سوچ بچار

سیاسی معاشیات میں قدر کی بحث

عمران کامیانہ

یہ مضمون دسمبر 2014ء میں ’پندرہ روزہ طبقاتی جدوجہد‘ میں شائع ہوا۔

آج کے پرانتشار عہد میں ’’نظریہ قدر‘‘ (Value Theory) کی بحث بظاہر دانشوروں کا شغل معلوم ہوتی ہے جس کا ’’عملی‘‘ سیاسی جدوجہد سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ تاہم نظریہ قدر سرمایہ دارانہ نظام کے ہر تجرئیے کا نقطہ آغاز اور اساس ہے۔ ’’قدر‘‘ کو سمجھے بغیر سرمایہ داری کے تضادات، حرکیات اور بحران کو سمجھنا ناممکن ہے۔

موضوعی (Subjective) اور معروضی (Objective) قدر کی بحث درحقیقت دو متضاد مکاتب فکر کا تصادم ہے جس میں ایک طرف سرمایہ داری کے معذرت خواہان اور دوسری طرف اس نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد کرنے والے صف آرا ہیں۔

مارکس کے نظریہ قدر پر سب سے عام اعتراض ’’موضوعی نظریہ قدر‘‘ (Subject Value Theory) کے نقطہ نظر سے کیا جاتا ہے۔ مارکسسٹوں اور ’’آسٹرین سکول‘‘ کے معیشت دانوں کے درمیان انیسویں صدی کے اواخر اور بیسوں صدی کے آغاز پر ہونے والی طویل اور پیچیدہ بحث کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ ’’آسٹرین سکول‘‘ دراصل مارکسزم کے بڑھتے ہوئے سماجی اثر و رسوخ کا براہ راست رد عمل تھا جس کا مقصد نظریاتی میدان میں بورژوازی اور سرمایہ دارانہ نظام کا دفاع کرنا تھا۔ بوہن باورک اور وون مائزز جیسے آسٹرین دانشور آزاد منڈی کی معیشت اور ذاتی ملکیت کے سخت گیر حامی تھے جن کے نزدیک منڈی کی معیشت انسانی آزادی کا بلند ترین اظہار تھی۔ مارکس کے انقلابی معاشی نظریات کے جواب میں انہوں نے معیشت کا متبادل اور یکسر مختلف نظریہ تخلیق کرنے کی کوشش کی جس کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ’’قدر‘‘ کا تعین انسانی محنت سے نہیں بلکہ انفرادی ترجیحات سے ہوتا ہے۔ بنیادی مقصد مارکس کے نظریہ قدر سے بے نقاب ہونے والے سرمایہ دارانہ استحصال اور تضادات کو جھٹلانا تھا۔ معیشت کے سب سے بنیادی نقطے کو الٹ کر مارکسزم پر نظریاتی حملوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں بیسویں صدی کے آغاز پر مارکسسٹوں اور آسٹرین سکول کے درمیان کئی طویل مباحثے ہوئے۔

ان میں سے سب سے اہم ’’سوشلسٹ کیلکولیشن کی بحث‘‘ (Socialist Calculation Debate) ہے جس کا آغاز بالشویک انقلاب کے بعد  1920ء میں وون مائزز کے سوشلسٹ معیشت پر اٹھائے جانے والے اعتراضات سے ہوا۔ فی الوقت ’’سوشلسٹ کیلکولیشن‘‘ سے ہٹ کر اس نقطے کو سمجھنا زیادہ اہم ہے جو ان تمام نظریاتی اختلافات کا ماخذ ہے‘ یعنی نظریہ قدر۔

