مزید پڑھیں...

کمیونسٹ پارٹیوں کا اقتدار: نیپال پسماندگی کے باوجود سیاسی مباحث کا مرکز

نیپال میں اس وقت ایک بار پھر بائیں بازو کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ اس حکومت میں 4بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ یہ نئی حکومت 25فروری کو وزیراعظم پرچندا کی جانب سے کانگریس سے علیحدگی کے اعلان کے بعد قائم ہوئی ہے۔ نئی بائیں بازو کی اتحادی حکومت میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونائیٹڈ مارکسسٹ لینن اسٹ (سی پی این یو ایم ایل) ہے، دوسری بڑی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال ماؤسٹ سنٹر(سی پی ایم ایم سی) ہے، وزیراعظم پرچندا کا تعلق اسی جماعت سے ہے۔ تیسریبڑی سیاسی جماعت آر ایس پی ہے، جو پہلے کانگریس کے ساتھ شامل تھی، اب اس نئے اتحاد میں شامل ہے۔ چوتھی بڑی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونیفائیڈ سوشلسٹ (سی پی این یو ایس) ہے، جس کی قیادت سابق وزیراعظم مدن کمار نیپل کر رہے ہیں۔

’’مٹو کی سائیکل‘‘ ترقی کے ایکسپریس وے پر 

پاکستان میں چند ایک بڑے شہروں کو چھوڑ کر مزدور وں اور ورکنگ کلاس کے لیے کوئی ماس ٹرانسپورٹ کا منصوبہ نہیں بنایا گیا ۔دیہات سے شہروں میں مزدور ی کے لیے آنے والا مزدور پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کے رحم وکرم پر ہے ۔شہروں میں اشرافیہ نے علیحدگی کی الگ سے تحریک شروع کر رکھی ہے جس کے تحت وہ اپنے پوش علاقے غریبوں کے علاقوں سے الگ کئے جا رہے ہیں جہاں  تک پہنچنے کے لیے سرکار انہیں انہی غریبوں کے ٹیکس سے بڑی بڑی ایکسپریس ویز بنا کر دی رہی ہے جن پر نان موٹررائیڈ سواریاں آ نہیں سکتیں ۔یہ بڑی بڑی سڑکیں اگرچہ ملک کی ترقی کے نام پر بنائی جا رہی ہیں لیکن ان کا بڑا مقصد اشرافیہ کو بہتر نقل و حمل مہیا کرنا اور پسے ہوئے طبقے کو مرکزی معاشی دھارے کے ہا شیے میں دھکیلنا ہے ۔ مسٸلہ تو یہ ہے کہ اگر مٹو نئی سائیکل لے بھی لے تو پھر بھی  وہ دیش کے وکاس کے نام پر بنی ہوئی ایکسپریس وے پر اسے چلا نہیں پائے گا ۔

بی جے پی کے 180 ملین اراکین، 800 این جی اوز اور 36 ونگ ہیں

انتہائی دائیں بازو کا عروج ایک عالمی رجحان ہے۔ شاید دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت سے زیادہ کہیں اوردایاں بازو اتنامضبوط نہیں ہے۔ وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں 2014 سے اقتدار پر قابض ہے۔
تاہم بی جے پی محض ایک پارٹی نہیں ہے۔ بی جے پی اور ان کی کیڈر آرگنائزیشن ہندو قوم پرست نیم فوجی رضاکار وں پر مشتمل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا نظریہ ایک عسکری، جوہری ہتھیاروں سے لیس بھارتی عظمت کا راستہ ہے۔ یہ ایک ایسا ویژن بھی ہے جس میں مسلمانوں کی کوئی تاریخ نہیں ہے اور اس لیے انہیں حال میں بھی یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ایجنسیوں کی اداروں میں مداخلت شدید تشویش کا باعث ہے: ایچ آر سی پی

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ایچ آر سی پی کو ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر گہری تشویش ہے۔ ان ججوں کا دعویٰ ہے کہ ریاست کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت اور دھمکیوں نے عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچایا ہے۔

