شاعری

کبھی کبھی: فہمیدہ ریاض کی ایک نظم اور ان کا فن

قیصر عباس

فہمیدہ ریا ض اردو اد ب کے ان رویوں کی علم بردار ہیں جہاں وہ صرف نسائی مسائل کو اجاگر کرتی ہوئی شاعرہ ہی نہیں، ایک مکمل شاعر اور نثر نگارکے طور پر جانی جاتی ہیں۔ انہوں نے اردو شاعری کو جدید دور کے مسائل سے بڑی بے باکی کے ساتھ مالا مال کیا۔ انہوں نے تنگ نظری اور فرسودہ روائتوں کے خلاف احتجاج بلند کرتے ہوئے لگی لپٹی رکھے بغیر عورتوں کے حقوق کی بات کی۔ ان سے پہلے بھی شاعرات اور شعرا نے معاشرے میں عورتوں کے استحصال کو اپنی شاعری کا موضوغ بنایا تھا مگر فہمیدہ کے کلام میں جس سچائی اور جرات کے ساتھ نسوانی صعوبتوں کا ذکر کیا گیا وہ اردو ادب میں بہت کم دکھائی دیتا ہے۔

فہمیدہ (1918-46ء) کا خاندان میرٹھ، انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آیا اور حیدرآباد میں سکونت اختیار کی۔ ایم اے کی ڈگری حاصل کی، لندن سے فلم ٹیکنالوجی میں ڈپلومہ کیا پھر ریڈیو پاکستان سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد میں نیشنل بک فاؤنڈیشن اور اردو ڈکشنری بورڈ کی مینیجنگ ڈائرکٹر مقرر ہوئیں۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں، جب زبان اور بیان پر پابندیاں اپنے عروج پر تھیں، انہیں آمرانہ طرز حکومت پر تنقید کے جرم میں گرفتار کر کے پس زندان رکھا گیا۔ حالات کی کشیدگی اتنی بڑھی کہ وہ نقل مکانی کر کے انڈیا چلی گئیں اور آمریت کے اس بدترین دور کے خاتمے کے بعد ہی وطن واپس آ سکیں۔ ان کا مجموعہ کلام ”کیا تم پورا چاند دیکھو گے“ انڈیا میں ان کے قیام کے دوران ہی شائع کیا گیا تھا۔

”پتھر کی زبان“، ”بدن دریدہ“، ”دھوپ“ اور ”کیا تم پورا چاند دیکھو گے“ ان کی شاعر ی کے مجموعے ہیں۔ ان کے علاوہ ناولٹ اور فارسی شعرا کے اردو تراجم بھی شائع کئے۔ انہوں نے نظم اور غزل دونوں میں طبع آزمائی کی لیکن ان کی وجہ شہرت نظم ٹھہری۔ جدید اردو نظم کو روائتی زبان سے نکال کر ایک نئی آواز دینے کا فن فہمیدہ ریاض کو بخوبی آتا ہے۔

اگرچہ فہمیدہ شاعرہ کے طور پر زیادہ مشہور ہیں لیکن وہ افسانہ نگار اور نثر نگار بھی ہیں۔ ڈاکٹر ناظر محمود اپنے مضمون ”فہمیدہ ریاض اپنی نثر کے آئینے میں“ لکھتے ہیں: ”گو کہ فہمیدہ نے اپنے آپ کو ایک بڑی شاعرہ کے طور پر منوایا مگر ان کے نثری تخلیقات و تراجم کا دائرہ بھی وسیع ہے۔“

ان کے افسانے ”کیا گلابی کبوتر جیت گئے“ میں سوویت یونین سے آزاد ہونے کے بعد وسط ایشیائی ریاستوں اور ان کے حوالے سے پاکستان اور پورے خطے میں رجعت پسند ی کی داستان بیان کی گئی ہے۔ افسانہ ”وہ چلی گئی“ عصر حاضر میں نوجوان لڑکیوں کی زندگی اور دشواریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک اور افسانہ ”تکون کے دائرے“ امریکہ میں پاکستانی تارکین وطن کے مسائل پر ایک تنقیدی نظر ڈالتا ہے۔ ان کا ناولٹ ”گوداوری“ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کا جائزہ ہے جو مصنفہ کی سوانح اور داستان گوئی کا مرکب ہے۔