آسٹرین سکول نے اپنی تھیوری کو ’’موضوعی نظریہ قدر‘‘ (STV) جبکہ مارکس کی تھیوری کو ’’معروضی نظریہ قدر‘‘ (Objective Value Theory) کا نام دیا۔ مارکس نے اپنے نظریہ قدر کے لئے اتنی سادہ اصطلاح کبھی استعمال نہیں کی تاہم پیٹی سے لے کر ریکارڈو اور مارکس تک‘ قدر کا ہر نظریہ اس لحاظ سے معروضی تھا کہ اس کا نقطہ آغاز پیداوار کا سماجی عمل تھا۔ قدر‘ پیداوار پر صرف ہونے والی انسانی محنت تھی یا اس کے ارد گرد گھومتی تھی۔ قدر کا انحصار ’’طلب‘‘ (Demand) پر نہ تھا کیونکہ ’’طلب‘‘ بذات خود اجرت کی شکل میں پیداواری عمل میں سے برآمد ہوتی ہے۔

حکمران طبقے کے دفاع میں آسٹرین سکول نے مارکس اور کلاسیکی بورژوا معیشت دانوں کے برعکس بالکل متضاد راستہ اختیار کیا۔ ان کا نقطہ آغاز سماجی پیداواری عمل کی بجائے منڈی میں جنس (Commodity) کا انفرادی استعمال تھا۔ قدر استفادہ (Use Value) اور قدر تبادلہ (Exchange Value) میں تفریق کرنے والے مارکسی اور کلاسیکی بورژوا نظریات کے برعکس دعویٰ کیا گیا کہ قدر تبادلہ کا تعین قدر استفادہ سے ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے کسی جنس کی قدر‘  پیداوار میں صرف ہونے والی انسانی محنت نہیں بلکہ فرد کے لئے اس کی ’’افادیت‘‘ (Utility) کے تابع ہے۔ یعنی منڈی میں فرد کی ’’ضرورت کی شدت‘‘ کے تحت جنس کی ’’اہمیت‘‘ ہی اس کی قدر ہے۔ ’’افادیت‘‘ اور ’’اہمیت‘‘ بذات خود چونکہ موضوعی مظاہر ہیں اسی لئے اس رجحان کو مجموعی طور پر ’’موضوعی نظریہ قدر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔

لیکن ’’یوٹیلیٹی‘‘ کو ناپنے کا پیمانہ کیا ہے؟ اس بنیاد پر پانی اور ہیروں کے تناقص (Water Diamond Paradox)کو حل کرنا ناممکن تھا۔ پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے لیکن ہیرے کی قدر تبادلہ پانی سے کہیں زیادہ ہے۔ ہوا زندگی کی بنیادی شرط ہونے کے باوجود کوئی قدر تبادلہ نہیں رکھتی (کم از کم اب تک نہیں)۔ ماضی میں ’’موضوعی نظریہ قدر‘‘ پیش کرنے والے اس بنیادی پیراڈاکس کو حل نہیں کر پائے تھے چنانچہ موضوعیت پسندوں نے کان کو دوسری طرف سے پکڑنے کا فیصلہ کیا۔ ’’حل‘‘ یہ پیش کیا گیا کہ پانی یا ہیروں کی کل یوٹیلیٹی بے معنی ہے لہٰذا قدر کا تعین ’’اب تک کے استعمال کے بعد‘‘ پانی یا ہیروں کی ’’یوٹیلیٹی‘‘ سے ہوگا۔ آسان الفاظ میں ضرورت نہیں بلکہ ’’آخری استعمال کے بعد بھی پوری نہ ہونے والی ضرورت‘‘ اہم ہے۔ یوٹیلیٹی نہیں بلکہ ’’آخری استعمال کے بعد جنس کی ایک مزید اکائی (Unit) کی یوٹیلیٹی‘‘ سے قدر کا تعین ہوگا۔ بھوک سے مرتے انسان کے لئے سیب کی یوٹیلیٹی بہت زیادہ ہو سکتی ہے لیکن ایک سیب کھا کر جان بچا لینے کے بعد اگلے سیب کی ’’یوٹیلیٹی‘‘ اس کے لئے کم ہو جائے گی۔ آخری استعمال کے بعد ’’ایک مزید اکائی کی یوٹیلیٹی‘‘ کو ’’مارجنل یوٹیلیٹی‘‘ (Marginal Utility) کا نام دیا گیا۔ یہی وہ ’’مارجنل یوٹیلیٹی‘‘ ہے جس پر نیوکلاسیکی معیشت کا نظریاتی ڈھانچہ کھڑا ہے جہاں سے ’’اکنامکس‘‘ کی ہر درسی کتاب کی شروعات ہوتی ہے۔

