خبریں/تبصرے

ترکی: اردگان کیلئے مشکلات، صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ 28 مئی کو ہوگا

 

لاہور (جدوجہد رپورٹ) ترکی کے صدارتی انتخابات رن آف کی طرف جا رہے ہیں۔ اتوار کو ہونے والے انتخابات میں کوئی بھی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ دو دہائیوں سے اقتدار پر براجمان رجب طیب اردگان کو مشکل چیلنج کا سامنا ہے۔

ترکی کا صدارتی ووٹ نہ صرف ترکی کی آئندہ قیادت کا فیصلہ کرے گا، بلکہ یہ بھی طے کرے گا کہ سیکولر اور جمہوری روایات کی بحالی ہونے جا رہی ہے، یا نہیں۔ صدارتی ووٹ جدید ترکی کی تاریخ کے شدید ترین بحران سے نکلنے کے حوالے سے بھی فیصلہ کرے گا، روس، مشرق وسطیٰ اور مغرب کے ساتھ تعلقات میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔

’رائٹرز‘ کے مطابق اپوزیشن اتحاد کے امیدوار کمال کلیک داروغلو نے اردگان کی پارٹی پر گنتی اور نتائج کی رپورٹ میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ تاہم اردگان نے قبل از انتخابات جائزوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو کے مطابق اردگان 49.39 فیصد ووٹوں کیساتھ آگے ہیں، جبکہ ان کے حریف کلیک داروغلو نے 44.92 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ تیسرے قوم پرست صدارتی امیدوار سینان اوگن نے 5.3 فیصد ووٹ حاصل کئے۔ وہ اب اگلے مرحلے میں بہت اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔

یہ نتائج ترکی میں گہری سیاسی پولرائزیشن کی عکاسی کر رہے ہیں۔ انتخابات سے قبل رائے عامہ کے جائزوں نے بہت سخت دوڑ کی طرف اشارہ کیا تھا، لیکن 6 جماعتی اپوزیشن اتحاد کے سربراہ کلیک داروغلو کو معمولی برتری حاصل تھی۔ سروے پولز میں انہیں 50 فیصد کی حد سے اوپر دکھایا گیا تھا۔ تاہم نتائج اس کے برعکس آئے ہیں۔

ساڑھے8 کروڑ آبادی پر مشتمل ترکی کو بڑھتی ہوئی مہنگائی، معاشی بحران اور جمہوری و شخصی آزادیوں کے چھینے جانے جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ اب دو ہفتے مزید انتخابی نتائج کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال بحران کو تیز کر سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اردگان دوسرے مرحلے میں جیتنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس صورت میں جہاں اپوزیشن اتحاد کی سیاست کو بہت بڑا دھچکا لگے گا، وہیں اردگان پہلے سے زیادہ سخت گیر اقتدار کی راہ اپنانے کی طرف جائیں گے۔

اپوزیشن اتحاد کی جانب سے محض جمہوریت، سیکولرازم اور یورپ کے ساتھ بہتر تعلقات کے اعلانات اور دعوؤں پر مشتمل الیکشن پروگرام نے وہ پذیرائی حاصل نہیں کی، جو ان کو توقع تھی۔ متبادل واضح اقتصادی پروگرام کی عدم موجودگی میں محض جمہوریت اور سیکولرازم کے دعوے اپوزیشن اتحاد کو ایک گہرئی کھائی کے نزدیک لے آئے ہیں۔

تیسرے صدارتی امیدوار سینان اوگن کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ رن آف میں ایک کنگ میکر ہو سکتے ہیں، جیت کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ وہ کس امیدوار کی حمایت کرتے ہیں۔اپوزیشن امیدوار کلیک داروغلو نے برسوں کے ریاستی جبر کے خاتمے، جمہوریت کوبحال کرنے، بنیادی اقتصادی پالیسیوں کی طرف واپسی، خودمختاری کمپرومائز کرنے والے ارادوں کو بااختیار بنانے اور مغرب کے ساتھ کمزور تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے کا عہد کیا ہے۔خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر اپوزیشن فتح حاصل کرتی ہے تو ہزاروں سیاسی قیدیوں اور کارکنوں کو رہا کیا جا سکتا ہے۔

ناقدین کو خدشہ ہے کہ اگر اردگان دوسری مدت کیلئے جیت گئے تو وہ مزید جارحانہ اور آمرانہ طرز پر حکومت کرینگے۔

تاہم ترکی میں حکمران طیب اردگان کی اسلام پسند پارٹی ایچ کے پی، اپوزیشن اتحاد اور قوم پرستوں میں سے کوئی بھی اقتدار میں آجائے معاشی بحران میں کمی اور کسی بھی حقیقی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ محض انتظامی فیصلوں کی حد تک کچھ تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ اردگان کی صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جیت نے ان کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے اور دوسرے مرحلے کیلئے انہیں ہی فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔

Roznama Jeddojehad
+ posts