ان کی نظم ”کبھی کبھی“ عورتوں کے ساتھ نا انصافیوں کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ لیکن یہ نظم صرف صنف نازک پر سماجی استحصال کا نوحہ ہی نہیں عورتوں کو ان ذیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ بھی دے رہی ہے اور یہی اس نظم کا حاصل ہے۔ وہ ایک گھٹے ہوئے ماحول میں اپنے جیسی کئی عورتوں کو امید اور شوق کی اس تپش کا احساس دلا رہی ہیں جو دل کے کہیں آس پاس ہے:

کبھی کبھی
اصولِ زندگی ہے یہ، حیات ہے تو آس ہے
دبیز ہوں سیاہیاں تو پھوٹے صبح کی کرن
چلی ہے جب بھی بادِ نامراد، جل اٹھے چمن
سلگ کے اس تپش سے اور بھی چمک اٹھی لگن
وہ شوق کی تپش، کہیں جو دل کے آس پاس ہے
فراق، شدتِ جنوں بھلا سکا ہے کب
صعوبتوں کا سلسلہ بناہے جہد کا سبب
مہک اٹھے ہیں حسرتوں کے پھول، بڑھ گئی طلب
مرے چراغِ شوق کو ہوائے تند راس ہے
جو عزم ہے، امنگ ہے تو ہم مراد پائیں گے
جو اشک میں لہوکا رنگ ہے تو، گل کھلائیں گے
کبھی تو اے خدا…کبھی تو ہم بھی مسکرائیں گے
اسی یقین پر مری امید کی اساس ہے
مگر میں کیا کروں کہ آج دل بہت اداس ہے

طاہرہ پروین الٰہ باد، انڈیا سے شائع ہونے والے جریدے ”جوش بانی: ترقی پسند نظم نمبر“ میں اس نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اس میں ایک احتجاجی رویہ موجود ہے جس کے ذریعے وہ عورتوں کو استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ دیتی ہیں:

”اپنی نظم کے ذریعے وہ عورت کو فرسودہ روایتوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے اگلے اقدام کے لئے تیار کرتی ہے جس سے احتجاج کی چنگاری اور تیز ہو جاتی ہے۔ پھر ان کی عورت مردوں کی دنیا کو بھی للکارتی ہے اور اپنی نئی بنتی ہوئی زندگی کے ساتھ نئے راستوں کو تلاش کرتی ہے۔ یہاں یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ پاکستا ن جیسے اسلامی ملک میں جہاں پر ہر طرف روائتوں، قدامتوں اور مذاہب کی ظاہر پرستی کی روش عام تھی قبیلہ جاتی نظام کا دور دورہ ہے، اس طرح کی فکر اور سوچ فہمیدہ ریاض کے لئے کتنی مشکل تھی۔“

فہمیدہ ریاض کا شمار ملک کے ان دانشوروں میں ہوتا ہے جنہوں نے صنفی اور سماجی مساوات کے لئے ہر قدم پر جرات مندانہ آواز اٹھائی۔ انہیں ہمیشہ ایک باشعور اور ترقی پسند شاعرہ کے طورپر یاد رکھا جائے گا۔

حوالے

1۔ جوش بانی: ترقی پسند نظم نمبر، (مرتبین: اقبال حیدر، علی احمد فاطمی) جولائی 2010ء تا جون 2011ء الٰہ باد۔
2۔ فہمیدہ ریاض اپنی نثر کے آئینے میں، ڈاکٹر ناظر محمود، ہم سب، 2 مئی 2020ء۔

Qaisar Abbas
+ posts

ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