الفرڈ مارشل کا مشہور زمانہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا گراف بھی اسی بنیاد پر کھینچا جاتا ہے۔ مارجنل یوٹیلیٹی کے گرد گھومنے والی بورژوا معاشیات کے رجحان کو بحیثیت مجموعی ’’مارجنل ازم‘‘ کہا جاتا ہے۔ قابل غور بات ہے کہ جس نظرئیے کے تحت دنیا کی معیشت کو دہائیوں سے چلایا جارہا ہے اس کے مطابق صارف کی محرومی جتنی بڑھے گی، منڈی میں جنس کی قیمت (اور سرمایہ دار کے منافع) اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ مارجنل ازم صرف آسٹرین سکول تک محدود نہیں ہے بلکہ ’’آزاد منڈی‘‘ کے علمبردار تمام بورژوا رجحانات کی نظریاتی اساس ہے تاہم اس تھیوری کی بنیاد پر مارکسزم کے مقابلے میں ’’معاشی ماڈل‘‘ تشکیل دینے میں آسٹرین سکول پیش پیش نظر آتا ہے۔

مارجنل یوٹیلیٹی کے بانیوں میں سے ایک، سٹینلے جیونز کے مطابق ’’پانی سب سے اہم ضرورت ہے۔ روزانہ ایک لٹر پانی انسان کو موت سے بچانے میں ’’انتہائی زیادہ‘‘ یوٹیلیٹی کا حامل ہے۔ اس کے بعد کھانا پکانے اور دھونے کے لئے کچھ گیلن پانی کی یوٹیلیٹی ’’تھوڑی کم‘‘ ہے۔ لیکن اگر ان بنیادی کاموں کے لئے پانی کی مناسب مقدار تصرف میں آجا ئے تو اضافی مقدار غیر ضروری اور غیر اہم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پانی کی ایک مخصوص مقدار ناگزیر حد تک ضروری ہے۔ اس سے آگے تصرف میں آنی والی مقدار جوں جوں بڑھتی جائے گی، پانی کی یوٹیلیٹی کم ہوتی جائے گی اور ایک خاص پوائنٹ پر بالکل ختم ہوجائے گی…ایک ہی جنس کی یوٹیلیٹی اس بات کے پیش نظر بدل جاتی ہے کہ ہمارے پاس اس کی کتنی مقدار پہلے سے موجود ہے۔‘‘

جیونز دراصل کہنا یہ چاہتا ہے کہ پانی کی افادیت ہیروں سے بہت زیادہ ہے لیکن پانی کی رسد (Supply) چونکہ زیادہ ہے اور بنیادی استعمال کے لئے پانی میسر ہے لہٰذا اس کی اضافی مقدار غیر اہم ہے اور پانی کی ’’مارجنل یوٹیلیٹی‘‘ اور قدر تبادلہ بھی کم ہے۔

قدر کے کلاسیکی نظریات کو رد کر کے نظریاتی میدان میں بورژوازی کا موضوعیت (Subjectivism) کی طرف جھکاؤ سرمایہ دارانہ نظام کے تاریخی ارتقا میں ایک اہم موڑ کا غماز ہے۔ ’’مارجنل ازم‘‘ انیسویں صدی کے اواخر میں بورژوازی کی ایک نئی پرت کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے جو پیداواری عمل سے یکسر لاتعلق ہے۔ یہ سرمایہ دار  پیداواری عمل کو منیجروں اور سپر وائزروں کے سپرد کر چکے ہیں یا پھر مالیاتی سرمائے سے وابستہ ہیں۔ جاگیرداری پر ایک زمانے میں نظریاتی ضرب لگانے والی ’’لیبر تھیوری آف ویلیو‘‘ کی ضرورت اب بورژوازی کو نہیں ہے۔

