لاہور (جدوجہد مانیٹرنگ) حکومت پاکستان نے 6 ماہ بعد جمعہ کے روز کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کیلئے ہونے والے اخراجات کی آڈٹ رپورٹ جاری کرتے ہوئے 40 ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے، آئی ایم آئی کے دباؤ کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔
’ٹربیون‘ کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کے نتائج میں غلط پروکیورمنٹ، غیر مستحقین کو ادائیگیوں، جعلی بائیومیٹرکس کے ذڑیعے نقد رقوم نکالے جانے اور یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کی جانب سے غیر معیاری اشیا کی خریداری کو ظاہر کیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ کی طرف سے مذکورہ رپورٹ کا اجرا ان پانچ پیشگی اقدامات میں سے ایک اقدام ہے، جو اقدامات کرنے کی صورت آئی ایم ایف نے آئندہ سال جنوری تک 1 ارب ڈالر قرض کی قسط ادا کرنے کی حامی بھری ہے۔
رپورٹ کے مطابق آڈیٹرز نے 354.3 ارب روپے کے اخراجات کی جانچ پڑتال کرنے کی کوشش کی، تاہم تمام ریکارڈ ہی نہیں مل سکا۔ دستیاب ریکارڈ سے آڈیٹرز نے 40 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے۔
بی آئی ایس پی کے تحت خرچ کئے گئے 133 ارب روپے میں سے 25 ارب روپے سے زیادہ کی بے ضابطگیاں پائی گئیں، جو ان اخراجات کے 19 فیصد کے برابر تھیں۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن نے 10 ارب روپے خرچ کئے لیکن آڈیٹرز نے 5.2 ارب روپے یا ان اخراجات کے 52 فیصد پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اخراجات 22.8 ارب روپے تھے، جبکہ آڈیٹرز نے 4.8 ارب روپے یا تقریباً 21 فیصد اخراجات پر اعتراضات کئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع کے 3.2 ارب روپے کے مشتبہ اور بے قاعدہ اخراجات تھے جبکہ دیگر سرکاری محکموں کے 1.5 ارب روپے کے مشکوک اخراجات تھے۔
مذکورہ رپورٹ 30 جون 2020ء کو ختم ہونے والے سال کیلئے وفاقی سطح پر امدادی سرگرمیوں میں شامل سرکاری اداروں اور محکموں کے اکاؤنٹس کے آڈٹ پر مبنی ہے اور کورونا سے متعلق اخراجات کی حد تک ہی ہے۔
اس رپورٹ میں کورونا سے نمٹنے کیلئے غیر ملکی امداد، سرکاری طور پر مختص رقم، قرضے اور گرانٹس شامل ہیں۔ آئی ایم ایف نے کورونا ریلیف پیکیج کے تحت 1.4 ارب ڈالر کا قرض بھی دیا تھا۔
اے جی پی کی طرف سے جن اہم مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں غلط خریداری، خریدی گئی اشیا کی ترسیل میں تاخیر، مناسب ضرورت کے تعین کے بغیر خریداری، کمزور مالیاتی کنٹرول، مناسب ریکارڈ کیپنگ کا فقدان اور آڈٹ حکام کو ریکارڈ کی عدم فراہمی شامل تھے۔
اس کے علاوہ گودام کے انتظام کی کمی، آلات کی تقسیم میں مسائل، مناسب طریقے سے ضمانتیں حاصل کئے بغیر سپلائر فرموں کو پیشگی ادائیگی، ڈیٹا کے مسائل جس کے نتیجے میں ایک ہی خاندان میں میاں بیوی دونوں کو نقد گرانٹ جاری کی گئی اور نادرا کی جانب سے مستفید ہونے والے افراد کو اس دوران باہر رکھا گیا۔ بیمہ شدہ افراد، پنشنرز اور بی آئی ایس پی اور زکوۃ دونوں سے مستفید ہونے والوں کو نقد گرانٹس کا اجرا بھی کیا گیا۔
آڈیٹرزنے سرکاری ملازمین، پنشنرزاور انکی اہلیہ، ٹیکس دہندگان اور وفاقی کابینہ اور بی آئی ایس پی بورڈ کے منظورہ کردہ کٹ آف سکور سے زیادہ غربت والے افراد کو ادائیگی جیسے سنگین مسائل بھی پکڑے ہیں۔
احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت سروس ڈیلیوری کے مسائل بھی تھے، جس کے نتیجے میں 1.32 ملین اندراج شدہ مستحقین کو نقد رقم کی منتقلی نہیں کی گئی۔
وبائی مرض سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم نے 24 مارچ 2020ء کو 1.24 ہزار ارب روپے کے پیکیج کی منظوری دی۔ ریلیف پیکیج کے کلیدی مقاصد میں کورونا وبا پر قابو پانا، شہریوں کو طبی، غذائی امداد اور کاروبار و معیشت کیلئے امداد کی فراہمی اور مدد کرنا تھا۔ تاہم اعلان کردہ پیکیج میں سے 30 جون 2020ء تک 354.2 ارب روپے جاری کئے گئے، 314 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا لیکن دیئے نہیں گئے۔
وزارت خزانہ نے وزیر اعظم کے مالیاتی پیکیج سے 314 ارب روپے کی کم ضمنی گرانٹس جاری کیں جس کی وجہ سے شہری اعلان کردہ پیکیج سے مکمل فائدہ نہ اٹھا سکے، بہت سی نجی فیکٹریوں نے کورونا کے دوران اپنے کارکنوں کو نوکریوں سے بھی فارغ کر دیا۔
یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں سے 200 ارب روپے کے وعدے کے برعکس صرف 16 ارب روپے تقسیم کئے گئے۔ کمزور خاندانوں کو 150 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا لیکن 145 ارب روپے دیئے گئے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کا پیکیج 50 ارب روپے تھا لیکن 10 ارب روپے دیا گیا۔ 100 ارب روپے بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن اصل ادائیگیاں 15 ارب روپے کی گئیں۔