پاکستان

ایک فیبیئن سوشلسٹ

ڈاکٹر مظہر عباس اور ڈاکٹر محمد ابرار ظہور

سوائے بانی پاکستان محمد علی جناح کے، ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی میراث پاکستان کی تاریخ کے کسی بھی دوسرے سیاست دان سے حد درجہ زیادہ ہے۔ اس معاملے میں کوئی ان کا ثانی نہیں ہے۔

1973ء کا آئین ان کا نمایاں کام ہے۔ 1980ء کی دہائی میں سیاسی اور سماجی انتشار کے باوجود یہ آئین ان چند عوامل میں سے ایک تھا جنھوں نے ریاستی ڈھانچے میں استحکام اور تسلسل کو یقینی بنایا۔ سیاسی اقتدار سے بھٹو کا زوال اتنا ہی شدید اور غیر متوقع تھا جتنا کہ عروج۔ بہت سے عوامل جیسا کہ شناختی، سیاسی، اقتصادی اور ذاتی، مشترکہ طور پر اس کے المناک انجام کا سبب بنے۔

بھٹو کی موت ان کے ہمنواؤں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی۔ ان کی سیاسی میراث کی نمائندگی پاکستان پیپلز پارٹی کرتی رہی۔ پارٹی کی مقبولیت زیادہ تر بھٹو کی شخصیت پرستی کی مرہونِ منت ہے۔ انھیں آج بھی ملک بھر میں بہت سے لوگ پسماندہ طبقات کے رہنما کے طور پر عزت دیتے ہیں۔

بھٹو پاکستان کی سیاست میں عزیز اور متنفر ناموں میں سے ایک ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی شخصیت، ان کی جماعت اور ان کی سیاست پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک ادب کی بہتات پیدا ہوئی ہے۔

بھٹو کے افکار، ان کی سیاست، ان کی معیشت اور ان کے عروج و زوال کا جائزہ لینے سے پہلے یہاں تین کتابوں (اسٹینلے وولپرٹ کی ”زلفی بھٹو آف پاکستان“، 1993ء؛ انوار ایچ سید کی ”دی ڈسکورس اینڈ پولیٹکس آف ذوالفقار علی بھٹو“، 1992ء؛ اور شاہد جاوید برکی کی ”سٹیٹ اینڈ سوسائٹی اِن پاکستان“، 1979ء کا تذکرہ ناگزیر ہے۔

ان کتب کے مطالعے سے آشکار ہوتا ہے کہ بھٹو ایک فیبیئن سوشلسٹ تھے۔ فیبیئس ایک رومی جرنیل تھا جس نے دوسری صدی قبل مسیح میں کارتھیجینیئن کے خلاف جنگ کی۔ کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ رومیوں نے، فیبیئس کی قیادت میں، تقریباً دس سال تک کھلی جنگ میں کارتھیجینیئن جنرل ہانیبل کا سامنا کرنے سے کامیابی سے گریز کیا۔ اس مقصد کے لئے فیبیئس نے رومیوں کو ہانیبل کے زیر قیادت کارتھیجینیئن کو محض ہراساں کرنے کے لیے ان کا رابطہ منقطع کر دیا۔ لہٰذا فیبیئن سے مراد ایک سست، بتدریج اور مستحکم ترقی ہے۔ انگلینڈ کی فیبیئن سوسائٹی سوشلزم کے نفاذ میں جلد بازی کی بجائے بتدریج پر یقین رکھتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، فیبیئن انقلابی تبدیلیوں کے بجائے ارتقائی پیش رفت پر یقین رکھتے ہیں۔

دو اہم عوامل نے سیاسی اور معاشی فیصلہ سازی میں بھٹو کے انتخاب کا تعین کیا۔ پہلا یہ کہ عالمی تناظر میں یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک (یو ایس ایس آر) ایک متاثر کن اور روشن خیال ریاست تھی کیونکہ اس نے بین الاقوامی سیاست اور طاقت کے تسلط کے مطابق غیر معمولی اقتصادی ترقی کی تھی۔ اس طرح، یو ایس ایس آر نے ایک ماڈل کے طور پر کام کیا، خاص طور پر کم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے لیے۔ دوسرا یہ کہ، سراسر علاقائی اور طبقاتی تفاوت جسے ایوب دورِ حکومت کے ماہر اقتصادیات محبوب الحق نے ظاہر کیا اور اس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہوئی۔ اس کے لئے ایک متبادل معاشی ماڈل کی ضرورت تھی جو غریب اور بے سہارا لوگوں کی غربت اور لاچارگی کو ختم کر سکے۔

