علی رضا
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کے باعث صنعتی سرگرمیاں رک جانے اور ٹریفک کی بندش کے بعد پوری دنیا میں ماحولیاتی آلودگی میں حیران کن حد تک کمی آئی ہے۔
کرونا وائرس کی ابھی تک کوئی مستند دوا دستیاب نہیں اس لیے اس سے بچنے کا واحد رستہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہے۔ انھی وجوہات کے پیشِ نظر بیشتر ممالک نے لاک ڈاؤن کر دیا ہے اور کچھ نے اپنی معاشی و سماجی سرگرمیاں کافی حد تک محدود کر دی ہیں۔
فیکٹریوں اور ٹریفک کے دھوئیں میں کمی کے باعث فضا میں مختلف زہریلی گیسوں میں بہت زیادہ کمی آئی ہے۔ ناسا کے مطابق ماحولیاتی آلودگی میں کمی کا تناسب پیرس میں 64، بنگلورمیں 35، سڈنی میں 38، لاس اینجلس میں 29 اور ڈربن میں 9 فیصد ہے۔
فضا کے صاف ہونے کے باعث انسانی آنکھ سے ایسے ایسے مناظر دیکھے جا رہے ہیں، عام حالات میں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ فضا اس قدر صاف ہو گئی ہے کہ کئی سالوں بعد جالندھر سے ہمالیہ کی چوٹی صاف نظر آ رہی ہے۔ ہمالیہ جالندھر سے سو میل کے فاصلے پر ہے۔ پاکستان میں بھی فضا کے صاف ہونے سے بہت سی تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ منگل کے روز ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے وائلڈ لائف کے نمائندے نے بتایا کہ اسلام آباد کے گرد ونواح میں کئی سال بعد چیتا، کوبرا اور کئی دوسرے جانوروں کو دیکھا جا رہا ہے۔ لاہور میں بھی آسمان پہلے سے زیادہ نیلا دکھائی دے رہا ہے۔
انسانی سرگرمیوں کے محدود ہونے کے باعث پوری دنیا میں سڑکوں اور گلیوں میں بہت سے جنگلی جانور بھی دیکھے جا رہے ہیں۔ انڈیا کی بھی کئی سڑکوں اور گلیوں میں بندروں کی ایک بڑی تعداد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ دن پہلے ویلز میں بکریوں کو شہر کی گلیوں میں بے خطر گھومتے ہوئے دیکھا گیا۔
ایسے مناظر کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن حاصل بحث یہ کہ فطرت کی قیمت پر مزید ’ترقی‘ کا سرمایہ دارانہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