لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت جمعہ کے روز منعقد کیا گیا، اجلاس میں وزیر اعظم کے علاوہ وفاقی وزرا، مشیر قومی سلامتی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، ڈی جی آئی ایس آئی، آئی بی اور ایف آئی اے اور دیگر سینئر سول و عسکری حکام اجلاس میں شریک ہوئے۔
اجلاس کے بعد سرکاری طور پر جاری کئے گئے اعلامیہ میں کہا گیا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ایل پی کو مزید قانون شکنی پر کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
اعلامیہ کے مطابق کمیٹی کو ملک کی داخلی صورت حال اور ٹی ایل پی کے احتجاج کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کسی بھی گروپ یا عناصر کو امن و عامہ کی صورت حال بگاڑنے اور حکومت پر دباؤ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں ٹی ایل پی کے احتجاج کے دوران جان و مال کو نقصان پہنچانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور کمیٹی نے عزم ظاہر کیا کہ قانون کی عمل داری میں خلل ڈالنے کی مزید کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
تاہم دوسری طرف معروف صحافی اسد علی طور نے اندرونی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ عسکری قیادت نے حکومت کو مذاکرات کرنے اور طاقت کے استعمال سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔ ایسا ہی مشورہ گزشتہ دور حکومت میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی دیا گیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حکومت نے اجلاس سے قبل آئی ایس پی آر سے رابطہ کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیر اطلاعات یا وزیر داخلہ کی مشترکہ پریس کانفرنس کی تجویز پیش کی تھی تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ ٹی ایل پی کے معاملہ پر حکومت اور عسکری ادارے ایک پیج پر ہیں۔ تاہم اسد طور کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے حکومتی تجویز مسترد کر دی تھی۔