نکولائی بخارن کے مطابق مارجنل ازم فارغ بیٹھ کر پیسہ کمانے والے سرمایہ دار طبقے کا نقطہ نظر ہے جو صنعت سے کٹ چکا ہے اور جس کی دلچسپی سماجی پیداوار کی بجائے منڈی کی انفرادی کھپت میں ہے۔ بخارن نے آسٹرین سکول کے مارکسزم پر اعتراضات کے جواب میں تحریر کی گئی اپنی کتاب کو عنوان ہی ’’فارغ طبقے کی معاشی تھیوری‘‘ (Economic Theory of Leisure Class) دیا تھا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ نیو کلاسیکی معیشت کے بانی اپنی مثالوں میں زیادہ تر قیمتی اور پرتعیش اجناس کا ذکر کرتے ہیں۔

بورژوازی کے اپنے تاریخی کردار سے ہٹ کر بات کی جائے تو مارجنل ازم کے سیاسی و سماجی اثرات انتہائی خوفناک ہیں۔ اس نظریاتی یلغار کا مقصد ہی مزدور تحریک کی ہراول پرتوں کو بدظن اور طبقاتی جدوجہد کو زائل کرنا ہے۔ ’’قدر‘‘ اگرمکمل طور پر موضوعی مظہر ہے تو قدر زائد، استحصال، زائد پیداوار اور سرمایہ داری کے دوسرے معاشی و سماجی تضادات پر بات کرنے کی گنجائش ہی ختم ہو جاتی ہے۔ طبقات کی بجائے ہمیں افراد کے مجموعے پر مشتمل سماج نظر آتا ہے جہاں ہر فرد اپنی خواہشات اور ترجیحات کے مطابق موضوعی فیصلے کرنے میں آزاد ہے جن کا مجموعہ معیشت ہے۔ سرمایہ داری تضادات سے پاک ایک ایسا مستقل اور ناقابل تغیر نظام ہے جو ان ترجیحات کے تحت ہمیشہ چلتا رہے گا۔ منڈی چونکہ ان موضوعی خواہشات اور ترجیحات کو حقیقت کا روپ دیتی ہے لہٰذا مقدس ہے۔ ریاست اور ٹریڈ یونین کی مداخلت مقدس منڈی کی آزادی کی صریح خلاف ورزی ہے!

’’مارجنل ازم‘‘ ایک ’Myth‘ ہے اور دنیا کے ہر میتھ  کی طرح اس میں بھی سچ کی تھوڑی سی آمیزش موجود ہے۔ لیکن اس نقطہ نظر سے سرمایہ داری کی حرکیات کی وضاحت کسی صورت نہیں ہوسکتی۔ حکمران طبقہ اپنے نظام کے دفاع میں بے بنیاد اور رجعتی تھیوریاں گھڑتا رہتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کی ہر بڑی یونیورسٹیوں میں قائم شعبہ اکنامکس کا کام ہی دانشوروں کی ایسی کھیپ تیارکرنا ہوتا ہے جو نظریاتی میدان میں سرمایہ داری کا دفاع کر سکے۔ اس مقصد کے لئے کئی جھوٹ گھڑے اور پڑھائے جاتے ہیں۔ جھوٹ جب لمبے عرصے تک ڈھٹائی سے بار بار بولا جاتا رہے تو سچ معلوم ہونے لگتا ہے لیکن غلط فلسفے کی بنیاد پر معیشت جیسے پیچیدہ سماجی مظاہر کی تشریح بہرحال نہیں کی جاسکتی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اپنی لغویات پر خود یقین کر بیٹھنے والے بورژوا دانشور اور معیشت دان ایک سال آگے کا تناظر تخلیق کرنے سے بھی قاصر ہیں کیونکہ ان کا معاشی فلسفہ تضادات اور نقائص سے لبریز ہے۔

