اسلم ملک
انہوں نے کتابیں پڑھتے اور کتابیں لکھتے زندگی گزاری۔
آخری سانس بھی 7 اکتوبر 2010ء کی دوپہر پنجاب پبلک لائبریری میں کتابوں کے درمیان لیے۔
اب حوریں بھی حیران ہوں گی کہ یہ شخص کتاب کے سوا کوئی فرمائش ہی نہیں کرتا۔
انیس ناگی صاحب سے ملاقات پاک ٹی ہاؤس میں شروع ہوئی۔
جب میں نے ٹی ہاؤس جانا شروع کیا تو پہلی میز پر عام طور پر سلیم شاہد، یونس ادیب، یونس جاوید، الطاف قریشی، ندرت الطاف، غلام کبریا اور راجا کلیم اللہ بیٹھا کرتے تھے۔ میں بھی (اسرار زیدی صاحب والی میز کے علاوہ) یہاں بیٹھنے لگا۔ انیس ناگی آتے تو کچھ دیر اِس میز پر بھی بیٹھتے۔ ضیاالحق کے مارشل لا کے اس زمانے میں کسی سرکاری افسر کا اس میز پر بیٹھنا حوصلے کی بات تھی۔
کافی عرصے بعد جب ناگی صاحب کو یقین ہوگیا کہ مجھے صرف سیاست سے دلچسپی نہیں، کتاب بھی پڑھتا ہوں تو اپنا رسالہ ”دانشور“ مجھے بھی عطا کرنے لگے۔ کبھی کبھار اپنی کوئی نئی کتاب بھی۔
ایک باران کی نئی کتاب آئی۔ درمیان والی میز کے دوستوں (انتظار حسین، اکرام اللہ، زاہد ڈار، مسعود اشعر، شاہد حمید وغیرہ) میں بانٹنے کے بعد ہماری میز پر آئے۔ میری باری آنے تک کتابیں ختم ہو گئیں۔ میرے چہرے پر جو مایوسی سی لہرائی، وہ انہوں نے بھی محسوس کرلی۔
دو روز بعد میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ ریسیپشن سے فون آیا ”نیچے آئیں، مہمان آئے ہیں“۔ میں پہنچا تو ناگی صاحب تھے۔ مجھے وہ کتاب دی اور کہا ”ایک کام سے ادھر آیا تھا، سوچا تمہیں کتاب دیتا جاؤں۔ جلدی ہے، بس چلتا ہوں۔“
مجھے یقین ہے ہمارے دفتر کی طرف انہیں کوئی کام نہیں تھا!
ادب، ناگی صاحب کا اوڑھنا بچھونا تھا(اوڑھنا بچھونا کے محاورے کا شایدہی کبھی اس سے زیادہ درست استعمال ہوا ہو)۔
شاعر، ناول نگار، محقق، نقاد اورفلم میکر انیس ناگی 30 جولائی 1939ء کو شیخو پورہ میں پیدا ہوئے۔ سنٹرل ماڈل سکول لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ 1957ء میں گورنمنٹ کالج کے جریدے ”راوی“ کے مدیر بنے(بعد میں 1960-61ء میں پنجاب یونیورسٹی کے میگزین ”محور“ کے ایڈیٹر بھی بنے‘یہ ”محور‘‘کا دوسرا شمارہ تھا)۔ 1960ء کی دہائی میں نئی شاعری کی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا، جس کے شرکا کے نزدیک رائج شاعری کا روایتی پیرایہ ناقابل قبول ہوچکا تھا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اس تحریک کے دوسرے شرکا کی طرح انیس ناگی کے ہاں مکروہ، ممنوع اور نامانوس الفاظ بکثرت نظر آتے ہیں۔
انیس ناگی نے اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کرنے کے بعد تدریس شروع کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں پڑھاتے رہے، پھر مقابلے کا امتحان پاس کر کے صوبائی سول سروس میں شامل ہو گئے۔
