لاہور (پریس ریلیز/جدوجہد رپورٹ) پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے حکومت کے زرعی شعبہ کے اعلان شدہ 50 ارب روپے کے پیکیج کو رد کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ زرعی شعبے کے لئے کم ازکم پانچ سو ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا جائے اور اس کا فائدہ براہِ راست ان تمام چھوٹے کسانوں اور زمین داروں کو پہنچایاجائے جن کو کرونا وباکی وجہ سے زبردست مالی نقصانات ہوئے ہیں۔
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے رہنماؤں فاروق طارق، محسن ابدالی، رؤف لنڈ، محمد طارق، میاں محمد اشرف اور صائمہ ضیا نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے منظور کردہ زرعی پیکیج ناقص منصوبہ بندی اور غیر عوامی ترجیحات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ان رہنماؤں نے کہا کہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے کرونا کے پھیلاؤ کے آغاز سے ہی کسانوں اور مزارعین کیلئے براہ راست ریلیف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اس پیکیج کے ذریعے حکومتی امداد کی رقم پھر سے ارب پتی سرمایہ داروں کو دئیے جانے کا منصوبہ ہے۔ یہ رقم کرونا ریلیف فنڈ سے زرعی شعبے کیلئے مختص کی گئی ہے اور یہ کوئی باقاعدہ زرعی پیکیج نہیں ہے۔ لہٰذا اسکی تقسیم کا طریقہ کار اور نوعیت بھی مختلف ہونی چاہئے، یہ رقم ان لاکھوں کسانوں میں تقسیم کی جائے جنہوں نے اس معاشی لاک ڈاؤن کے باعث نقصان اٹھایا ہے۔ جن میں سبزیوں، پھلوں، پھولوں کی کاشت کرنے والے اور دودھ و پولٹری کا کام کرنے والے کسان سر فہرست ہیں۔ جبکہ اس منظور شدہ پیکیج میں چھوٹے کسانوں کے نقصانات کا ذکر تک نہیں کیا گیا کیونکہ یہ 50 ارب روپے بینکوں، صنعتوں، قرضوں اور ٹریکٹر فیکٹریوں پر صرف کرنے کا منصوبہ ہے۔ کسان جنہیں ان حالات میں فوری ریلیف درکار ہے کے بارے میں اس حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی جبکہ حال ہی میں بڑے پیمانے پر جو آٹا اور چینی بحران مارکیٹ میں پیدا کیا گیا وہ ایسی ہی حکومتی ترجیحات کا نتیجہ تھا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ رقم چھوٹے کسانوں، مزارعین اور خاص طور پر وہ کسان جنکی فصلیں اس لاک ڈاؤن کے باعث تباہ ہوئیں، ان کو براہ راست فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنی فوری ضروریات زندگی کا بندوبست کرسکیں جو ان کی بقا کیلئے ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پیکیج کپاس کی فصل کے گرد ہی گھومتا ہے جبکہ پیش گوئی یہ کی گئی ہے کہ بیرونی مارکیٹس کو ابھی مکمل طور پر بحال ہونے میں بہت زیادہ وقت لگ سکتا ہے، پچھلے سال بھی اسی تناظر میں درجنوں ٹیکسٹائل فیکٹریاں بند اور لاکھوں مزدور بیروزگار ہوئے تھے اور یہی اثرات زراعت تک پہنچے اور ابھی تک کسانوں کو صنعتکاروں کی جانب سے معاوضہ نہیں دیا گیا۔ یہ حکومت بجائے اسکے کہ نئی اور تنوع الاقسام زرعی رحجانات متعارف کروائے انکی یہ پالیسی پھر سے لاکھوں کسانوں اور مزدوروں کو پرانی دلدل میں پھنسانے کی کوشش ہے۔
کسان رابطہ کمیٹی کے ر ہنماؤں نے کہا کہ آج قدرتی پائیدار طریقہ کاشت کاری متعارف کروانے کا وقت ہے تا کہ کسانوں کے پیداواری اخراجات کم ہوں اور ان کی آمدنی میں اضافہ ہو مگر حکومت کی ابھی تک سوچ کھادوں اورزہریلی ادویات کے گرد ہی گھومتی ہے جو پہلے سے ہی ہماری زمین اور ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکی ہے۔ حکومت کو چند سرمایہ داروں کی فکر کرنے کی بجائے تیزی سے بدلتے قومی اور بین الاقوامی معاشی تناظر کے پیش نظر زرعی شعبہ میں سنجیدہ اور ترقی پسند تبدیلیاں کرنا ہونگی، یہ وقت فکر و عمل اور پالیسی سازی میں بنیادی اور ٹھوس تبدیلیوں کا ہے۔