عدنان فاروق
آپ کا ذریعہ آمدن کیا ہے؟ آپ یہ مہنگا لائف سٹائل کیسے اپنا سکتی ہیں؟
یہ سوال کسی عدالت نے کسی ملزم سے، کسی تھانیدار یاکسی رشوت خور آفسر سے نہیں کئے بلکہ ایک پڑھے لکھے اینکر پرسن نے اپنی دو خواتین شرکاسے کئے جو کہ کم عمر بھی تھیں، ذہین بھی تھیں اور مروجہ ”معیار“ کے مطابق خوش شکل بھی۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ سماجی طور پر بہت کم حیثیت تھیں۔ نہیں جناب! میں معاشی بنیاد پر حیثیت کے کم ہونے کی بات نہیں کر رہا۔ میرا اشارہ ان کے عورت ہونے کی طرف ہے۔ ٹاک شو کے دوران ان دونوں خواتین کا عورت ہونا ان کے لیے وبال بن گیا۔
میں ذکر کر رہا ہوں سوشل میڈیا پلیٹ فارم”ٹک ٹاک“ کے ذریعے شہرت حاصل کرنے والی دو لڑکیوں، حریم شاہ اور سنبل خٹک کی۔ یہ دونوں نوجوان خواتین شہرت کی سیڑھی پر قدم رکھنے کے بعد بہت جلد سیاستدانوں اور طاقتور لوگوں کے قریب پہنچ گئیں۔ ان دونوں کے انٹرویوز کئے جانے لگے اوردونوں جانی پہچانی شخصیات بن گئیں۔
ان کی یہ شہرت اور طاقتور لوگوں سے ان کی قربت چندمردوں کو گوارہ نہ ہوئی۔ یہ مرد اِن کے کچھ نہیں لگتے تھے۔ اس کے باوجود خاصی غیرت دکھا رہے تھے۔ ان غیرت مند مردوں کے سرخیل، مشہور اینکر پرسن مبشر لقمان نے ان کو سیدھے راستہ پر چلانے کی کوشش کی اور انکار پر چوری کا مقدمہ بنا دیا۔
لڑکیوں سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ سیدھا راستہ ڈنر ٹیبل سے ہوکر مبشر لقمان کی خوابگاہ میں اترتا تھا۔ دونوں لڑکیوں نے اس صراطِ مستقیم پر چلنے سے انکار کردیا۔ پھر دو طرح کے لوگ آگے آئے۔ ایک وہ جو مبشر لقمان کے ساتھ اپنا حساب برابر کرنا چاہتے تھے۔ دوسرے، خیر دوسروں کا ذکر چھوڑئیے۔
ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کسی چوری کے کیس میں نامزد ملزمان کو ٹی وی اپنا ائیر ٹائم دے چاہے وہ ملک کا سابق صدر آصف زرداری ہی کیوں نہ ہو۔ ان دونوں خواتین کے سلسلے میں لیکن وافر مقدار میں ائیر ٹائم موجود تھا۔ تجارتی ٹی وی کو ٹی آر پی چاہئیں، چاہے اس کے لئے معاشرے کی جنسی گھٹن کا استحصال کرنا پڑے۔ گھٹن کا تو ویسے یہ عالم ہے کہ لوگ جنسی تشدد کی ایف آئی آر میں بھی جنسی کشش کا سامان ڈھونڈ لیتے ہیں، خیر۔
دو تین چھوٹے چینلز کے چھوٹے اینکرز نے عجیب عجیب سوال پوچھے مگران لڑکیوں کی سرِعام تذلیل کرنے والوں میں سر ِفہرست تھا ”لاہور رنگ“کا لندن پلٹ اینکر، رائے ثاقب۔
لندن پلٹ اینکرپرسن نے بہت تحقیق کر رکھی تھی کہ زنانہ کپڑے کتنے میں خریدے جاتے ہیں؟ ایک فیشن سوٹ کا کتنا معاوضہ ملتا ہے؟ اس نے مذکورہ خواتین کے خاندان پر بھی خاصی تحقیق کر رکھی تھی۔ وہ لائیو پروگرام میں ثابت کرنا چاہتا تھا کہ ان لڑکیوں نے محنت نہیں عزت بیچی ہے۔ شائد ان کو نیچ ثابت کر کے وہ خود کو پاکیزہ ثابت کرنا چاہ رہا تھا۔ ان کی برائی کو بے نقاب کر کے وہ شائد ریٹنگز کے علاوہ ثواب بھی کما نا چاہ رہا تھا اور معاشرے کی خدمت بھی کر رہا تھا اور یہ شرمناک منظر دیکھ کر میں سوچ رہا تھا:
کیا کبھی اس اینکر پرسن نے اپنے چینل کے مالک سے پوچھا کہ وہ یونیورسٹی کے مالک کیسے بنے؟ یا وہ ایک ٹیلی چینل کے مالک کیسے بنے؟ اس نے کبھی اپنے افسر سے یہ پوچھا کہ آپ اتنا امیرانہ طرزِ زندگی کیسے اپنا سکتے ہیں جبکہ چند سال پہلے آپ کی تنخواہ چند ہزار روپے تھی؟ اس نے کبھی کسی ریٹائرڈجنرل، بیوروکریٹ، سیکرٹری، پولیس افسر حتیٰ کہ کسی تگڑے پٹواری اور کلرک سے بھی ایسا سوال پوچھنے کی جرات نہ کی ہو گی۔
پوچھا جاتا ہے تو خاتون فنکاروں سے۔ یہاں تک کہ خاتون صحافیوں سے بھی پوچھا جاتا ہے کہ اپنی ٹی آر پی بڑھانے کیلئے آپ نے کیا کیا؟ یہ سوال کسی مرد اداکاریا ماڈل سے نہیں کیا جاتا۔ ڈھکے چھپے انداز میں پوچھنا یہ ہوتا ہے کہ کہیں آپ جسم فروش تو نہیں!
ویسے انسان لندن پلٹ اینکر پرسن سے بھی پوچھ سکتا ہے کہ بھائی کہیں تیرا پروڈیوسر ہم جنس پرست تو نہیں جو تو مارکیٹ میں موجود اتنے ٹیلنٹڈ لوگوں کو پچھاڑ کر پرایم ٹائم کا اینکر بن گیا؟