فاروق سلہریا
از دبئی
26 ذوالحج 1440ھ
اھلاً و سھلاً۔ یا اخوان الباکستان ہمیں پتہ چلا ہے کہ ہمارے شاہی خاندان اور ہمارے محترم پڑوسی، امیرِ بحرین، کی جانب سے دولتِ ہند کے وزیر اعظم اخی نریندر مودی کو اعلیٰ انعامات دینے پر آپ لوگ بہت ناراض ہیں۔
سچ پوچھیں تو آپ لوگوں کے ناراض ہونے سے ہمارے خاندان اور ہماری رعایا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یا حبیبی! انہیں ایسی باتوں کا پتہ بھی نہیں چلتا لیکن چونکہ میری پانچ بیویاں پاکستانی ہیں، اس کے علاوہ میں ہر سال دو مرتبہ تلیئر کا شکار کرنے پاکستان جاتا ہوں اس لئے مجھے پاکستان بہت اچھا لگتا ہے اور میں اس کے حالات سے با خبر رہتا ہوں۔ اسی لئے یہ خط لکھ رہا ہوں۔
یا اخوان الباکستان! پہلی بات: ہم ہند سے تجارۃ کرتے ہیں۔ ہند اور چین ہمارے تیل کے سب سے بڑے گاہک ہیں۔ آپ کی طرح وہ ہم سے تیل ادہار نہیں مانگتے۔ نقد رقم ادا کرتے ہیں۔ اس تجارۃ کا فائدہ آپ کو بھی ہوتا ہے۔ اگر ہند ہمارا تیل نہیں خریدے گا تو سوچیں ہم آپ کے ان سابق سپہ سالاروں، سپاہ اور مزدوروں کو تنخواہ کہاں سے دیں گے جو ہمارے ہاں نوکری کرتے ہیں۔
یا اخوان الباکستان! آپ کی ناراضی بارے جب ہم نے اپنے عرب دوستوں کو بتایا تو وہ سب خوب ہنسے۔ سچ تو یہ ہے، ہم خود بھی بہت ہنسے۔ اس ہنسی کی دو وجہ ہیں۔
پہلی بات:ہمارے اخوان الباکستان مودی کو ایوارڈ دینے پر ناراض ہیں۔ انہیں اس بات پر کبھی غصہ نہیں آیاکہ ہم خلیج کے شہزادوں نے نصف صدی سے الباکستان کو شکار گاہ بنایا ہوا ہے اور الباکستان کے مزدوروں کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو ہمارے بدو اونٹوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
ہماری ہنسی کی دوسری وجہ: ہمارے الباکستانی بھائی کبھی بھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے۔ ابھی چند ہفتے پہلے الباکستان نے ہمارے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ میں اس وقت چین کا ساتھ دیا جب المغرب کے ممالک وہیگر مسلمانوں کے مسئلے پر چین کو شرمندہ کرنا چاہتے تھے۔ آپ کو یہ بھی یاد نہیں کہ امریکی طیارے چند سال پہلے تک، شمسی ائر بیس سے افغانستان روانہ ہوتے تھے۔
یا اخوان الباکستان! آپ ہمیں صرف ہماری پانچ بیویوں اور تلیئر کے شکار کی وجہ سے اچھے نہیں لگتے۔ آپ ہمیں اس لئے بھی اچھے لگتے ہیں کہ آپ سوچتے نہیں ہیں۔ آپ کو وہیگر مسلمانوں کی مثال دینے کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ جہاں تجارۃ کی جاتی ہے وہاں انسانی حقوق نہیں دیکھے جاتے۔ آپ کے شاہی سیاستدانوں اور شاہی افواج کے لئے سی پیک ایک اچھا سودا ہے۔ آپ نے اربوں ڈالر کا یہ سودا وہیگر مسلمانوں پر قربان کیا؟
ٰیا اخوان الباکستان! تجارۃ میں دوستی دشمنی نہیں ہوتی۔ سچ تو یہ ہے کہ دوستی اور دشمنی بھی ایک تجارۃ ہے۔ آپ کی ہم سے دوستی ایک تجارۃ ہے۔ آپ تیل، گیس اور ملازمت کے لئے ہمارے ہاں آتے ہیں۔ تیل نکلنے سے پہلے تو آپ ہمارے ہاں حج کرنے بھی نہیں آتے تھے۔ آپ کا خیال تھا ہم آپ کے قافلے لوٹتے ہیں۔ اسی طرح ہماری آپ سے دوستی ہے کیونکہ ہم شکار کرنے اور کھیلنے الباکستان جاتے ہیں۔
ہند سے آپ کی دشمنی بھی ایک تجارۃ ہے۔ اگر یہ دشمنی نہ رہے تو سوچئے کیسے کیسے لوگ بے روزگار ہو جائیں۔ خوشی کی بات ہے آپ سوچتے ہیں نہ پڑھتے ہیں ورنہ آپ کے شاعر تو پچاس سال سے کہ رہے ہیں:
واہگے نال اٹاری دی نئیں ٹکر
ناں گیتا نال قرآن دی اے
نئیں کفر اسلام دا کوئی جھگڑا
ساری گل ایہہ نفع نقصان دی اے
رہی بات ہمارے عیاش ہونے کی تو یا اخوان الباکستان آپ لوگ دبئی آ کر جو حرکتیں کرتے ہیں، ہمیں سب معلوم ہیں۔ ویسے کیا ہم جنرل یحییٰ سے بھی زیادہ عیاش ہیں؟غصہ تھوک دیجئے۔ زبانِ انگلیسی میں ایک محاورہ ہے: بیگرز کین ناٹ بی چوزرز (Beggars can not be choosers)۔ اگلی شادی کرنے آوں گا تو ملاقات ہو گی۔
فی امان اللہ۔
ہز ہائی نیس پرنس سنان بن سلطان الاماراتی
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