مجھے لگتا ہے کہ یہ فیصلہ درست نہیں تھا۔ بیورو کریسی نے انہیں قبول نہیں کیا۔ انہیں شاید ہی کوئی اچھی پوسٹنگ ملی ہو۔ ہاں، اس دوران پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کر لی۔ مقالے کا عنوان تھا‘‘Poetry Urdu And Building Sentence Synentics’’
ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پھر تدریس کی طرف آئے۔ اس میں ان کا دل لگتا تھا۔ ان کے شاگرد ان کے مداح تھے۔ زندگی کے آخری دن 7 اکتوبر 2010ء کو پنجاب پبلک لائبریری میں جب ان کے سانس اکھڑنے لگے تو مقالے کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کرنے آئی ہوئی ایک طالبہ نے ہی انہیں سنبھالا اور گھر اور کالج اطلاع دی۔
ڈاکٹر انیس ناگی کی تصانیف میں نقدِ شعر، نیا شعری افق، تصورات، نذیر احمد کی ناول نگاری، افتخار جالب: جدید ادب کا معمار، مذاکرات، جان ایس پرس کی نظمیں (ترجمہ)، سعادت حسن منٹو، غالب ایک شاعر ایک اداکار، جنس اور وجود، ابھی کچھ اور، دیوار کے پیچھے، میں اور وہ، زوال، قلعہ، ناراض عورتیں، بریگیڈ 313، بشارت کی رات، غیرممنوعہ نظمیں، بے خوابی کی نظمیں، زرد آسمان، روشنیاں، نوحے، آگ ہی آگ، مستقبل کی کہانی، جہنم میں ایک موسم، ہوائیں، بیابانی کا دن اور چوہوں کی کہانی شامل ہیں۔
منٹو پر فلم کا سکرپٹ لکھا اور خود بنائی۔ منٹو اس میں یونس ادیب تھے۔
خود نوشت سوانح حیات ”ایک ادھوری سرگزشت“ کے نام سے لکھی۔
1999ء میں اکادمی ادبیات کی طرف سے ناول ’کیمپ‘ پر وزیر اعظم ادبی انعام ملا۔
بی بی سی اردو کی’Obituary‘سے اقتباس:
انیس ناگی ساٹھ کی دہائی میں ’نئی شاعری‘ کی تحریک کے نام سے سامنے آنے والے ان لوگوں میں شامل تھے جن کے لیے رائج شاعری کا روایتی پیرایہ اور اظہار ناقابلِ قبول تھا اور وہ شاعری میں نئے اظہار کو رواج دینا چاہتے تھے۔
نئی شاعری کی اس تحریک کے نمایاں لوگوں میں ان کے ساتھ جیلانی کامران، افتخارجالب، محمد سلیم الرحمان، عباس اطہر، زاہد ڈار، فہیم جوزی اور سعادت سعید کے نام بھی شامل ہیں۔
ان لوگوں میں انیس ناگی کو خاص اہمیت اس لیے حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے تخلیقی کام کے ساتھ ساتھ نظری اور فلسفیانہ اساس فراہم کرنے کا کام بھی کیا۔
انیس ناگی کا دوسرا اہم ترین کام شعری تراجم ہیں جن میں انہوں نے سینٹ جان پرس جیسے شاعر کی طویل نظموں کا ترجمہ کیا۔ جسے اردو میں اس لیے زیادہ سراہا نہیں گیا کہ اردو ادیبوں کی اکثریت سینٹ جان پرس کے نام اور کام سے نا واقف تھی حالانکہ پرس کو انیس سو ساٹھ ہی میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔
انیس ناگی ادب میں مارکسی وجودی رویے سے زیادہ قریب تھے اور البر کامیو کے بھی تراجم کیے۔
دوسری باتوں کے علاوہ انہیں لوگوں کو ناراض کرنے کا فن آتا تھا اور وہ اپنے تئیں جس بات کو سچ اور درست سمجھتے تھے اسے انتہائی بے باکی سے کہتے تھے اور اس میں کسی تعلق کا بھی خیال نہیں رکھتے تھے۔