لاہور (جدوجہد رپورٹ) ایران بھر میں حالیہ دنوں میں 22 سالہ خاتون کی اخلاقی پولیس (حجاب پولیس) کے ہاتھوں موت کے بعد ملک میں سختی سے نافذ اسلامی لباس کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔
مہسا امینی کی موت جسے اس کے مبینہ طور پر ڈھیلے اسکارف یا حجاب کی وجہ سے حراست میں لیا گیا، دوران حراست ممکنہ مارپیٹ کے ذریعے مہسا کی ہلاکت نے جرات مندانہ مظاہروں کو جنم دیا ہے۔
’اے پی‘ نے احتجاج کی وجوہات اور مستقبل کا ایک جائزہ لیا ہے۔ جس کے مطابق سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں کچھ خواتین نے لازمی قرار دیئے گئے اسکارف (حجاب) کو پھاڑ دیا اور احتجاج کے طور پر انہیں ہوا میں لہرایا۔ ویڈیوز میں دو خواتین کو اپنے حجابوں کو آگ میں ڈالتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ایک اور خواتین احتجاجاً اپنے بال کاٹتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
کچھ مظاہروں میں مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئی اور دارالحکومت تہران میں آنسو گیس کے گھنے بادل اٹھتے دیکھے گئے۔ موٹر سائیکل سوار فورسز نے مظاہرین کا پیچھا کیا اور کلبوں میں مارپیٹ کی۔
پاسداران انقلاب نامی نیم فوج مسلح گارڈ کے رضاکاروں نے ماضی میں بھی پانی کے حقوق اور ملکی معیشت کی تباہ حالی کے خلاف مظاہروں کو پرتشدد طریقے سے کچلاہے۔ اس کے باوجود کچھ مظاہرین گرفتاری، قید اور سزائے موت کے امکان کے باوجود سپریم لیڈ آیت اللہ علی خامنہ ای اور ایران کی تھیوکریسی دونوں کو نشانہ بناتے ہوئے ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔
ایران میں مظاہروں کی وجہ کیا ہے؟
ایران کی اخلاقی پولیس نے مہسا امینی کو 13 ستمبر کو تہران سے گرفتار کیا، جہاں وہ ملک کے مغربی کرد علاقے میں اپنے آبائی شہر سے آرہی تھیں۔ وہ ایک پولیس اسٹیشن میں گر گئیں اور تین دن بعد ان کی موت واقع ہو گئی۔
پولیس نے انہیں بہت ڈھیلے طریقے سے حجاب پہننے پر حراست میں لیا تھا۔ ایران میں خواتین کو پابند کیا جاتا ہے کہ وہ سر پر اسکارف اس طرح پہنیں جو عوامی سطح پر ان کے بالوں کو مکمل طور پر ڈھانپے۔ طالبان کی حکومت کے تحت صرف افغانستان اب فعال طور پر اسی طرح کا قانون نافذ کر رہا ہے۔ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں ان قوانین کو اب واپس لے لیا ہے۔
امینی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں دل کی تکلیف کی کوئی شکایت نہیں تھی اور انہیں تدفین سے پہلے لاش دیکھنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔ ہفتہ کو کرد شہر ساقیز میں ان کی آخری رسومات کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے اور تیزی سے تہران سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گئے۔
ایران میں خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے؟
ایرانی خواتین کو تعلیم تک مکمل رسائی، گھر سے باہر کام کرنے اور عوامی عہدے پر فائز رہنے کی اجازت ہے، لیکن انہیں عوام میں ایک مخصوص لباس پہننے کی ضرورت ہے، جس میں حجاب کے ساتھ ساتھ لمبے ڈھیلے کپڑے پہننا شامل ہے۔ غیر شادی شدہ مردوں اور عورتوں کو آپس میں ملنے پر پابندی ہے۔
درج بالا قوانین 1979ء کے رد انقلاب کے بعد کے دنوں کے ہیں، اخلاقی پولیس کے ذریعے نافذ کئے جاتے ہیں۔ اس فورس کو سرکاری طور پر گائیڈنس پٹرول کہا جاتا ہے، یہ عوامی علاقوں میں تعینات ہوتی ہے، اس میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔
ایران نے مظاہروں کا کیا جواب دیا؟
ایرانی رہنماؤں نے بے نام بیرونی ملکوں اور جلاوطن اپوزیشن گروپوں پر بدامنی پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے امینی کی موت کے حالات کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ حالیہ برسوں میں احتجاج کے دوران یہ روش ایک عام معمول رہا ہے۔
تہران کے گورنر نے بدھ کو کہا کہ حکام نے دارالحکومت میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں تین غیر ملکی شہریوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ تاہم ان تین غیر ملکیوں کی تفصیل نہیں دی گئی۔ ایرانی سکیورٹی فورسز نے کم از کم 25 افراد کو گرفتار کیا ہے اور صوبہ کردستان کے گورنر کا کہنا ہے کہ احتجاج سے منسلک بدامنی میں مسلح گروپوں کے ہاتھوں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم انہوں نے بھی ہلاکتوں سے متعلق تفصیل نہیں بتائی۔
کیا مظاہرے ایران کی حکومت کو گرا سکتے ہیں؟
ایران کے حکمران ملاؤں نے کئی دہائیوں پرانے مظاہروں کی کئی لہروں کا سامنا کیا ہے، آخر کار انہیں وحشیانہ طاقت سے کچل دیا جاتا رہا ہے۔
ملاؤں کی حکمرانی کیلئے سب سے سنگین چیلنج گرین موومنٹ تھا، جو 2009ء میں ملک کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد ابھری اور اس تحریک نے دوررس اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ اس تحریک میں لاکھوں ایرانی سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
ایرانی حکام نے وحشیانہ کریک ڈاؤن کے ساتھ جواب دیا۔ پاسداران انقلاب اور بسیج ملیشیا نے مظاہرین پر گولیاں چلائیں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اپوزیشن رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔
ہلاک ہونے والوں میں ایک 27 سالہ خاتون ندا آغا سلطان بھی شامل تھیں، جو سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگوں کی جانب سے دیکھی جانے والی ویڈیو میں گولی لگنے سے ہلاک ہونے کے بعد احتجاجی تحریک کی ایک آئیکن بن گئیں۔