نیو کلاسیکی معیشت دانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ قدر اور قیمت میں تمیز کرنے سے ہی قاصر ہیں۔ ایسا دانستہ طور پر مارکس کے نظریہ قدر کو  غلط  ثابت کرنے کے لئے بھی کیا جاتا ہے۔ مارکس غیر مبہم انداز میں وضاحت کرتا ہے کہ جنس کی قیمت اس کی قدر کے برابر نہیں ہوتی بلکہ اس کے ارد گرد گھومتی ہے۔ مارکس نے اپنے عہد میں موضوعی نظریہ قدر کے علمبردار بورژوا دانشوروں کے ساتھ باقاعدہ بحث چھیڑ کر انہیں اہمیت دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اینگلز مضحکہ خیز انداز میں اس نظرئیے کو رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’آج کل سٹینلے جیونز کی تھیوری کا فیشن چل نکلا ہے جس کے مطابق قدر کا تعین ایک طرف یوٹیلیٹی اور دوسری طرف رسد (Supply) سے ہوتا ہے۔ یہ درحقیقت گھما پھرا کے متذبذب انداز میں وہی بات کی جارہی ہے کہ قدر کا تعین طلب اور رسد سے ہوتا ہے۔ ہر جگہ بیہودہ معاشیات!‘‘

آسٹرین سکول اور معاشی لبرل ازم کے دوسرے مکاتب فکر کے معاشی نظریات دراصل روبن سن کروسو کے جزیرے سے اخذ کی گئی تجریدوں (Abstractions) کے گرد گھومتے ہیں جن کا سرمایہ دارانہ سماج کے پیچیدہ پیداواری رشتوں اور مادی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ حکمران طبقے کی یہ معاشیات سرمایہ دارانہ بنیادوں پر زر کے ذریعے اجناس کے تبادلے کو دور دراز کے جزیرے پر دو افراد کے درمیان ’بارٹر‘ ہی سمجھتی ہے۔ تمام معاشی تھیوری ایک مجرد منڈی کے گرد گھومتی ہے جہاں ایک مجرد صارف پیسوں سے بھری جیب کے ساتھ داخل ہو تا ہے اور اپنی موضوعی ترجیحات کے تحت اجناس کا انتخاب کر کے گھر لے جاتا ہے۔

لیکن یہ صارف کون ہے؟ یہ ترجیحات کہاں سے آتی ہیں؟ بورژوا معیشت کے تخیلات سے باہر نکل کے دیکھا جائے تو موضوع اور معروض ایک دوسرے سے تعلق کے بغیر بے معنی ہیں۔ موضوعی ترجیحات آسمان سے نازل نہیں ہوتی ہیں بلکہ معروضی حقائق سے متعین ہوتی ہیں۔ پیداواری عمل میں فرد کا کردار، اس کا طبقہ، سماجی رتبہ اور آمدن ان ترجیحات کا تعین کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ موضوعی ترجیحات ان اقدار اور اخلاقیات سے برآمد ہوتی ہیں جن کا تعین حکمران طبقہ اپنی معاشی و سماجی طاقت کے ذریعے کرتا ہے۔

منڈی کی معیشت انسان کی ضروریات کو پورا نہیں بلکہ پیدا کرتی ہیں۔ صرف امریکہ میں 180 ارب ڈالر ہر سال صرف ٹیلیوژن کی اشتہار سازی پر خرچ کئے جاتے ہیں۔ ہر سرمایہ دار کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی جنس کو انسانیت کی سب سے اہم ضرورت بنا کر پیش کرے۔ لہٰذا منافع پر مبنی منڈی کا یہ نظام موضوعی ترجیحات کے تحت نہیں چلتا بلکہ ان کا تعین کرتا ہے۔

