طرف گامزن ہو سکے۔