ترکی: ’اردگان کی مقبولیت برقرار ہے مگر بائیں بازو کو بھی زبردست کامیابی ملی ہے‘

اردگان ترک معاشرے میں شدید پولرائزیشن کا فائدہ اٹھا کر اپنی طاقت کی بنیاد بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طرف ثقافتی اور مذہبی پولرائزیشن ہے اور دوسری طرف سماجی، طبقاتی پولرائزیشن ہے۔ جمہوریہ کی بنیاد کے بعد (کمال اتاترک، 1923) جس کا ایک مضبوط سیکولر پہلو تھا، مذہبی لوگوں کو طویل عرصے تک اقتدار کے عہدوں سے باہر رکھا گیا۔ اگرچہ قدامت پسند مذہبی سیاسی دھارے بچ گئے، لیکن معاشرے میں غالب نظریہ سیکولر اور شہری تھا اور اس نے ان قوتوں کو خارج کر دیا۔ قصبوں سے باہر دیہی معاشرے میں اور غریب پرتوں میں کہانی الگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی انتخابات ہوتے تھے کسانوں اور دیہی علاقوں میں قدامت پسند، مذہبی جماعتوں کی بنیاد ہوتی تھی۔ آپ کے شہروں میں دانشور، محنت کش، شہری پیٹی بورژوا اور بورژوا طبقے تھے۔

42 فیصد فلم و ٹی وی پرڈکشن ورکرز اے آئی سے خوفزدہ، 32 فیصد کو فائدے کی امید

تحقیقاتی ادارے نیشنل ریسرچ گروپ(این آر جی) کے ایک سروے کے مطابق42فیصد فلم اور ٹی وی پروڈکشن کے ورکرز کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت(اے آئی) ان کے شعبے میں لوگوں کو نقصان پہنچائے گی۔ ایک تہائی یعنی 32فیصد کا کہنا ہے کہ انہیں اس سے فائدہ پہنچے گا۔ بقیہ ایک چوتھائی یا تو یقین رکھتے ہیں کہ اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، یا کہتے ہیں کہ وہ ابھی تک اثر نہیں جانتے ہیں۔

جے این یو انتخابات میں بائیں بازو کا کلین سویپ، 28 سال بعد دلت صدر منتخب

بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے اتحاد لیفٹ یونٹی نے جواہر لال نہرے یونیورسٹی (جے این یو) میں طلبہ یونین کے انتخابات میں کلین سویپ کیا ہے۔ لیفٹ یونٹی نے مرکزی پینل کی چاروں نشستیں صدر، نائب صدر، جنرل سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری جیت لی ہیں۔
’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق جے این یو طلبہ یونین کے انتخابات جمعہ کو ہوئے تھے لیکن نتائج کا اعلان اتوار کو کیا گیا۔ یہ 2019کے بعد یونیورسٹی میں ہونے والے پہلے طلبہ یونین انتخابات ہیں، جو کورونا وبائی مرض کے باعث 4سال کے وقفے کے بعد ہوئے۔

بربریت سے بچنے کے لیے عوامی اثر و رسوخ والی پارٹیاں اور انٹر نیشنل تعمیر کرنا ہو گی!

سرمایہ دارانہ بحران کی حرکیات ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ بربریت اور انسانیت کی معدومیت، جہاں موجودہ حکمران طبقہ ہمیں لے جا رہا ہے، کی جانب اس تیز رفتار پیش رفت کو روکنے کا واحد امکان عالمی سوشلسٹ انقلاب کی فتح ہے۔ عوام اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں۔ دنیا کے تمام خطوں میں سال بہ سال بغاوتیں اور انقلابات برپا ہو رہے ہیں۔ لیکن اب تک کہیں بھی کوئی ایسی انقلابی تنظیم سامنے نہیں آئی ہے جس کے پاس وہ تعداد، اثر و رسوخ، صلاحیت اور ارادہ ہو کہ ان تحریکوں کی قیادت کرتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکے۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