مارجنل ازم اس بات کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے کہ مارجنل یوٹیلیٹی سے اگر قدر اور قیمت کا تعین ہوتا ہے تو لاکھوں کروڑوں مختلف انفرادی ترجیحات اور ضروریات کے ٹکراؤ میں سے یکساں قیمتیں کیسے برآمد ہوتی ہیں اور یہ قیمتیں ’’آزاد مقابلہ بازی‘‘ کے مثالی حالات میں بھی لمبے عرصوں تک مستحکم کیوں رہتی ہیں۔ گوشت کے ٹکڑے کی ’’مارجنل یوٹیلیٹی‘‘ایک پیٹ بھرے ارب پتی اور فاقہ کش مزدور کے لئے ایک سی ہوسکتی ہے؟ اگر نہیں تو بازار میں اس کی قیمت ہر دو افراد کے لئے برابر کیوں ہوتی ہے؟

منطق سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا کوئی بھی انسان دیکھ سکتا ہے کہ مارجنل ازم کا یہ پہاڑ درحقیقت ’’گردشی منطق‘‘ (Circular Reasoning) کی رائی پر مشتمل ہے۔ موضوعی ترجیحات کو قیمتوں کا معیار بتایا جا رہا ہے لیکن ترجیحات کے تعین کے لئے قیمتیں ضروری ہیں۔ یعنی مسجد گھر کے سامنے ہے اور گھر مسجد کے سامنے۔ اور دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے۔ قیمتوں کا تعین مارجنل یوٹیلیٹی سے ہونا چاہئے لیکن ’’یوٹیلیٹی‘‘ کا اپنا تعین قیمت کے ساتھ موازنے کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ صارف کے منڈی میں داخل ہونے کے بعد قیمتیں طے نہیں ہوتیں بلکہ ہر جنس قیمت کا سٹیکر ساتھ لے کر منڈی میں آتی ہے۔ سائیکل کے مقابلے میں گاڑی مہنگی ہے۔ لیکن گاڑی چونکہ مہنگی ہے اور صارف کی پہنچ سے دور ہے لہٰذا اس کی مارجنل یوٹیلیٹی زیادہ ہے۔ طلب اور رسد سے قیمتوں کا تعین ہونا چاہئے لیکن طلب اور رسد خود قیمتوں پر منحصر ہوتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں قیمتیں ہی قیمتوں کا تعین کررہی ہیں۔ گردشی منطق کے انہی چکروں میں مارجنلسٹ معیشت دان گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی سے گول گول گھوم رہے ہیں!

قدر کا صارف کی موضوعی ترجیحات، ضرورت کی شدت اور طلب و رسد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’’قدر، قیمت اور منافع‘‘ میں مارکس واضح کرتا ہے کہ ’’لوگ اس مغالطے میں پھنس جاتے ہیں کہ قوت محنت یا کسی بھی دوسری جنس کی قدر کا تعین طلب اور رسد سے ہوتا ہے۔ طلب اور رسد سے منڈی کی قیمتوں میں عارضی اتار چڑھاؤ کے علاوہ کسی چیز کا تعین نہیں ہوتا ہے۔ اس سے صرف اتنا پتا چلتا ہے کہ منڈی میں کسی جنس کی قیمت اس کی قدر سے زیادہ یا کم کیوں ہوتی ہے لیکن خود ’قدر‘ کا تعین نہیں ہو سکتا ہے…قیمتوں پر طلب اور رسد کے اثرات کا قدر کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے …‘‘

’’سرمایہ‘‘ کی پہلی جلد میں مارکس واضح کرتا ہے کہ جنس کی قدر کا تعین اس کی پیداوار پر صرف ہونے والے ’’سماجی طور پر ضروری محنت‘‘ (Socially Necessary Labor) سے ہوتا ہے اور دوسری اجناس کے ساتھ موازنے کے وقت یہی قدر اپنا اظہار ’’قدر تبادلہ‘‘کی شکل میں کرتی ہے۔ کسی شے کے وزن کی طرح ’’قدر تبادلہ‘‘ کو بھی دوسری اشیا کے ساتھ موازنے کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا۔

’’سماجی طور پر ضروری محنت‘‘ کا تصور انفرادی ’’محنت‘‘ کو قدر کا پیمانہ قرار دینے والے کلاسیکی بورژوا معیشت دانوں سے مارکس کو ممتاز کردیتا ہے۔ صرف ’’محنت‘‘ اگر قدر کا تعین کرتی ہے تو پیداوار میں زیادہ وقت صرف کرنے والا ’’سست مزدور‘‘ زیادہ قدر تبادلہ پیدا کرے گا لیکن مارکس واضح کرتا ہے کہ ’’میر ا کہنا یہ ہے کہ محض محنت کی نہیں بلکہ سماجی محنت کی خا ص مقد ار …اور یہ محنت گھنٹوں اور دنوں وغیرہ یعنی وقت کے حساب سے ناپی جائے گی۔ محنت کے یکساں وقت میں جو اجناس بنتی ہیں ان کی مالیت بھی یکساں ہوتی ہے…ممکن ہے یوں نظر آئے کہ اگر کسی جنس کی قدر‘ محنت کی اس مقدار سے ہی طے ہونی ٹھہری جو اس کی تیاری میں کھپ گئی ہے تو پھر آدمی جتنا سست یا کام چور ہو گا اس کے مال کی قدر بھی اتنی ہی بڑھ جائے گی… نہیں، یہ افسوسناک غلط فہمی ہوگی۔ یاد کیجئے کہ میں نے ’’ سماجی محنت‘‘ کا لفظ استعمال کیا تھا۔ یعنی سماج کی ایک خاص حالت میں، پیداوار کے جو اوسط سماجی حالات ہیں ان میں، کام کی رفتار کا جو سماجی اوسط ہے اور لیبر کی ہنرمندی یا قابلیت کے اوسط درجے میں کی گئی محنت۔‘‘

’’سماجی طور پر ضروری محنت‘‘ سے زائد کسی جنس کی پیداوار پر صرف ہونے والی محنت درحقیقت ’’سماجی طور پر غیر ضروری محنت‘‘ ہے جس کا معاوضہ منڈی میں نہیں ملے گا کیونکہ قدر تبادلہ اور قیمت کا تعین ’’سماجی طور پر ضروری محنت‘‘ سے ہی ہوگا۔ لیکن منڈی میں کوئی بھی جنس اتفاقیہ طور پر ہی اپنی قدر کے بالکل مساوی قیمت پر بکتی ہے۔ مقابلے کی منڈی میں قیمت ہمیشہ قدر کے اردگرد گھومتی ہے۔ قدر اور قیمت کا مساوی نہ ہونا مارکسزم کی نفی نہیں ہے بلکہ قدر کا قانون تبھی لاگو ہوسکتا ہے جب قدر اور قیمت برابر نہ ہوں۔

سرمایہ داری کسی معاشی منصوبہ بندی سے عاری نظام ہے جس میں منڈی کی اندھی قوتیں ہی سماجی اور مادی وسائل کے استعمال کی سمت (Resource Allocation) کا تعین کرتی ہیں۔ افراد کی موضی ترجیحات کے مجموعی رجحان‘ طلب اور رسد کو کم و بیش کرتے ہیں۔ کسی جنس کی طلب جب رسد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ اپنی قدر سے زائد قیمت پر فروخت ہونے لگتی ہے جس سے متعلقہ سرمایہ دار اوسط سے زائد شرح منافع حاصل کرتا ہے۔ زیادہ شرح منافع کے تعاقب میں دوسرے سرمایہ دار بھی اس صنعت یا شعبے میں سرمایہ کاری کرنے لگتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں منڈی کی ’’فیڈ بیک‘‘کے تحت وسائل (لیبر، خام مال، ٹیکنالوجی وغیرہ) کا رخ کم منافع بخش شعبوں سے زیادہ منافع بخش شعبوں کی طرف ہوجاتا ہے یہاں تک ان شعبوں میں طلب اور رسد کے متوازن ہوجانے کے بعد شرح منافع اوسط پر آجاتی ہے۔ اگر کچھ اجناس اپنی قدر سے زائد قیمت پر فروخت ہوتی ہیں تو ناگزیر طور پر کچھ دوسری اجناس اپنی قدر سے کم قیمت پر فروخت ہوتی ہیں لیکن منڈی میں موجود تمام اجناس کی مجموعی قیمت ان کی مجموعی قدر کے مساوی ہوتی ہے۔ اپنی قدر سے کم قیمت پر فروخت ہونے والی جنس بھی سرمایہ دار کے لئے تب تک منافع بخش رہتی ہے جب تک اس کی قیمت پیداواری لاگت سے نیچے نہ گر جائے۔

