لاہور (جدوجہد رپورٹ) پاکستان کی بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 7.9 کمی واقع ہوئی ہے۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ سیکٹر کو خام مال کی کمی، مہنگے قرضے اور ناموافق کاروباری ماحول کی وجہ سے بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔ پیداوار میں کمی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر صنعتی مزدوروں کے ملازمتوں سے محروم ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
’ٹربیون‘ کے مطابق پاکستان بیورو آف شماریات (پی بی ایس) نے منگل کو لارج سکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) صنعتوں کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کا صنعتی شعبہ موجودہ معاشی حالات میں بری طرح متاثر ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافے کے علاوہ ملکی ٹیکس ریونیو میں بھی کمی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ایل ایس ایم صنعتوں میں ترقی کی رفتار ایک سال قبل جنوری کے مقابلے میں 7.9 فیصد کم ہوئی ہے۔ درآمدات پر عائد پابندیوں کی وجہ سے یہ شعبہ متاثر ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے درآمدی خام مال کی کمی ہے۔ کرنسی کی قدر میں زبردست کمی نے خام مال کو بھی مہنگا اور کاروباری ماڈلز کو ناقابل عمل بنا دیا ہے۔
آئی ایم ایف نے اندازہ لگایا ہے کہ اگر حکومت درآمدات پر پابندی عائد نہ کرتی تو بڑی صنعتوں میں منفی نمو کی رفتار کم ہو سکتی تھی۔ مرکزی بینک نے تجارتی بینکوں کو درآمدی مقاصد کیلئے غیر ملکی کرنسی مختص کرنے سے متعلق ہدایات جاری کی ہیں۔ آئی ایم ایف فی الحال ان رہنما خطوط کو واپس لینے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن مرکزی بینک نے ابھی تک اپنا دسمبر 2022ء کا سرکلر واپس نہیں لیا ہے۔
دریں اثنا حکومت درآمدات کو معمول پر لانے سے پہلے آئی ایم ایف کے معاہدے کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمد نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول ایگریمنٹ کے بعد درآمدی پابندیوں میں نرمی کی جائے گی۔ تاہم نہ تو گورنر اور نہ ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ مکمل ہونے کی کوئی تاریخ دی ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں مرکزی بینک نے بھی اپنی شرح سود کو 20 فیصد تک بڑھا دیا تھا، جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ شرح سود ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف شرح سود میں ابھی مزید اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے، جس کا مقصد مہنگائی پر قابو پانا ہے، جو اس وقت 50 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔
ایل ایس ایم کا رجحان ظاہر کرتا ہے کہ رواں سال صنعتوں کے بند ہونے اور زراعت کے شعبے پر تباہ کن سیلاب کے منفی اثرات کی وجہ سے مجموعی طور پر جی ڈی پی کی شرح نمو تقریباً 1 فیصد رہ سکتی ہے۔ حکومت نے رواں مالی سال میں 5.1 فیصد کی اقتصادی ترقی کا ہدف رکھا تھا، لیکن تازہ ترین تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترقی کی شرح بہت معمولی رہے گی۔
شماریات بیورو پاکستان نے رپورٹ کیا کہ مالی سال 2022-23ء کے جولائی تا جنوری کی مدت میں مجموعی طور پر لارج سکیل مینوفیکچرنگ پیداوار میں 4.4 فیصد کمی واقع ہوئی۔
ایل ایس ایم سیکٹر کل قومی پیداوار میں تقریباً 10 واں حصہ ڈالتا ہے۔ تاہم ایل ایس ایم کے حصہ اور نمو میں مسلسل کمی حکومت کیلئے بہت سی مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔
4.4 فیصد کی مجموعی منفی شرح نمو میں اہم کردار ادا کرنے والوں میں خوراک کا شعبہ شامل ہے، جو معمولی طور پر سکڑ گیا۔ تمباکو کی صنعت میں ایک فیصد سے بھی کم کمی آئی، ٹیکسٹائل کی پیداوار میں 2.7 فیصد کمی آئی، پٹرولیم مصنوعات اور سیمنٹ کی پیداوار میں ایک فیصد سے بھی کم کمی، فارماسیوٹیکلز اور آٹو موبائل بھی رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ کے دوران سکڑ گئے۔ یہ دونوں شعبے درآمدات پر پابندی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
جولائی تا جنوری 2021-22ء کے مقابلے میں جولائی تا جنوری 2022-23ء کی مدت میں کپڑوں، فرنیچر اور فٹ بال کے شعبوں میں پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ لارج سکیل مینوفیکچرنگ انڈیکس میں 21 فیصد حصہ رکھنے والے ٹیکسٹائل سیکٹر کا شیئر کم ہو کر 18.2 فیصد ہو گیا ہے۔ تاہم اس سیکرٹر میں کوئی بھی حرکت اب بھی مجموعی طور پر ایل ایس ایم کی نمو کو نمایاں طور پر متاثر کرتی ہے۔