عدنان فاروق
امریکی حکمران طبقہ بالخصوص امریکی صدر ٹرمپ، تین دن ہو گئے، حیرت و حسرت سے پاکستان کو دیکھ رہا ہے۔
ایک مشیرنے ٹرمپ کو بتایا ہے کہ امریکیوں کا غصہ اس لئے بہت زیادہ ہے کہ جارج فلوئڈ کے قتل کی فوٹیج موجود ہے۔
ٹرمپ نے اسے مندرجہ ذیل تصویر دکھا کر پوچھا: اگر قتل کی ویڈیو فوٹیج بن جانے پر لوگ اتنے غصے میں آ جاتے ہیں تو کراچی میں لوگوں کو غصہ کیوں نہیں آیا:
ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے اہل کاروں کی توجہ سانحہ ساہیوال کی طرف بھی دلائی گئی۔ مندرجہ ذیل تصویر دیکھ کر ٹرمپ پاکستانی پولیس کی ایمانداری سے بھی متاثر ہواجنہوں نے پیسوں کے عوض اپنے فرائض سے پہلو تہی نہیں کی:
ٹرمپ کے تو حسرت کے مارے آنسو نکل گئے جب اسے خڑ کمر کے بارے میں بتایا گیا۔ ایک نہیں کئی ویڈیوز موجود تھیں مگر پاکستان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ٹرمپ کے لئے سب سے متاثر کن بات یہ تھی کہ ضمانتیں علی وزیر اور محسن داوڑ کراتے پھر رہے تھے۔
ٹرمپ کو جب بلوچستان کی صورت حال کے بارے میں بتایا گیا تو اس نے سی آئی اے کے چیف کو فون کر کے خوب سنائیں جس سے چھوٹا سے منیا پولس نہیں سنبھالا جا رہا۔
ٹرمپ کو تاریخ سے دلچسپی نہیں ورنہ مشرقی پاکستان کے واقعات سن کر تو وہ شائد امریکہ میں زراعت کے محکمے کو ہی ختم کر دیتا۔ بھابڑا اور کالونی ٹیکسٹائل مل جیسے کئی واقعات بھی ٹرمپ کی تاریخ سے عدم دلچسپی کی وجہ سے نہیں بتائے گئے۔
ہمارا ٹرمپ کو مشورہ ہے کہ وہ اپنی پولیس کو تربیت کے لئے سہالہ بھیجے۔ اپنے اینکر پرسنز کی صابر شاکر سے تربیت کرائے۔ سکول اور کالج کے نصاب میں ’مطالعہ امریکہ‘کو لازمی مضمون قرار دے۔ محکمانہ بجٹ میں پچاس فیصد اضافہ کرے۔ اس کے بعد منیا پولس تو کیا ہیروشیما بھی اسے واشنگٹن کے اڑوس پڑوس میں مل جائے گا، اتنی دور جاپان جانے کی نوبت نہیں آئے گی اور مجال ہے اگر امریکہ کے کان پر جوں رینگ جائے۔