علی رضا
ڈاکٹر عمار علی جان حقوق خلق موومنٹ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ بائیں بازو کے معروف کارکن اور دانشور ہیں۔’روزنامہ جدوجہد‘نے ان کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کیا جس میں ان سے پی ڈی ایم تحریک بارے بات چیت کی جس کی تفصیلات ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں:
اس وقت احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے، مختلف تنظیموں اور پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟
عمار علی جان: عوام کے معاشی حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں، لوگ حکومت سے ریلیف کی توقع کر رہے تھے لیکن حکومت کرونا کے باعث معاشی حالات خراب ہونے کا بہانا بنا کر ٹالتی رہی لیکن کرونا کے بعد بھی عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ الٹا مہنگائی اور بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہو گیا جس کی وجہ سے لوگوں کو دو وقت کے کھانے کا حصول مشکل ہو گیا ہے اور میں یہ بات کوئی محاورتاً نہیں کر رہا بلکہ حقیقتً آج لاکھوں لوگوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ اس لئے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے لہٰذا ستمبر سے اب تک مسلسل مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
آج ایک طرف پی ڈی ایم کا ایک ایجنڈا ہے دوسری طرف اس کے برعکس وہ پچھلے دروازوں سے اسٹیبلشمنٹ سے ملاقاتیں بھی کر رہی ہے اس کے باوجود عوام کیوں ان کے ساتھ چل رہے ہیں؟
عمار علی جان: پاکستان میں ہمیشہ سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سوچ موجود رہی ہے۔ جب بھی کوئی طاقت اس سوچ کا اظہار کرتی ہے لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے حکومت کے خلاف جنم لینے والی نفرت بھی لوگوں کو سڑکوں پر لانے کا سبب ہے۔ بلاشبہ پی ڈی ایم کا ایجنڈا بھی اہم ہے لیکن وہ صرف سیاسی ایجنڈا ہے اس میں سماجی اور معاشی ایجنڈا غائب ہے اس لیے پی ڈی ایم کے علاوہ مزدوروں کے مظاہرے بھی جاری ہیں۔
پی ڈی ایم پر بائیں بازو کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
عمار علی جان: میرے خیال میں ایک چیز جو بائیں بازو کو نہیں کرنی چاہیے وہ ہے اس ایجنڈے کو مکمل طور پر رد کرنا۔
اس بنیاد پر ان کے ایجنڈے کو رد کرنا کہ یہ پارٹیاں اور ریاست طبقاتی ہے مناسب نہیں کیونکہ طبقے کا سوال تاریخ اور سیاست سے جڑا ہوتا ہے۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ایک طرف صرف امیر کھڑے ہوں اور دوسری طرف غریب۔ بلکہ سیاست میں موجود تضادات میں سے ہی ایک طبقہ سامنے آتا ہے۔ اس وقت ایک ادارہ ہر دوسرے پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ بورژوا جبر کے لیے درکار آئین بھی پامال ہو چکا ہے۔ ایسے میں لوگوں کا غصہ جائز ہے۔ اس کے خلاف کسی نہ کسی نے تو لڑائی لڑنی ہے اور وہ بڑی پارٹیاں ہی لڑ سکتی ہیں۔ ہمارا کردار یہ ہونا چاہیے کہ ہم سیاسی تضاد کے ساتھ سماجی اور معاشی تضاد کو بھی تیز کریں اور خود کو منظم کریں اور پھر بالکل ممکن ہے کہ ہمارے خیالات کا اظہار سیاست میں بھی ہو۔
اس لئے ہم موجودہ حالات کو رد نہیں کر سکتے کیونکہ اگر ہم خالص تضاد تلاش کرنے کی کوشش کریں تو وہ تو بالشویک انقلاب میں بھی نہیں تھا۔ بالشویک بھی لبرلز اور دیگر پارٹیوں کے ساتھ اتحاد میں رہے۔ اس لئے حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ سیاسی، سماجی اور معاشی لڑائی کے درمیان ٹوٹے ردھم کو دوبارہ ردھم میں لایا جائے۔
تو کیا لیفٹ کو پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر چلنا چاہیے؟
عمار علی جان: بائیں بازو کے پی ڈی ایم کے ساتھ چلنے سے نہ پی ڈی ایم کو فرق پڑنا ہے اور نہ بائیں بازو کو۔ اس وقت بائیں بازو کو چاہیے کہ طلبہ، مزدوروں اور کسانوں کے ساتھ کام کرے۔ پی ڈی ایم کے حوالے سے انھیں بس یہ کرنا ہے کہ ان کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کرے کیونکہ وہ جو لڑائی لڑ رہے ہیں وہ ایک حقیقی لڑائی ہے۔ حصول سے غداری کرنے کا سوال موجود ہے لیکن وہ تو کوئی بھی کر سکتا ہے ٹراٹسکی کے مطابق کمیونسٹوں نے بھی انقلاب سے غداری کی۔ ان کی لڑائی ان کو لڑنے دیں اس کا ہمیں فائدہ ہی ہو گا نقصان نہیں۔ جو لڑائی وہ نہیں لڑ سکتے وہ ہے سماجی اور معاشی لڑائی کیونکہ اس میں وہ خود ظالم ہیں اس لیے وہ لڑائی بایاں بازو لڑے۔
موجودہ صورتحال میں آپ کی تنظیم حقوق خلق موومنٹ عملی طور پر کیا کر رہی ہے؟
عمار علی جان: ہم طلبہ، کسانوں اور ان مزدوروں کے ساتھ جن کو نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم نے پانی کی فراہمی کے حوالے سے کافی کام کیا ہے۔ ہم 8 نومبر کو پیپلز چارٹر آف ڈیمانڈ لے کر آ رہے ہیں جو کہ سماجی اور معاشی ایجنڈا ہے یعنی پی ڈی ایم سے مختلف ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس طرح ہی پسے ہوئے طبقات کے ساتھ کام کر کے خود کو منظم کریں تا کہ وقت آنے پر ان پارٹیوں کو بھی چیلنج کر سکیں۔