عمار علی جان
کوئٹہ میں احتجاج کرنے والے ڈاکٹروں پر لاٹھی چارج کسی دھچکے سے کم نہیں۔ ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو بغیر حفاظتی لباس کے فرائض ادا کرنے پر مجبور کرنا ہی کیا کم مجرمانہ فعل تھا کہ اب ان پر ڈنڈے بھی برسائے جا رہے ہیں۔ صورتِ حال ڈاکٹر اسامہ کی موت کے باوجود جوں کی توں ہے۔ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان ڈاکٹر اسامہ اس معاشرے کو کرونا وائرس سے بچاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے کیونکہ ان کے پاس مناسب حفاظتی لباس نہیں تھا۔
اسامہ کی موت کے بعد بھی حکومت نے ڈاکٹروں کی حفاظت کے لئے کوئی اقدامات اٹھانے میں کسی قسم کی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اگر ڈاکٹر حضرات بغیر مناسب حفاظتی تدابیر کے فرنٹ لائن پر خدمات سر انجام دینے سے کترا رہے ہیں تو ان کا رویہ بالکل حق بجانب ہے۔ ایک ایسے موقع پر کہ جب ڈاکٹروں کو مسلح کرنے میں ہمیں کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہئے، ایسے میں ان پر لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں۔ اسے بے رحمی اور نالائقی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے۔
اگر حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ اس کے پاس ڈاکٹروں کی حفاظت کے لئے سامان مہیا کرنے کے لئے وسائل نہیں ہیں تو کسی کو بھی اس بہانے پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے پاس اس وقت تو وسائل کی کوئی کمی نہیں ہوتی جب ہم نے جہانگیر ترین کو معیشت کی لوٹ مار کے ذریعے مال بنانے کا موقع فراہم کرنا ہوتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ سے پیسے بنانے والے سیٹھوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے ٹیکسوں میں چھوٹ دینی ہو تو بھی وسائل میں کمی کا بہانہ نہیں بنایا جاتا۔ وہ اسلحہ خریدنا ہوجو بسا اوقات اپنے ہی شہریوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہوتا ہے تو بھی وسائل کی کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔ آ جا کے ڈاکٹروں کی دفعہ ہی وسائل کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ایک پولیس سٹیٹ اپنے شہریوں کے ساتھووہی سلوک کرتی ہے جو ممکنہ دشمنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہیلتھ ورکرز نہ صرف کرونا وائرس کے خلاف لڑائی کی قیادت کر رہے ہیں بلکہ وہ اس مستقبل کی بھی امید ہیں جس میں شہریوں کی فلاح و بہبود کو اشرافیہ کی منافع خوری پر ترجیح دی جائے گی۔ ان کی اس جدوجہد میں ہمیں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہئے!