مزید پڑھیں...

روزمرہ کے مسائل: دانت ناشتے کے بعد برش کریں

ہمیں بچپن سے سکھایا جاتا ہے کہ صبح اٹھتے ہی دانت صاف کر لئے جائیں۔ اس کی ایک وجہ شائد یہ ہو سکتی ہے کہ شہری زندگی سے قبل، لوگ رفع حاجت کے لئے،کھیتوں میں جاتے اور واپسی پر مسواک کرتے۔ اکثر اشتہار بھی ایسے ہوتے ہیں جن میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ صبح اٹھتے ہی دانت صاف کئے جائیں۔ میں چھ ماہ دلی میں بھی رہا۔ میرا مشاہدہ ہے کہ دِلی (یا شائد پورے ہندوستان میں) بھی یہی کلچر ہے کہ صبح اٹھتے ہی دانت صاف کر لئے جائیں۔پھر ناشتہ کیا جائے۔

پنجابی مسافروں کا قتل: مہرنگ بلوچ کا ایک الباکستانی کے نام خط

چند روز قبل چند پنجابی مسافروں کو بس سے اتار کر گولی مار دی گئی۔ اس واقعہ کے بعد ایک مرتبہ پھر آپ اپنے لاکھوں ہم خیال بہن بھائیوں کی طرح مجھ سے مطالبہ کر نے لگے کہ میں اس واقعہ کی مذمت کروں۔
میں جن دنوں اسلام آباد میں پریس کلب کے باہر سردی میں دھرنا دئیے بیٹھی تھی، تب بھی غریدہ فاروقی جیسے لوگوں کو میرے پاس بھیجا گیا جو آ کر مطالبہ کر رہے تھے کہ میں بلوچ سرمچاروں کی مذمت کروں۔
اُن دنوں عالمی میڈیا میں غزہ کا موضوع سرخیوں میں تھا۔ بد قسمتی سے اب تک ہے۔مجھے یاد ہے جوں ہی کسی فلسطینی کو بی بی سی یا سی این این سمیت کسی مغربی نیوز چینل میں بات کے لئے مدعو کیا جاتا تو پہلا سوال ہوتا کہ کیا آپ 7 اکتوبر کے روز اسرائیل پر حماس کے حملے کی مذمت کرتے ہیں۔

سوڈان جنگ کا ایک سال: 15 ہزار ہلاکتیں، 86 لاکھ بے گھر، 25 ملین امداد کے منتظر

سوڈان میں تباہ کن جنگ شروع ہوئے ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک اس جنگ میں 15ہزار افراد مارے جا چکے ہیں اور 86لاکھ افراد جبری طور پر بے گھر ہوئے ہیں۔ ’ڈیموکریسی ناؤ‘ کے مطابق اقوام متحدہ نے اسے دنیا کی بدترین نقل مکانی اور انسانی بحرانوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ یہ سب سے زیادہ نظر انداز کئے جانے والے بحرانوں میں سے بھی ایک ہے۔

افریقہ میں 55 ملین افراد کو بھوک کا سامنا ہے: اقوام متحدہ

بیان کے مطابق نائجیریا، گھانا، سیرالیون اور مالی اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونگے۔ ایجنسیوں نے کہا کہ ہم اناج کی قیمتیں پورے خطے میں پانچ سال کی اوسط کے مقابلے میں 10فیصد سے100فیصد تک بڑھ رہی ہیں۔ خوراک کی کمی کے نتیجے میں غذائی قلت کی خطرناک حد تک زیادہ سطح بھی پیدا ہوئی ہے، جس سے بچے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

کرۂ ارض کو بچانے کیلئے صرف 2 سال باقی ہیں: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے موسمیاتی ایجنسی نے کہا ہے کہ دنیا کو موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لیے انسانوں کے پاس صرف دو سال باقی ہیں۔ایجنسی نے ترقی یافتہ ممالک سے گرمی میں اضافہ کرنے والے اخراج کو روکنے کے لیے جلد موثر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

17 اپریل: کسانوں کی جدوجہد کا عالمی دن

اس سال ہمارا پوسٹر فطرت کے تمام عناصر کے باہم مربوط ہونے کی عکاسی کرتا ہے، جس میں انسانیت ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ یہ پوسٹر واضح کرتا ہے کہ کس طرح زمین (ماں) کسانوں اور ان کی جدوجہد کی حمایت اور انکے وجود اور حقوق کا دفاع کرتی ہے۔ اس وژن کے مطابق، ہم کسانوں جیسی اجتماعی تحریک کا حصہ بن کر بھی اپنی ماں جیسی زمین کو نذرانہ پیش کر سکتے ہیں۔ ہماری ماں جیسی دھرتی اپنے فطری تاثرات کے علاوہ پہاڑوں کے ساتھ ہمارے آباؤ اجداد اور اجتماعی یادداشت کی علامت ہے۔

ایران اسرائیل تصادم: سامراجی طاقتیں دور رس تناظر سے عاری

بہرحال زیادہ امکان یہی لگ رہا ہے کہ کشیدہ حالات کو ادارہ جاتی مذمتوں اور پرفریب بیان بازیوں میں زائل کرنے اور ایران اسرائیل تصادم کو کم از کم وقتی طور پر دبا دینے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن یہ معاملات جتنے پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں اس کے پیش نظر متعلقہ سامراجی طاقتیں خود بھی کوئی دوررس تناظر بنانے سے عاری نظر آتی ہیں۔ دنیا بھر کے محنت کش عوام کے لئے اس متروک سرمایہ دارانہ نظام میں استحصال اور بربادی ہی مضمر ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔

سندھ نامہ (پہلا حصہ): مارکس اور بھگوان سانگھڑ کی بستی میں

بوڑھا مارکس دھرم میں وشواس نہیں رکھتا تھا لیکن اس تقریب میں موجود ہوتا تو اپنے چیلے،کامریڈ کرمون، کو شاباش ضرور دیتا اور اپنی عادت کے مطابق بھگوان اور مارکسزم کے اس ملاپ پر زور دار قہقہہ لگاتا۔۔۔میں یہ سوچتا ہوا وہاں سے روانہ ہوا کہ کاش ایڈورڈ سعید بھی زندہ اور اس تقریب میں موجود ہوتے اور دیکھتے کہ جس مارکس کو وہ اورینٹل ازم کا طعنہ دیتے ہیں وہ سانگھڑ میں پہنچ کر کیا روپ دھار لیتا ہے۔

عید مبارک اور اعلان تعطیل

یہ عید الفطر ایک ایسے وقت میں منائی جا رہی ہے جب پوری دنیا میں معاشی اور سیاسی بحران خونریزی کی شکل میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ فلسطین اور یوکرین پر سامراجی بمباری جاری ہے۔ پاکستان میں معاشی بحران سماجی اور ریاستی بحران کی صورت میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر مسائل اس ملک میں انسانیت کا جینا دوبھر کر چکے ہیں۔ جرائم مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں، بنیادی ضروریات کے حصول کیلئے لوگ دربدر ہیں۔ حکمران طبقات نے محنت کش طبقے کو عید کی خوشیاں منانے کیلئے کوئی ریلیف یا سہولت دینے کی بجائے بھکاری بنانے کے اصول کو اپنا کر کئی انسانوں کی زندگیوں کو لقمہ اجل بنا دیا ہے۔ اس بحران سے نکلنے کیلئے حکمران طبقات اور سامراجی اداروں کی نیو لبرل پالیسیاں نئے معاشی، سیاسی اور سماجی بحرانوں کے دروازے کھول رہی ہیں۔ ایسے حالات میں عیدین جیسے خوشیوں کے تہوار بھی محنت کش طبقے کیلئے نئی مشکلات اور چیلنجز لے کر سامنے آتے ہیں۔ خوشیوں کے یہ مواقع محنت کش طبقے کیلئے خوشی کا ذریعہ بننے کی بجائے احساس کمتری میں تیزی لانے سمیت دیگر سماجی مسائل کا موجب بنتے ہیں۔