دنیا

مسلم دنیا میں سامراج مذہبی بنیاد پرستی کا سر پرست اعلیٰ رہا ہے

فاروق سلہریا

5 جنوری 1957ء، امریکی صدر آئزن ہاور نے کانگرس سے مطالبہ کیا کہ انہیں اس بات کا اختیار دیا جائے کہ وہ خلیج کی ہر اس قوم کو زیادہ معاشی و عسکری مدد، حتیٰ کہ امریکی پروٹیکشن فراہم کر سکیں، جسے کیمونزم سے خطرہ لاحق ہے۔ دو ماہ بعد کانگرس نے ایک قرار داد منظور کی جسے آئزن ہاور ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا۔ اس ڈاکٹرائن کا اصل نشانہ عرب قوم پرستی تھی (بحوالہ یعقوب، 2004، ص 1 تا 2)۔

مشرق وسطیٰ کو کیمونسٹ خطرے سے بچانے کے لئے امریکہ نے مذہبی بنیاد پرستی کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا۔

اس ضمن میں اس امکان کا بھی جائزہ لیا گیا کہ کس طرح سعودی سلطان شاہ سعود کو جمال عبدالناصر کے مقابلے پر لایا جائے۔ شاہ سعود بھی یہ کھیل کھیلنے کے لئے تیار تھے۔ شاہ سعود کا انتخاب ایک قدرتی سی بات تھی کیونکہ انہیں کیمونزم سے شدید نفرت تھی۔ شاہ سعود نے عراق کا دورہ کیا۔ عراق کے سلطان نے بھی ساتھ دینے کا وعدہ کیا (مضاوی 2002: ص 116)۔ یاد رہے عراق اور اردن میں برطانوی سامراج نے شریف مکہ کے بیٹوں کو بادشاہ مقرر کر دیا تھا۔ عراق میں 1959ء کے انقلاب کے بعد بادشاہت کا خاتمہ ہو سکا۔ شاہی خاندان اس انقلاب کے دوران مارا گیا۔ جنوری 1957ء میں جب شاہ سعود نے امریکہ کا دورہ کیا تو آئزن ہاور، روایات کے بر عکس، شاہ سعود کا استقبال کرنے خود ائر پورٹ پہنچ گئے۔ امریکی دورے سے واپسی پر، شاہ سعود نے دہران ائر بیس مزید پانچ سال کے لئے امریکہ کو لیز پر دے دیا (ہالیڈے، 2002: ص 54)۔ کیمونزم سے نپٹنے کے لئے بنیاد پرستی سے اتحاد کی امریکی پالیسی در اصل برطانوی پالیسی کا ہی تسلسل تھا۔ اس خطے میں امریکہ سے پہلے برطانیہ کی طوطی بول رہا تھا۔

مصر میں کیمونسٹ نظریات کو پاوں پر کھڑا کرنے والا شخص ایک یہودی تھا: جوزف روزنتھال۔ جوزف کو البتہ کیمونزم کو مقبول بنانے میں ایک غیر متوقع حلقے سے ”مدد“ ملی۔ جی ہاں! برٹش جنرل سٹاف انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کا بھلا ہو جس نے جوزف کا کام آسان بنایا۔ ہوا یوں کہ برٹش جنرل سٹاف انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ نے اگست 1919ء میں مفتی اعظم شیخ محمد بختی سے کیمونزم کے خلاف فتویٰ جاری کرایا۔ برٹش جنرل سٹاف انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کا مقصد تو تھا کہ کیمونزم نامی برائی کا علاج اس طرح سے کیا جائے کہ یہ پھیلنے ہی نہ پائے مگر ہوا اس کے الٹ۔ ہوا یوں کہ قوم پرست اور ترقی پسند پریس نے الٹا فتویٰ کی مخالفت شروع کر دی۔ یوں بجائے کیمونزم کو بدنام کرنے کے، یہ فتویٰ کیمونزم میں لوگوں کی دلچسپی، تجسس اور شہرت کا باعث بنا (بطاطو، 2004: ص 374 تا 377)۔

عراق میں بھی کیمونسٹوں کا راستہ روکنے کے لئے مذہبی بنیاد پرستی کا سہارا لیا گیا۔ ہوا یوں کہ 1948ء میں ایک بڑی عوامی تحریک ابھری جسے وطبہ کا نام دیا جاتا ہے۔ اسی طرح 1952ء میں انتفادہ (عوامی مزاحمت) نامی تحریک ابھری۔ ان تحریکوں میں مارکس وادیوں نے قائدانہ کردار ادا کیا اور جانیں تک قربان کر دیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کیمونسٹ پارٹی ملک کی سب سے بڑی جماعت بن گئی بلکہ کہا جاتا ہے کہ کیمونسٹ پارٹی عرب دنیا کی سب سے بڑی جماعت تھی۔ عرب کرد، شیعہ سنی، سب اس کے رکن تھے۔ کیمونسٹ پارٹی کے توڑ کا ذمہ عراق میں موجود تاجِ برطانیہ کے نمائندوں نے اٹھایا۔ 20 اپریل 1949ء کو پولیس کے نام لکھے گئے ایک خط میں رے نامی برطانوی انٹیلی جنس افسر نے لکھا کہ عراق میں کیمونزم کو محض پولیس کے جبر سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ علاوہ اور تجاویز کے، رے کی تجویز تھی کیمونزم کو شکست دینے کے لئے مذہبی اپروچ بھی اپنائی جائے۔

