خبریں/تبصرے

پشاور دھماکہ: پولیس اہلکاروں کا احتجاجی مظاہرہ، اجتماعی استعفے کے پیغامات

لاہور (جدوجہد رپورٹ) پشاور پولیس لائنز میں ہونے والے دھماکے کے خلاف پورے خیبر پختونخواہ میں احتجاج ہو رہا ہے۔ تاہم سب سے اہم احتجاج محکمہ پولیس کے اہلکاران کی جانب سے سامنے آیا ہے۔

بدھ کے روز سیکڑوں پولیس اہلکاروں نے وردیوں میں پشاور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرے میں پولیس اہلکاروں کے علاوہ سول و سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی شرکت کی۔

مظاہرین نے پولیس لائنز دھماکے کی شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی حملوں کا سلسلہ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین کا موقف تھا کہ پولیس پر مزید حملے برداشت نہیں کئے جا سکتے، ہر بار پولیس کو ہی کیوں قربانی دینی پڑتی ہے؟

مظاہرین کی جانب سے پشتو اور اردو زبان میں نعرے بازی کی جا رہی تھی۔ مظاہرین ’ہم صوبے میں امن چاہتے ہیں‘،’یہ جو نامعلوم ہیں، یہ ہمیں معلوم ہیں‘ سمیت دیگر نعرے لگارہے تھے۔

منگل کے روز خیبر پختونخوا پولیس کے اہلکاران کی جانب سے واٹس ایپ کے ذریعے آڈیو پیغامات بڑے پیمانے پر پھیلائے گئے، جن میں ایک لاکھ پولیس اہلکاران کے اجتماعی مستعفی ہونے کے اعلانات شامل تھے۔

خیبرپختونخوا پولیس کی سپیشل برانچ کی جانب سے ایک رپورٹ بھی سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی، جس میں یہ رپورٹ کیا گیا تھا کہ پولیس کے اندرونی واٹس ایپ گروپوں میں یہ پیغامات بڑے پیمانے پر شیئر ہو رہے ہیں کہ اگر حالیہ حملے کی درست تفتیش نہ کی گئی تو ایک لاکھ سے زائد جونیئر رینک پولیس اہلکاران و افسران اجتماعی طور پر مستعفی ہونے پر غور کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والا سپیشل برانچ کی رپورٹ میں ’آل کے پی کے پولیس جونیئر رینک‘ نامی گروپ کے ذریعے بھیجے گئے واٹس ایپ پیغامات پر مبنی ہے۔ اس رپورٹ میں ایک غیر جانبدارانہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا مطالبہ کیا گیا ہے، جو حملے کے مجرموں کو تلاش کرے اور انہیں سزا دے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ جونیئر رینک اپنے انصاف کے مطالبے پر متحد ہو گئے ہیں اور انتباہ دیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کئے گئے تو وہ اجتماعی استعفیٰ دے دینگے۔

ادھر احتجاج میں شریک ایک پولیس اہلکار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سننے میں آ رہا ہے کہ یہ خود کش دھماکہ نہیں تھا، ابھی یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ خود کش ہے، یا ڈرون ہے، سننے میں یہ آرہا ہے کہ یہ کچھ اور ہے۔ ہم سوال کرتے ہیں کہ پولیس حفاظت میں ہے، یا نہیں۔ پنجاب میں سکیورٹی بھی نہیں ہے، پھر بھی سب ٹھیک چل رہا ہے، یہاں سکیورٹی بھی ہے، لیکن کچھ ٹھیک نہیں ہے۔‘

احتجاجی کی صورت کارروائی کے خدشے پر مبنی سوال کے جواب میں اہلکار کا کہنا تھا کہ ’کوئی مسئلہ ہو یا نہ ہو ہم مجبور ہر کر احتجاج پر آئے ہیں۔ ہر بار افسران کہتے ہیں کہ آپ ہمارے بیٹے ہیں۔ اگر اس احتجاج کے بعد کسی کو نقصان پہنچا تو ہم وردی کے بغیر بھی لڑیں گے۔‘

ایک اور اہلکار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے بھی بچے ہیں۔ مرنے والے سپاہیوں کے بچوں کو جنازوں کے پاس روتے میڈیا پر دیکھ کر ہمارے بچے ہمیں گھر سے نکلتا دیکھ کر سہم جاتے ہیں۔‘

انکا کہنا تھا کہ ’یہ مسئلہ ہمارے افسروں کی کارکردگی کا نہیں ہے، یہ اس نظام کا مسئلہ ہے۔ ہم یہاں مر رہے ہیں اور اوپر یہ کہانی ہو رہی ہے کہ دھماکہ ہو گیا ہے، اب الیکشن لیٹ ہونگے یا نہیں ہونگے۔ کئی سپاہیوں نے خودکش بمباروں کو گلے لگا کر باقیوں کی زندگیوں کو بچایا ہے۔ مجھے کوئی بتائے کہ 30 یا 40 ہزار کیلئے ایسے کون اپنی جان قربان کرتا ہے؟‘

دریں اثنا خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں پولیس لائن دھماکے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے ہیں۔ پشاور بار ایسوسی ایشن نے آج جمعرات کو مکمل ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔ مختلف تعلیمی اداروں سمیت قبائلی اضلاع میں بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

پشاورپولیس لائنز دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 101 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر پولیس افسر و اہلکاران شامل ہیں۔ پیر کو ہونے والے اس بم دھماکے کو گزشتہ ایک دہائی کا سب سے مہلک حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔

پشاور پولیس کے سربراہ اعجاز خان نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ’ہمیں کچھ بہترین سراغ ملے ہیں اور ان سراغوں کی بنیاد پر ہم نے کچھ بڑی گرفتاریاں کی ہیں۔ ہم اندرونی مدد کو مسترد نہیں کر سکتے لیکن چونکہ تحقیقات ابھی جاری ہیں، میں مزید تفصیلات بتانے کے قابل نہیں ہوں گا۔‘

Roznama Jeddojehad
+ posts