فاروق طارق
چند دن پہلے پی آئی اے میں لازمی سروس ایکٹ کا نفاذ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے نفاذ کا مطلب ہے کہ ٹریڈ یونین پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پائلٹوں اور انجینئرز کی ایسوسی ایشنز پر بھی پابندی لگادی گئی۔ اس پبلک سیکٹر ادارے میں جمہوری حقوق کا گلا گھوٹنے کا مطلب ہے کہ ایک ائر مارشل نے فضائی مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔
یہ سب کچھ ادارے کے فوجی سربراہ کی اس ذہنیت کے عین مطابق کیا گیا کہ حکم حاکم کو کوئی چیلنج نہ کرے۔ ائر مارشل ارشد ملک کو جیسے ہی سپریم کورٹ نے کام کرنے کی اجازت دی، پہلا گندہ کام انہوں نے یہ کیا کہ ٹریڈ یونین کی پیٹھ میں خنجر گھونپا۔ مقصد یہ تھا کہ کرونا آفت کے اس دور میں پی آئی اے کے جہاز چلا کر خوب پیسے کمائے جائیں۔ ٹکٹیں انتہائی مہنگی کی گئیں۔ سویلین ادارے کے ایک فوجی سربراہ نے لوگوں کی مجبوریوں سے خوب فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی تھی اور کرونا بحران کے باوجود جلدی جلدی میں پی آئی اے کی پروازوں سے پابندی اٹھا لی گئی۔
حادثے کی شام ہی کچھ ٹی وی چینلز یہ خبر دے رہے تھے کہ حادثے کا شکار ائر بس میں پہلے سے ہی فنی خرابی تھی، اس بابت انجینئر نگ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے متعدد بار انتظامیہ کو خطوط لکھے گئے تھے۔ ذرائع کے مطابق انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے متعدد بار پرزے منگوانے کی درخواستیں دی گئی تھیں۔ لاہور سے ٹیک آف سے پہلے بھی اس طیارے کے انجن میں خرابی پیدا ہوئی تھی۔ پی آئی اے کے کپتان کے پاس جہاز نہ چلانے کے اختیارات اس لازمی سروس ایکٹ کے بعد ختم ہو چکے تھے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جہاں ٹریڈ یونین نہ ہوں وہاں حادثے بڑھ جاتے ہیں۔
پی آئی اے کے فوجی سربراہ نے حادثے کے فوری بعد پہلی پریس کانفرنس میں کہا کہ جہاز میں تو کوئی خرابی نہ تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ذمہ داری اس بہادر پائلٹ پر ڈال دی جائے جو آخری لمحے تک جہاز کو رن وے تک لے جانے کی کوشش کرتا رہا۔
ہماری تمام تر ہمدردیاں ان مسافروں کے لواحقین کے ساتھ ہیں جو آج عید سے پہلے اس حادثہ میں جاں بحق ہوئے۔ ہم کور اَپ کی ہر کوشش کی مخالفت ہی نہیں مزاحمت بھی کریں گے۔ شہریوں کی قیمتی جانوں کو نا اہل، بدعنوان اور احتساب سے بالا افسروں کے ہاتھ میں نہیں دیا جا سکتا۔ انف از انف۔
تحقیقاتی کمیٹی ائر مارشل لا کی ایکسٹینشن ہے
دریں اثنا جو تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی ہے اس کی ساخت سے صاف ظاہر ہے کہ اس کمیٹی کا مقصد ذمہ داروں کو بچانا ہے۔ ذرا کمیٹی کی ساخت ملاحظہ فرمائیے:
سربراہ کمیٹی: ائر کموڈور محمد عثمان غنی
ارکان: ایڈیشنل ڈائریکٹر ٹیکنیکل انوسٹی گیشن، ونگ کمانڈر ملک محمد عمران، ائر فورس سیفٹی بورڈ کامرہ کے گروپ کیپٹن توقیر اور جوائنٹ ڈائریکٹر اے ٹی سی ناصر مجید
گروپ کیپٹن اور ونگ کمانڈر (یعنی کرنل اور لیفٹیننٹ کرنل لیول کے افسر) ایک ائر مارشل (لیفٹیننٹ جرنل، ریٹائرڈ ہی سہی) کی تحقیق کریں گے! یہ سراسر دھوکا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی میں پالپا، سول سوسائٹی، حزب اختلاف اور عدالتی نمائندے ہونے چاہئیں۔ اس عمل کو پبلک انداز میں کیا جائے۔
ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ چترال میں ہونے والے حادثے کی تحقیقات کو عوام کے سامنے پیش کیا جائے۔
سب سے اہم: ائر مارشل ارشد چودھری استعفیٰ دیں۔ ان کے ہوتے ہوئے، ان کے خلاف غیر جانبدار تحقیق ممکن نہیں۔
ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر فوری پابندی ختم کی جائے اور پی آئی اے کے ملازمین کی مدد سے اس ادارے کی از سر نو تعمیر کی جائے۔ سیاسی اور ذاتی بنیادوں پر من پسند لوگوں کی اعلیٰ سطحی تعیناتیاں بند کی جائیں۔