غالباً اس کا نتیجہ تھا کہ 6 اکتوبر 1953ء کو عراق میں تعینات برطانوی سفیر سر جان ٹراوٹ بیک (Sir John Troutbeck) نے عراق کے مجتہد اعظم کاشف الغطا سے رابطہ کیا۔ سفیر نے مجتہد اعظم کو باور کرایا کہ یا حضرت ”کیمونزم سے لڑنے کے لئے علما اور پیران کرام کو جاگنا ہو گا“ (ایضا: ص 694)۔

آئزن ہاور ڈاکٹرائن کو پہلی بار اردن مین آزمایا گیا۔ اردن میں اردن کے سلطان شاہ حسین کی سر پرستی میں قوم پرستوں کو اخوان المسلمین کی مدد سے کچلا گیا۔ وہ دن آج کا دن، اس ملک میں جمہوریت پنپ سکی نہ انسانی حقوق کسی کو ملے۔ ان دنوں، آئزن ہاور نے ”شر پسند عناصر کی اپنے ملک اور حکومت میں سے بیخ کنی کے لئے بہادری سے لڑائی لڑنے پر“ اردن کے شاہ حسین کو شا باش دی (یعقوب، 2004: ص 135)۔

اس سے کچھ دیر پہلے، 1951 میں، ایرانی پارلیمنٹ نے اکثریت رائے سے فیصلہ کیا کہ اینگلو ایرانین آئل کمپنی کو قومی ملکیت میں لے لیا جائے۔ اس فیصلے کے کچھ عرصے بعد مصدق انتخابات جیت کر ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ ایران کی کیمونسٹ پارٹی، طودہ پارٹی، ان کی حمایت کر رہی تھی اور ملک کی سب سے بڑی جماعت سمجھی جاتی تھی۔ مصدق کی ماسکو سے دوستی پر واشنگٹن نالاں تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سی آئی اے کی مدد سے مصدق کے خلاف بغاوت کرائی گئی اور یوں ایران کا پہلا جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم گھر بھیج دیا گیا (ایضا، ص 29 تا 30)۔

حزبِ معمول، سی آئی اے نے جمہوریت کی پیٹھ میں یہ خنجر آیت اللہ کاشانی کی مدد سے گھونپا۔ ان خدمات کی ادائیگی کے لئے سی آئی اے نے آیت اللہ کاشانی کو اُس دور میں دس ہزار ڈالر دئیے تھے (کنزر، 2003: ص 157 تا 178)۔

عرب دنیا اور خلیج پر ہی کیا موقوف ہے، مسلم دنیا میں جگہ جگہ امریکی سامراج نے اسلامی بنیاد پرستوں کی سر پرستی کی۔ ایڈورڈ سعید کہتے ہیں: ”فلسطین میں صرف ایک یونیورسٹی ایسی ہے جو فلسطینی سرمائے سے نہیں بنی اور وہ ہے غزہ کی اسلامک (حماس) یونیورسٹی جسے اسرائیل نے شروع کیا تھا تا کہ انتفادہ کے دوران پی ایل او کو کمزور کیا جا سکے“ (سعید، 1997: ص xxxix)۔

یاسر عرفات نے ایک دفعہ کہا تھا ”حماس اسرائیل کی پیداوار ہے جسے وزیر اعظم اضحاک شمیر نے پیسہ دیا اور 700 سے زائد ادارے بنا کر دئے جن میں سکول، یونیورسٹیاں اور مساجد شامل تھیں“ (نیپالیونی، 2003: ص 70)۔

لبنان کی تنظیم حزب اللہ بارے اکثر کہا جاتا ہے کہ اسے ایران کی سر پرستی میں بنایا گیا۔ لبنانی نژاد اکیڈیمک جلبیر اشقر البتہ کہتے ہیں کہ اسرائیل نے سیکولر نظریات رکھنے والے ہر مسلح گروہ کو غیر مسلح کیا جن کے ممبر زہر مذہب اور فرقے کے لوگ شامل تھے لیکن فرقہ وارانہ گروہ چاہے شیعہ تھے یا دروز اور عیسائی، انہیں غیر مسلح نہیں کیا“ (اشقر اور چامسکی، 2007: ص 29)۔

ویسے دور جانے کی کیا ضرورت ہے۔ بھٹو کے خلاف تحریک کے دوران جماعت اسلامی کے کارکن امریکی سنٹر کے سامنے سے گزرتے ہوئے امریکہ زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہوئے پائے گئے۔ طالبان تھے یا القاعدہ، دونوں گروہ افغان جہاد کے دوران سعودی ڈالروں، سی آئی اے کی سرپرستی اور آئی ایس آئی کے اختلاط سے پیدا ہوئے۔ ان دنوں لوگ فیس بک پر از راہ ِمذاق ایویں تو نہیں کہہ رہے:

’ڈالر کے درجات اس لئے بھی بلند ہو رہے ہیں کہ اس نے کئی بار جہاد میں حصہ لیا‘۔

حوالہ جات:

Batatu, H (2004) The Old Social Classes & the Revolutionary Movement in Iraq. London: Saqi.

Achcar, G & Chomsky, N (2007) Perilous Power. London: Saqi.

Halliday, F (2002) Arabia without Sultans. Saqi: London.

Kinzer, S (2003) All the Shah’s Men. New Jersey: Wiley

Madawi, A (2002) History of Saudia Arabia. Cambridge: Cambridge University Press.

Napoleoini, L (2003) Modern Jihad. London: Pluto.

Said, E (1997) Covering Islam. New York: Vintage.

Yaqub, E (1997) Containing Arab Nationalism. University of North carolina Press.

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