علاوہ ازیں، ذوالفقار علی بھٹو ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم، جواہر لال نہرو، کو اپنے لئے رول ماڈل سمجھتے تھے۔ انوار ایچ سید کے مطابق، جیسا کہ بھٹو نے نہرو کا مطالعہ کیا، ”وہ اپنے اور ہندوستانی وزیر اعظم کے درمیان مماثلتیں دیکھتے تھے۔ دونوں امیر گھرانوں میں پیدا ہوئے تھے، دونوں نے اچھے مغربی اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی، دونوں نے تاریخ پڑھی تھی اور دونوں ہی خود کو دانشور سمجھتے تھے۔ اور بولنے کی حد تک دونوں خود کو سوشلسٹ سمجھتے ہوئے بورژوا اقدار کا بہت کم احترام کرتے تھے۔“

کچھ لوگ یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ بھٹو کی اقتصادی اصلاحات نے ترقی اور وسائل کی تقسیم کی رفتار کو فائدہ پہنچانے کے بجائے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچایا۔ مزید برآں، پالیسیوں نے سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی میں اہم کردار ادا کیا، خاص طور پر غیر ملکی زرمبادلہ کمانے والے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد، لیکن یہ بھی معقول طور پر دلیل دی جا سکتی ہے کہ ان کی پالیسیوں کو مغربی پاکستان میں انتخابی مینڈیٹ کی صورت میں قانونی حیثیت حاصل تھی۔ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ان کی جماعت کو مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل تھی۔ وہی معاشی تقسیم کی بنیاد پر علاقائی تفاوت، جو کہ مشرقی پاکستان میں بڑھتی ہوئی ناراضی کا سبب بنی تھی، نے مغربی پاکستان کے سرمایہ دار طبقے کے خلاف نفرت کو تیز کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اس طرح پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور کے مطابق ہونے کے باعث بھٹو کی معاشی اصلاحات، جو سوشلزم کے بتدریج نفاذ پر مبنی تھیں، کو پاکستانی عوام کی حمایت حاصل تھی۔ بھٹو نے کامیابی کے ساتھ خود کو امیر طبقات کے دشمن کے طور پر پیش کیا۔ اس طرح 1970ء کے انتخابات میں ووٹنگ کا انداز بدل گیا۔ زیادہ تر ووٹروں نے قبائلی رابطوں کو نظر انداز کرتے ہوئے امیدواروں کے موقف کی بنیاد پر، یعنی ان مسائل پر جن پر بھٹو نے احتجاج کیا تھا، ان کی حمایت کی۔ یہ پاکستانی سیاسی تناظر میں ایک نیا پہلو تھا۔ انھوں نے نظریہ کے حامل ووٹروں سے رابطہ کیا تھا اور ملک میں انقلاب کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم اقتدار میں آنے کے بعد وہ لاکھوں لوگوں کی امیدوں کو ترک کرتے ہوئے خاموشی سے عملیت پسندی کی طرف بڑھتے نظر آئے۔

بھٹو نے اپنی انتخابی مہم کے دوران پیچیدہ فکری مسائل جیسا کہ سامراج، استعمار، تیسری دنیا، سوشلزم، جاگیرداری، انقلاب، جمہوریت، وفاقیت، اسلامی سوشلزم اور قومی یکجہتی کو محورِ گفتگو بنایا۔ بھٹو کی تقاریر اور بیانات میں ان الفاظ اور تصورات کا استعمال بے مثال تھا۔ گفتگو میں ان کی شراکت ایک پائیدار میراث ثابت ہوئی۔

ایوب خان، ایک فوجی آمر جو کہ اب ایک غیر مقبول آمر میں تبدیل ہو گیا تھا، کے خلاف جذبات کو ابھارتے ہوئے بھٹو نے پاکستان میں جمہوریت کے کردار اور اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ جمہوریت کے بغیر ملک نہ تو بن سکتا ہے اور نہ ہی اسے مستحکم کیا جا سکتا ہے۔

بھٹو کے مطابق معاشی مساوات حقیقی جمہوریت کے لیے ناگزیر تھی۔ اسی احساس کے ساتھ انھوں نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ بلند کیا تھا۔ یہ نعرہ پاکستانی تناظر میں دلکش تھا اور اس نے بھٹو کی نظریاتی وابستگی کے فیبیئن سوشلسٹ رجحانات کی حمایت کی۔ اگر انہیں اقتدار سے بے دخل کرتے وقت قتل نہ کیا جاتا تو ملک کی تقدیر مختلف ہو سکتی تھی۔

Dr. Mazhar Abbas
mazharabbasgondal87@gmail.com | + posts

مصنف نے شنگھائی یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں لیکچرار ہیں۔

Dr. Muhammad Abrar Zahoor
+ posts

ڈاکٹر محمد ابرار ظہور نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور یونیورسٹی آف سرگودھا میں شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان کے چیئرمین ہیں۔