منافع منڈی میں اجناس کے تبادلے سے ’’پیدا‘‘ نہیں ہوتا۔ انسانی قوت محنت (Labor Power) وہ واحد جنس ہے جو پیداواری عمل میں اپنی قدر (اجرت) سے زیادہ قدر پیدا کرتی ہے۔ محنت کش کو اجرت کی شکل میں ملنے والی قدر اور اس کی پیدا کی گئی قدر کا فرق ’’قدر زائد‘‘ کہلاتا ہے اور یہی قدر زائد منڈی میں سرمایہ دار کا منافع بن جاتی ہے۔ زمین کا کرایہ، بینکار کا سود وغیرہ بھی سرمایہ دار اسی قدر زائد میں سے ادا کرتا ہے۔ شرح منافع میں اضافے کے لئے کام کے اوقات کار اور شدت میں اضافہ، محنت کش طبقے کی اجرت میں کمی اور جدید مشینوں کے ذریعے پیداواری عمل میں تیزی جیسے طریقہ کار استعمال کیے جاتے ہیں۔ مشین خود کوئی قدر پیدا نہیں کرتی بلکہ گھسائی (Depreciation) کے عمل میں اپنی قدر جنس میں منتقل کردیتی ہے۔ انسانی محنت کو مشینری اور روبورٹوں سے تبدیل کرنے کا ناگزیر نتیجہ ’’شرح منافع میں کمی کے رجحان‘‘ اور زائد پیداوار کے بحران کی شکل میں برآمد ہوتا ہے جو آج کے عہد میں اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔

جدلیاتی مادیت کی غیر متزلزل بنیادوں پر کھڑا مارکس کا نظریہ قدر وقت کی کسوٹی پر سچ ثابت ہوا ہے۔ مارکسزم کے مقابلے میں حکمران طبقے اور اصلاح پسندوں کی جانب سے نیا نظریہ گھڑنے کی تمام کوششیں مذاق بن کے رہ گئی ہیں۔ نوبل انعام یافتہ بورژوا معیشت دان پال کروگمین کے بقول ’’پچھلے تیس سال کے دوران سرمایہ دارانہ میکرو اکانومی کی تمام تھیوریاں نہ صرف بے کار بلکہ نقصان دہ ثابت ہوئیں ہیں۔‘‘ 1992ء میں ’’تاریخ کا خاتمہ‘‘ کر دینے والا سامراج 2008ء کے بعد سے اپنے ہر سنجیدہ جریدے میں مارکس سے متعلق مضامین شائع کرنے پر مجبور نظر آتا ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت کے اس گہرے بحران سے جنم لینے والے تلخ حالات دنیا بھر میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے شعور کو جھنجوڑ رہے ہیں۔ انسانیت سرمایہ داری کی اذیت سے نجات کا وہ راستہ ڈھونڈ رہی ہے جو صرف انقلابی مارکسزم کے نظریات آشکار کر سکتے ہیں۔

Imran Kamyana
Website | + posts

عمران کامیانہ گزشتہ کئی سالوں سے انقلابی سیاست اور صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی معاشیات اور تاریخ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